مصارف زکات – (قسط 5)

مسافر

زکات کا آٹھواں اور آخری مصرف مسافر ہے، سفر بجائے خود ایک ایسی حالت ہے جو انسان کو بے نوا اور محتاج بنادیتی ہے، خصوصاً ان لوگوں کو جن کے پاس زاد راہ نہ ہو، گھر پر رہتے ہوئے کوئی ضرورت پیش آجاتی ہے تو رشتہ دار، دوست اور جان پہچان کے لوگوں کے ذریعہ اس کی تکمیل ہوجاتی ہے، اگر کوئی یونہی دینے کے لئے آمادہ نہ ہو تو قرض ملنے کی امید تو ہوتی ہے، لیکن سفر یقیناًنمونۂ سقر ہے جہاں کوئی کسی پر اعتماد کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے، اس لئے مدد تو دور کی بات ہے قرض دینے والا کوئی نہیں مل سکتا ہے، اس وقت کی محتاجی اور بے چارگی حضر کی محتاجی اور فقیری سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہوتی ہے اس لئے قرآن حکیم نے متعدد جگہوں پر محتاجوں کی فہرست میں مسافرین کو بھی شمار کیا ہے۔

جمہور فقہاء کے نزدیک مصرف زکات وہ مسافر ہے جس کے پاس سفر جاری رکھنے یا واپسی کے لئے زاد راہ نہ ہو، سفر کی شروعات کرنے والے کے پاس اخراجات سفر نہ ہوں تو وہ مصرف زکات نہیں ہے،ایسے شخص کو سفر کرنے کے لئے زکات نہیں دی جائے گی،اس کے برخلاف امام شافعی کے نزدیک ایسا شخص بھی مصرف زکات ہے، اسے زکات کی رقم دی جاسکتی ہے (97) ،لیکن یہ اختلاف حقیقی اور نتیجہ خیز نہیں ہے کیونکہ بالاتفاق تمام فقہاء کے نزدیک مسافر کو زکات دینے کے لئے احتیاج اور فقر شرط ہے اس لئے اگر وہ حالت مسافرت میں احتیاج اور ضرورت کی بنیاد پر زکات لے سکتاہے تو حالت حضر میں فقر واحتیاج کی وجہ سے اسے زکات کی رقم دی جاسکتی ہے تاکہ وہ اس رقم کے ذریعہ سفر کرکے روئے زمین پر رزق تلاش کرے۔
استحقاق زکات کی شرط
ایک مسافر کو درج ذیل شرائط کے ساتھ زکات کی رقم دی جائے گی
(الف) ابتداء سفر، سفر جاری رکھنے یا واپسی کے لئے اخراجات سفر نہ ہوں، آخر کی دونوں صورتوں میں اس وقت بھی اسے زکات کی رقم دی جاسکتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر کے مال کے اعتبار سے غنی ہو، لیکن دورانِ سفر وہ محتاج اور ضرورت مند ہے۔
(ب) سفر طاعت ہو یا سفر مباح جیسے حج، جہاد،طلب علم یا تلاش معاش، سیر وتفریح کے لئے سفر کے مسئلہ میں شافعی اور حنبلی علماء سے مختلف رائیں منقول ہیں، ہماری رائے یہ ہے کہ دوران سفر واپسی کے لئے انھیں زکات کی رقم دی جاسکتی ہے لیکن محض سیر وسپاٹا کے مقصدسے ابتداء سفر یا سفر جاری رکھنے کے لئے زکات کی رقم دے کر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے۔
معصیت کے لئے مثلاً چوری ،قتل یا حرام تجارت کے لئے سفر کرنے والے کو زکات نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ ایک طرح سے معصیت کے کام میں تعاون ہے، چاہے دوران سفر ہو یا ابتداء سفر، البتہ سفر کی ابتداء معصیت کے ارادہ سے ہو لیکن دوران سفر تائب ہوکر واپس ہونے لگے اور کسی افتاد کی وجہ سے اخراجات سفر ختم ہوجائیں تو اسے زکات دی جائے گی۔ (98)
(ج) بعض شافعی اور مالکی علماء کے نزدیک مسافر کو زکات اس وقت دی جائے گی جبکہ اخراجات سفر کے لئے کوئی قرض دینے والا نہ ہو، لیکن علامہ ابن عربی مالکی اور علامہ قرطبی کے نزدیک مسافر کے لئے قرض مانگنا کوئی ضروری نہیں ہے، یہی رائے امام نووی شافعی کی بھی ہے (99)، حنفی علماء کے نزدیک بہتر تو یہی ہے کہ قرض لے کر کام چلائے تاہم قرض مانگنا لازم اور شرط نہیں ہے۔
حنفی فقہاء کے نزدیک وہ لوگ بھی مسافر کے حکم میں داخل ہیں جو اپنے وطن ہی میں ہوں لیکن اپنے مال تک ان کی پہنچ نہ ہونے کی وجہ سے محتاج اور ضرورت مند ہوں۔(100)
مسافر کے لئے ضرورت سے زائد زکات لینا درست نہیں ہے، لیکن ضرورت کے بقدر لینے کے باوجود کسی وجہ سے مال بچ رہے، مثلاً گم شدہ مال مل جائے تو اس کے لئے زکات کی رقم واپس کرنا ضروری نہیں ہے،جس طرح سے فقیر اگر مالدار ہوجائے تو اس کے پاس زکات کا موجودہ مال صدقہ کرنا واجب نہیں ہے۔یہ علماء حنفیہ کی رائے ہے(101) شافعی اور حنبلی فقہاء کے نزدیک مالدار ہونے کی صورت میں ضرورت سے زائد رقم واپس کرنا ضروری ہے گرچہ اس نے تنگی کے ساتھ خرچ کرکے بچایا ہو۔(102)
شرائط استحقاق زکوۃ
قرآن کی مذکورہ آیت میں زکات کے کل آٹھ مصارف بیان ہوئے ہیں، زکات کی رقم انھیں لوگوں کو دی جائے گی، لیکن استحقاق زکات کے لئے بعض شرائط ہیں کہ ان شرائط کی موجودگی ہی میں انھیں دینے سے زکات ادا ہوگی اور اگر یہ شرطیں نہ پائی جائیں تو پھر زکات کی ادائیگی درست نہ ہوگی،ان شرائط میں سے بعض پر ائمہ اربعہ کے درمیان اتفاق ہے اور بعض میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
اسلام
متفقہ شرائط میں سے پہلی شرط اسلام ہے، لہٰذا کسی کافر کو زکات نہیں دی جاسکتی ہے، کیونکہ زکات ایک اسلامی فریضہ اور بندگی کا مظہر ہے جو مسلمانوں سے وصول کیا جاتا ہے،اور انھیں میں تقسیم کیا جائے گا، چنانچہ حضرت معاذ کی حدیث گذر چکی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ ان علیہم صدقۃ توخذ من اغنیاء ہم فترد الی فقراء ہم‘‘ان پر زکات ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انھیں کے فقیروں میں تقسیم کی جائے گی،۔ البتہ ’’مولفۃ القلوب‘‘ کے دائرے میں بعض فقہاء کے نزدیک کافر شامل ہیں جیسا کہ اس سے متعلق تفصیل گذر چکی ہے، اور امام احمد کے ایک قول کے مطابق بحیثیت عامل کافر کو بھی زکات دی جاسکتی ہے۔(103)
لیکن یہ اتفاق صرف زکات کے مسئلہ میں ہے، صدقۃ الفطر اور دیگر صدقات واجبہ کے متعلق امام ابوحنیفہ اور امام محمد کی رائے ہے کہ اس کے ذریعہ کافر کی مدد بھی کی جاسکتی ہے، کیونکہ ارشاد ربانی ہے۔
ان تبدوا الصدقات فنعما ہی وان تخفوہا وتو تو ہا الفقراء فہو خیر لکم ویکفر عنکم من سیاتکم۔
اگر تم صدقات کو ظاہر کرکے دو تب بھی ٹھیک ہے، اور اگر مخفی طور پر فقیروں کو دے دو تو زیادہ بہتر ہے،اور اللہ اس کی وجہ سے تمہارے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا۔ (104)
اس آیت میں فقیر کا لفظ عام استعمال ہوا ہے اس لئے کافر ومسلم ہر طرح کے فقیر کو شامل ہے۔
ایسے ہی کفارہ کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ
فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اہلیکم۔
تو اس قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اوسط درجے کا کھانا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو (105)
نیز صدقات وغیرہ کی رقم کافروں کو دینا حسن سلوک کے دائرہ میں آتا ہے ،اور مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ حسن سلوک سے منع نہیں کیا گیا ہے (106) دیگر فقہاء کے نزدیک صدقۃ الفطر اور کفارہ وغیرہ کی رقم بھی کافر کو نہیں دی جاسکتی ہے ۔(107)
صدقات نافلہ کے مسئلہ میں تمام فقہاء متفق ہیں کہ کافروں کو دیا جاسکتاہے، نیز اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ کافر حربی مرتد اور ملحد کو نہ صدقات واجبہ دی جاسکتی ہے اور نہ نافلہ، کیونکہ ارشاد باری ہے۔
انما ینہاکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم وظاہروا علی اخراجکم ان تولوہم ومن یتولہم فاولئک ہم الظالمون۔
اللہ صرف ان لوگوں کے ساتھ دشمنی کرنے سے منع کرتاہے جنھوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ کی، تمہیں گھروں سے باہر کیا اور تمہارے نکالنے میں مدد کی اور جو شخص ایسے لوگوں سے دوستی کرتا ہے تو وہ ظالموں میں سے ہے ۔(108)
فقر وحاجت
زکات کے لئے فقر واحتیاج شرط ہے ،کسی مالدار اور غنی کو زکات دینا درست نہیں ہے، اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے، لیکن مالداری کا معیار کیا ہے؟ اس میں خاصا اختلاف ہے، حنفی فقہاء نے مالداری کے تین درجے متعین کئے ہیں۔
(1) وہ مالداری جس کی وجہ سے زکات دینا واجب ہوجاتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص ایسے نصاب نامی کا مالک ہو جو دین سے فارغ ہو، نصاب نامی سے مراد دوسودرہم چاندی یا بیس مثقال سونا یا اس کی قیمت کے بقدر سامان تجارت یا مطلوبہ تعداد کے مطابق جانور ہے، جو شخص ان میں سے کسی چیز کا مالک ہو اور اس کے ذمہ قرض نہ ہو تو سال گذرنے پر اس کے ذمہ زکات واجب ہے۔
(2) وہ مالداری جس کی وجہ سے زکات لینا حرام ہے،وہ یہ ہے کہ کوئی شخص نصاب نامی کا مالک نہ ہو لیکن اس کے پاس ضرورت سے زائد مکان، کپڑا،سواری کے جانور، اتنے ہوں کہ ان کی مالیت دوسودرہم کے بقدر ہو، ایسے شخص پر گرچہ زکات واجب نہیں ہے لیکن زکات لینا بھی درست نہیں ہے۔
(3) وہ مالداری جس کی وجہ سے زکات لینا درست ہے، مگر مانگنا حرام ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص نہ تو نصاب نامی کا مالک ہو اور نہ ہی ضرورت سے زائد دوسودرہم کی مالیت کے بقدر حاجت اصلیہ رکھتاہو مگر اس کے اندر کمانے کی صلاحیت ہے وہ کماکر کھا سکتا ہے، اپنی زندگی گذار سکتا ہے یا اس کے پاس ایک دن وایک رات کے گذارے کے بقدر مال ہو یا پچاس درہم کا مالک ہو ایسے شخص کے لئے زکات لینا درست ہے لیکن دست طلب دراز کرنا جائز نہیں ہے۔(109)
امام مالک ،شافعی اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل کے نزدیک مالداری کی کوئی متعین حد نہیں ہے بلکہ جس کی اور جس کے اہل وعیال کی ضروریات زندگی کی تکمیل ہوجاتی ہو وہ مالدار ہے، خواہ ان ضروریات کی تکمیل کسی موجود مال کے ذریعہ ہورہی ہو یا کسب وعمل کے ذریعہ، اور جس کی زندگی کی ضروریات موجود مال اور کسب و عمل کے ذریعہ پوری نہ ہو وہ محتاج اور فقیر ہے گرچہ وہ متعدد نصاب نامی کا مالک ہو۔
امام احمد کا دوسرا قول یہ ہے کہ جو شخص پچاس درہم یا اس کی قیمت کے بقدر سونے کا مالک ہو، یا تجارت،کسب وعمل، زمین وجائداد وغیرہ سے اتنی آمدنی ہوجاتی ہو جو اس کی ضروریات کے لئے کافی ہو تو وہ مالدار ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو فقیر ہے، حضرت سفیان ثوری اور ابن المبارک، اسحق بن راہویہ وغیرہ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے، امام احمد کے پہلے اور دوسرے قول میں فرق یہ ہے کہ پہلے کا دارومدار کفایت پر ہے، خواہ یہ کفایت درہم ودینار کے ذریعہ حاصل ہو یا اس کے علاوہ کسی دوسری چیز سے، اس کے برخلاف دوسری روایت میں درہم ودینار اور دیگر چیزوں میں فرق کیا گیا ہے کہ درہم ودینار میں مالداری کے لئے ایک متعین حد ہے اور اس کے علاوہ دیگر چیزوں میں پہلے قول کی طرح مالداری کو معیار بنایا ہے (110) اس دوسرے قول کی بنیاد اس حدیث پر ہے۔
عن عبداللہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سال ولہ ما یغنیہ جاء ت یوم القیامۃ خدوشا اوکدوشا فی وجہہ قالوا یا رسول اللہ وما غناہ قال خمسون درہما او حسابہا من الذہب۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص غنی ہونے کے باوجود مانگتا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں ہوگا کہ مانگنے کی وجہ سے اس کے چہرے پر خراشیں پڑی ہوں گی، لوگوں نے دریافت کیا،کوئی شخص غنی کب ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ اس کے پاس پچاس درہم یا اس کی قیمت کے بقدر سونا ہو۔ (111)
اس روایت پر امام شعبہ نے حکیم بن جبیر کی وجہ سے کلام کیا ہے لیکن ان کے علاوہ ایک دوسرے راوی زبید بن حارث سے بھی یہ حدیث منقول ہے جو ثقہ اور قابل اعتماد ہیں، اس لئے حدیث قابل استدلال ہے(112)،لیکن موضوع سے غیر متعلق ہے، کیونکہ اس روایت سے محض اتنا معلوم ہورہا ہے کہ جو شخص پچاس درہم یا اس کی مالیت کے بقدر سونے کا مالک ہو اس کے لئے دست سوال دراز کرنا جائز نہیں ہے، لیکن ایسے شخص کے لئے زکات حلال ہے یا نہیں ؟ حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔(113)
امام مالک ،شافعی اور امام احمد بن حنبل کی پہلی روایت کی بنیاد اس حدیث پر ہے۔
عن قبیصت بن مخارق الہلالی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تحل المسالۃ الا لاحد ثلاثۃ رجل یحمل حمالۃ فحلت لہ المسالۃ حتی یصیب قواما من عیش ورجل اصابتہ فاقۃ حتی یقول ثلاثلۃ من ذری الحجا من قومہ لقد اصابتہ فلانا فاقۃ فحلت لہ المسا لۃ حتی یصیب قواما من عیش فما سواہن من المسالۃ فسحت یا قبیصۃ یا کلہا صاحبہا سحتا۔ رواہ احمد ومسلم والنسائی وابوداؤد۔
قبیصہ بن مخارق ہلالی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مانگنا صرف تین شخصوں کے لئے جائز ہے، ایک وہ آدمی جس نے صلح کرانے کے لئے کوئی مالی ذمہ داری قبول کرلی ہو تو اس کے لئے مانگنا جائز ہوجاتا ہے،یہانتک کہ اس کے بقدر حاصل کرے پھر سوال سے باز رہے، دوسرے وہ آدمی جس کا مال کسی آفت کی وجہ سے تباہ ہوجائے تو اس کے لئے مانگنا حلال ہوجاتا ہے یہانتک کہ گذارے کے بقدر مال حاصل کرلے، تیسرا وہ آدمی جو فاقہ کی مصیبت سے دوچار ہے اور اس کی قوم کے تین عقلمند اس کی فاقہ کشی کی اطلاع دے رہے ہیں تو اس کے لئے مانگنا درست ہوتاہے اس کے علاوہ مانگ کر لینا حرام ہے، قبیصہ! اس طرح سے مانگ کر کھانے والا حرام کھاتا ہے، امام احمد،مسلم،نسائی اور ابوداؤد نے اس کی روایت کی ہے۔(114)
اس حدیث کی صحت پر کلام نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن یہ حدیث بھی اپنے موضوع پر صریح نہیں ہے کیونکہ اس میں بے ضرورت سوال کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے، اور بطور تشدید ایسے مال کو’’سحت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، ایسے شخص کو زکات دینا جائز ہے یا نہیں؟ روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ہے، دراصل اس طرح کی احادیث سوال کی حوصلہ شکنی اور دریوزہ گری کے سد باب سے متعلق ہیں، چنانچہ بعض احادیث میں یہانتک کہا گیا ہے کہ
من سال وعندہ ما یغنیہ فانما یستکثر من جمر جہنم قالوا یا رسول اللہ وما یغنیہ قال ما یغدیہ او یعشیہ، رواہ احمد واحتج بہ ابوداؤد وقال الشوکانی اخرجہ ابن حبان وصححہ۔
جو شخص غنی ہونے کے باوجود دست سوال دراز کرتاہے وہ جہنم کے شعلے کو طلب کرتا ہے لوگوں نے پوچھا، یا رسول اللہ! غنی ہونے کی کیا صورت ہے، آپ نے فرمایا جبکہ اس کے پاس صبح وشام کا گذارا موجود ہو امام احمد نے اس کی روایت کی ہے اور امام ابوداؤد نے اسے بطور حجت پیش کیا ہے، علامہ شوکانی نے کہاکہ ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے(115)
اس لئے اختلاف درحقیقت اس بنیاد پر ہے کہ مالداری ایک شرعی اصطلاح ہے یا لغوی مفہوم مراد ہے، جن لوگوں کے نزدیک غنا کا لغوی مفہوم مراد ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شخص ضرورت مند نہ ہو وہ مالدار ہے اور جو محتاج اور نیاز مند ہے وہ فقیر ہے، جیسا کہ امام مالک ،شافعی، اور امام احمد بن حنبل کا خیال ہے، اس کے برخلاف ائمہ حنفیہ کے نزدیک’’غنا‘‘ ایک شرعی اصطلاح ہے، شریعت نے اس کے لئے ایک مخصوص نصاب متعین کیا ہے لہٰذا جو شخص بھی اس نصاب کا مالک ہو وہ غنی اور مالدار ہے اور جو اس کا مالک نہ ہو وہ فقیر اور نادار ہے (116)،اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس سلسلہ سے متعلق تمام احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے غنا کے تین درجات متعین کئے، اور کہا کہ جس کے پاس نصاب نامی کے بقدر مال ہو اس پر زکوۃ واجب ہے کیونکہ شریعت نے زکات دینے کے لئے جو معیار متعین کیا ہے یہ شخص اس معیار پر پورا اترتا ہے، اور کوئی شخص مال نامی کا مالک نہ ہو لیکن اس کے سوا دیگر مال وجائداد ضرورت سے زائد اس کے پاس موجود ہیں اور ان کی مالیت دوسو درہم کے بقدر ہے تو وہ بھی ایک طرح سے غنی ہے کیونکہ ایک نصاب کے مالیت کے بقدر مال اس کے پاس موجود ہے، لہٰذا اس کے لئے زکات لینا حرام ہے لیکن ایک حیثیت سے وہ فقیر بھی ہے کہ غنی کی شرعی تعریف اس پر صادق نہیں آتی ہے اس لئے اسے زکات ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اور اگر کسی کے پاس مال وجائداد نہیں ہے، یا محض بقدر ضرورت ہے لیکن اس میں کمانے طاقت وقوت اور صلاحیت موجود ہے تو سوال سے اسے روکنا چاہئے تاکہ کسی پر بوجھ بن کر نہ رہے بلکہ اپنی صلاحیت کو استعمال کرکے خود فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو فائدہ پہونچائے، اس کا بیکار بیٹھے رہنا جرم ہے لیکن باعتبار حقیقت یہ محتاج اور ضرورت مند ہے لہٰذا اسے زکات دی جاسکتی ہے۔
نیز ان کے پیش نظر یہ بات بھی ہے کہ اموال زکات میں اکتناز اور ذخیرہ اندوزی درست نہیں ہے لہٰذا جس شخص کے پاس بھی اموال زکات سال بھر تک موجود رہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ زکات ادا کرے تاکہ ذخیرہ اندوزی کی کیفیت پیدا نہ ہو نیز ایسا شخص جو سال بھر تک اموال زکات کو روکے رکھتا ہے اسے محتاج کیسے مانا جائے گا، اگر وہ واقعی ضرورت مند ہے تو ان اموال کو بازار میں لاکر اپنی ضرورت پوری کرے۔
فقر واحتیاج ہر مصرف کے لئے ضروری ہےعلماء حنفیہ کے نزدیک فقر واحتیاج ہر مصرف کے لئے ضروری ہے، سوائے عامل اور مولفۃ القلوب کے، دیگر ائمہ اس کے ساتھ غازی اور قرض لیکر مسلمانوں کے درمیان نزاع واختلاف کو ختم کرانے والے کا بھی استثنا کرتے ہیں، مسافر، ذاتی ضرورت کے تحت قرض لینے والے اور مکاتب میں بالاتفاق فقر واحتیاج شرط ہے، جمہور ائمہ کے استدلال کی عمارت اس حدیث پر قائم ہے۔
عن ابی سعید الخدری عن النبی صلی اللہعلیہ وسلم قال لا تحل الصدقۃ لغنی الا لخمسۃ لغاز فی سبیل اللہ او لعامل علیہا او لغارم او لرجل اشتراہا بما لہ او لرجل لہ جار مسکین فتصدق علی المسکین فاہدی المسکین للغنی۔
حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ طرح کے مالداروں کے علاوہ کسی اور مالدار کے لئے زکات حلال نہیں ہے، وہ پانچ یہ ہیں، اللہ کی راہ میں جنگ کرنے والا، وصولی زکات کے لئے کام کرنے والا،مقروض، جس شخص نے صدقہ کی چیز کو کسی فقیر سے خرید لیا ہو، کسی شخص کے مسکین پڑوسی کو صدقہ دیاگیا اوراس نے مالدار کو بطور ہدیہ دے دیا۔
امام مالک اور امام داؤد وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے اور علامہ نووی نے کہا کہ حدیث حسن یا صحیح ہے (117) ،ائمہ حنفیہ کے دلائل یہ ہیں۔
1۔ اعلمہم ان اللہ افترض علیہم صدقۃ توخذ من اغنیاء ہم فترد علی فقراء ہم
انھیں بتلاؤ کہ اللہ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے فقیروں پر خرچ کیا جائے گا۔
علامہ کاسانی کہتے ہیں اس روایت میں انسانوں کو دو گروہ میں بانٹ دیا گیا ہے، ایک وہ جس سے زکات لی جائے گی اور وہ مالدار ہے، دوسرے وہ جنھیں زکات دی جائے گی اور وہ فقیر ہے، لہٰذا غنی اور مالدار کو زکات دینے کا مطلب ہے کہ پھر اس تقسیم کا کوئی مفہوم اور فائدہ نہیں ہے، بلکہ یہ تقسیم ہی باطل ہوجائے گی (118) اور علامہ ابن ہمام کہتے ہیں کہ یہ خیال غلط ہے کہ اس حدیث میں زکات کا صرف ایک مصرف بیان کیا گیا ہے دیگر مصارف کے بیان سے حدیث خاموش ہے لہٰذا حضرت ابوسعید خدری کی روایت اور اس حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ یہ تعلیم اور مکمل بیان اور وضاحت کا موقع ہے، کیونکہ یہ بات آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن بھیجتے ہوئے ارشاد فرمائی تھی، اور لفظ فقیر سے سمجھا جارہا ہے کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جس میں فقر کی صفت ہو،چاہے وہ مقروض ہویا مجاہد، لہٰذا اگر مالدار مجاہد اور مقروض کو زکات دینا درست ہو تو یہ بوقت ضرورت وضاحت نہ کرنے سے بڑھ کر ہوگا… نیز آیت میں مذکور اسماء خود دلالت کرتے ہیں کہ انھیں زکات دینے کا دارومدار احتیاج ہے کیونکہ یہ معلوم ہے کہ جب حکم کسی مشتق پر لگایا جاتا ہے تو ماخذ اشتقاق علت ہوتا ہے اور ان اسماء کا ماخذ اشتقاق حاجت کو بتلاتا ہے لہٰذا حاجت ہی زکات دینے کی علت ہے، سواء مولفۃ القلوب اور عامل کے کہ پہلے میں علت تالیف قلب ہے اور دوسرے میں عامل کا عمل ۔(119)
2۔ عن عبیداللہ بن عدی قال اخبرنی رجلان انہا اتیا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع وہو یقسم الصدقۃ فسئلاہ منہا فرفع فینا البصر وخفضہ فرأنا جلدین فقال ان شئتما اعطیتما ولا حظ فیہا لغنی ولا لقوی مکتسب۔
عبیداللہ بن عدی سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حجۃ الوداع کے موقع پر آئے اس وقت آپ ﷺصدقات تقسیم کررہے تھے، ان دونوں نے بھی اس میں سے مانگا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر دیکھا تو یہ دونوں قوی اور تندرست نظر آئے تو فرمایا کہ اگر چاہو تو میں دے دوں گا، لیکن اس میں کسی مالدار اور کمانے والے تندرست کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔(120)
3۔ عن عبداللہ بن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تحل الصدقۃ لغنی ولا لقوی مرۃ سوی۔
حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ کسی مالدار اور تندرست، طاقتور کے لئے درست نہیں ہے۔(121)
یہ دونوں حدیثیں اسنادی حیثیت سے صحیح بھی ہیں اور اپنے موضوع پر صریح بھی لیکن مشکل یہ ہے کہ علماء حنفیہ توانا اور کمانے پر قادر شخص کو زکات دینے کو درست قراردیتے ہیں اور اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ زجر وتوبیخ پر محمول ہے تو کیا دوسرے فقہاء کے لئے اس کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ حضرت ابوسعید خدری کی مذکورہ حدیث کی وجہ سے مالدار کے حق میں بھی یہی مفہوم مراد لیں یا اس حدیث کے عموم میں تخصیص اور استثنا کریں۔
جمہور کی طرف سے پیش کردہ حضرت ابوسعید خدری کی روایت مختلف طریقوں سے توجیہ وتاویل کی گئی ہے، بعض حضرات نے اس روایت پر سند ومتن کی حیثیت سے کلام کیا ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اسنادی حیثیت سے یہ روایت اگر صحیح نہیں ہے تو حسن ضرور ہے، جیسا کہ امام نووی نے لکھا ہے۔ بعض حضرات نے اسے صحیح تسلیم کرتے ہوئے حضرت معاذ کی حدیث کے معارض دکھانے کی کوشش کی ہے، اور کہا ہے کہ حضرت معاذ کی حدیث جسے امام بخاری ومسلم وغیرہ نے نقل کیا ہے اسنادی حیثیت سے قوی ہے لہٰذا اسے ترجیح دی جائے گی، ہمارے خیال میں ان دونوں احادیث میں تعارض ثابت کرنا بھی بڑا دشوار ہے، البتہ حدیث کی قابل قبول توجیہ کی جاسکتی ہے کہ مالدار مجاہد اور مقروض سے مراد وہ مجاہد اور مقروض ہے جو بظاہر مالدار ہو، اس کے پاس دوسو درہم یا اس کے علاوہ دیگر اموال زکات نصاب کے بقدر موجود ہیں لیکن ادائیگئ قرض کے بعد وہ صاحب نصاب نہ رہے، جنگی سازوسامان اور جہاد کے سفری اخراجات کی تکمیل اس سے نہیں ہوسکتی ہے تو ایسے شخص کو جو بظاہر مالدار ہے حقیقت پر نظر رکھتے ہوئے زکات دی جاسکتی ہے، امام جصاص رازی اور علامہ کاسانی نے یہی تاویل اختیار کی ہے (122)، اور یہ نہایت عمدہ اور قوی توجیہ ہے۔
جو لوگ تمام مصارف کے لئے فقر واحتیاج ضروری قرار دیتے ہیں ان کے اس نظریہ پر دو اعتراض کیا جاتا ہے ایک یہ کہ محض فقر وحاجت ہی علت ہے تو پھر آٹھ مصارف کا ذکر بے معنی اور فضول تکرار ہے، حالانکہ اللہ کا کلام اس سے منزہ اور پاک ہے، دوسرے یہ کہ عامل زکات اور مولفۃ القلوب کا استثناء کس بنیاد اور دلیل پر ہے۔
پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ پھر تو مساکین، مسافرین، ذاتی مقصد کے لئے قرض لینے والا اور مکاتب کا ذکر بھی بے معنی ہونا چاہئے کیونکہ ان سب میں بہ اتفاق فقرواحتیاج شرط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فقر وحاجت زکات کے لئے بنیادی شرط ہے اور فقر وحاجت کی مختلف صورتیں اور شکلیں ہیں، قرآن نے ان میں سے چند اہم صورتوں کا تذکرہ کیا ہے، عمومی طور پر پہلے فقراء اور مساکین کو ذکر کیا اور اس کے بعد مخصوص حاجت مندوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآن مجید کی بعض دوسری آیتوں میں کہا گیا ہے کہ
واتی المال علی حبہ ذوی القربی والیتامی و المساکین وابن السبیل۔

اور اللہ کی محبت میں قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافر کو مال دیتا ہو۔ (123)
یہ آیت یا اس جیسی دیگر آیتوں میں سب کے سب ضرورت مند ہیں اور ہر ایک میں بنیادی طور پر احتیاج شرط ہے تو کیا اس وجہ سے اسے فضول تکرار کیا جاسکتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ بعض اوقات اس طرح کی تفصیل کے ذریعہ بعض ایسی چیزوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے جو عمومی طور پرکسی حکم میں شامل تو ہوتے ہوئے لیکن امکان ہے کہ کچھ لوگوں کی نگاہ اس پر نہ پڑے یا اس کی طرف خصوصی توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے، یہی بات آیت مصارف میں ہے کہ فقیر ومسکین کے دائرے میں بقیہ چھ مصارف بھی داخل ہیں لیکن ان کی اہمیت کے پیش نظر خصوصی طور سے ان کا تذکرہ کیا گیا اور اس لئے بھی کہ ممکن ہے کہ ایک مکاتب بذات خود مالدار ہو لیکن گلوخلاصی کے لئے ضرورت مند ہو، مقروض بظاہر مالدار نظر آتا ہے لیکن اس کے موجود مال کے ذریعہ اس کے قرض کی ادائیگی نہیں ہوسکتی ہے، مسافر اپنے لباس وپوشاک سے مالدار نظر آتاہے اور حقیقت کے اعتبار سے وہ مالدار ہے بھی مگر وہ مال گھر پر ہے، سفر میں وہ ضرورت مند اور محتاج ہے(124)، ایک شخص حضری زندگی کے اعتبار سے مالدار ہے لیکن سامان حرب وضرب اور سفری اخراجات کے اعتبار سے ضرورت مند ہے، ان کی ظاہری حالت کو دیکھ کر خیال ہوسکتا ہے کہ ان کو زکات دینا کیونکر درست ہوگا اس لئے قرآن نے صراحت کردی کہ ان کی ضرورت پر نگاہ رکھو، اگر بظاہر مالدار ہونے کے باوجود ضرورت مند اور محتاج ہوں تو انھیں زکات کی رقم دی جائے گی۔
دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ عامل زکات کو صدقہ کی رقم نہیں دی جاتی ہے بلکہ وہ فقراء کے وکیل ہوتے ہیں اور وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ مانا جاتا ہے اس اعتبار سے زکات عامل کے قبضہ میں آتے ہی فقراء کی ملکیت میں آجاتی ہے اور فقراء کی طرف سے بطور حق الخدمت عامل کو دیا جاتا ہے لہٰذا یہ زکات نہیں ہے بلکہ فقراء کی طرف سے ایک طرح سے اجرت اور مزدوری ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی فقیر کسی مالدار کو بطور تحفہ زکات کی رقم دے دے تو اس کے لئے لینا جائز ہے، ایسے ہی مولفۃ القلوب کو دیا جاتا ہے تاکہ فقراء اور تمام مسلمان اس کی ایذارسانی سے محفوظ رہیں، امام جصاص رازی نے ان دونوں کے استثنا کی یہی دلیل ذکر کی ہے (125)،مجھے عامل زکات کے سلسلہ میں اس دلیل سے اتفاق ہے مگر ’’مولفۃ القلوب‘‘ سے متعلق یہ تاویل برائے تاویل ہی کہی جاسکتی ہے اور اس طرح کی تاویل کے ذریعہ مجاہد اور اصلاح ذات البین کے لئے قرض لینے والے کا بھی استثناء کیا جاسکتا ہے، اس لئے میری نگاہ میں صحیح یہی ہے جیسا کہ ’’مولفۃ القلوب‘‘ کے ذیل میں تفصیل سے ذکر کیا جاچکا ہے۔ مولفۃ القلوب کے لئے بھی فقر شرط ہے، اور اگر استثناء ہے تو صرف عامل کا۔

حواشی:

(97)فتح القدیر 2/205، المجموع 6/214، المغنی 9/330
(98)المجموع 6/215(99)احکام القرآن 2/958، الجامع لاحکام القرآن 8/187، المجموع 6/216 (100)البحرالرائق 2/242
(101)فتح القدیر 2/205 (102)المجموع 6/216، المغنی 9/331 (103)المغنی 4/107
(104)سورۃ البقرہ/271(105)سورہ مائدہ /89(106)البدائع 2/161(107) المجموع 6/228
(108)الممتحنۃ/9

(109)البدائع 2/158۔161، فتح القدیر 2/203(110)مواھب الجلیل 1/425، المغنی 4/119
(111)راہ الخمسہ ، نیل الاوطار 4/161(112) تہذیب التہذیب3/310۔311، معالم السنن 2/56، المغنی 4/119 (113)معالم السنن 2/56

(114)نیل الاوطار 4/168

(115)نیل الاوطار 4/160۔161(116) بدایۃ المجتہد 1/276

(117)المجموع 6/206 (118)البدائع 2/155

(119)فتح القدیر 2/209
(120)سنن ابوداؤد1/231، سنن نسائی 1/364 (121) سنن ابوداؤد1/231، سنن نسائی 1/363، مصنف ابن ابی شیبہ 2/207
(122)احکام القرآن لجصاص 3/127، البدائع 2
(123)سورۃ البقرہ /177 (124)حضرت ابوسعید خدری سے منقول بعض روایتوں کے الفاظ یہ ہیں: لایحل الصدقۃ لغنی الا فی سبیل اللہ عزوجل او ابن السبیل او جار فقیر تصدق علیہ فیھدی لک او یدعوک ، اس روایت میں مالدار مسافر کو بھی زکات دینے کا تذکرہ ہے حالانکہ بہ اتفاق مسافر کے لیے ضرورت مند ہونا شرط ہے، اس لیے امام بیہقی نے حدیث کی یہ توجیہ کی ہے کہ وہ مسافر مراد ہے جو سفر میں ضرورت مند ہو لیکن گھر کے اعتبار سے مالدار ہو ، دیکھئے حاشیہ ابوداؤد م/247۔ تو کیا اس طرح کی توجیہ مقروض اور مجاہد میں نہیں ہوسکتی ہے جبکہ مقروض کے سلسلہ میں ایک دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ اس کے لیے فقرو حاجت شرط ہے چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : المسألۃ لایحل لثلاثۃ لذی فقر مدقع او لذی غرم مقظع او لذی دم موجع رواہ احمدوابوداؤد واخرجہ ایضاً ابن ماجۃ و الترمذی وحسنہ ، نیل الاوطار 4/159، اس روایت میں ذاتی مقصد کے تحت قرض اور اصلاح ذات البین کے لیے قرض لینے والے کی کوئی تفصیل نہیں ہے بلکہ ہر طرح کے مقروض کے لیے فقر کوضروری قرار دیاگیاہے۔

(125)احکام القرآن لجصاص 3/127

تبصرے بند ہیں۔