ندامت کے آنسو

ننھی عفی جب دیکھتی کہ امی اور باجی تلاوت کرتی ہیں تو اس کا دل بھی قرآن لینے کو چاہتا۔ ایک دو بار اس نے چھوا مگرچھوتے ہی دادی یاامی چلاتیں ’’ارے منی قرآن نہ چھوؤ اللہ ناراض ہوگا، اللہ مارے گا، گناہ ملے گا۔ اس کی ننھی عقل میں یہ بات نہ آتی کہ سب لوگ چھوتے ہی نہیں دیر تک پڑھتے رہتے ہیں مگر اللہ نہ تو اس سے ناراض ہوتا ہے اور نہ ہی مارتا ہے۔ امی باجی سے کہتی ہیں! خدیجہ تلاوت کرو تم کو ثواب ملے گا وہ سوچتی ،میں پڑھ تو نہیں سکتی مگر کیا چھو بھی نہیں سکتی۔ ہوسکتاہے مجھے چھونے ہی سے ثواب مل جائے ۔
قرآن مجید کی عظمت اور بڑائی اس کے دل میں اس وقت سے بیٹھی ہوئی تھی جب وہ بالکل ناسمجھ تھی۔وہ دیکھتی کہ قرآن اس کے گھر میں سب سے بلند جگہ رکھاجاتا تھا ۔ امی نے ایک مخمل کا جزدان بھی بنادیا تھا جس میں وہ رکھا جاتا تھا عقیدت و احترام سے سب لوگ اسے ہاتھ لگاتے ۔ ابو تو کئی کئی گھنٹے قرآن پڑھتے اور وہ بھی مختلف طرح کے۔ بعد میں اسے معلوم ہوا کہ وہ قرآن کی تفسیر پڑھتے ہیں۔

قرآن پڑھنے سے پہلے ہی اسے امی نے کئی سورتیں زبانی یاد کرادی تھیں وہ روزانہ رات کو سوتے وقت سورتیں یاد کرتی اور صبح میں جب سب لوگ تلاوت کرتے تو اپنی توتلی زبان سے سب کو سناتی ۔ گھر میں جب کوئی مہمان آتا تو وہ بس موقع کی تلاش میں رہتی اگر ابو کہتے تو بہتر ورنہ پھر وہ خود ہی آگے بڑھ کر مہمانوں سے پوچھتی مجھے بہت سی سورتیں یاد ہیں سناؤں؟ اور پھر جب تک ساری سورتیں اور دعائیں سنانہ لیتی خاموش نہ ہوتی ۔ کتنی بار اسے ٹافی ، بسکٹ اور پیسوں کی شکل میں انعامات ملے۔ پھر ابو نے اسے سمجھایا بیٹا! قرآن سنانے کے لئے انعام لینا ٹھیک نہیں ہے تم انعام نہ لیا کرو۔ مہمانوں سے کہدیا کرو میں تو انعام اللہ سے لوں گی وہ بہتر انعام دے گا۔ جب مہمانوں کے انعام دینے پر وہ اپنی توتلی سے زبان سے یہ الفاظ کہہ کر انعام لینے سے انکار کردیتی تو مہمان بہت متاثر ہوتے ۔
اسے اپنی زندگی کا وہ دن بھی یاد تھا جب پہلی بار قاعدہ بغدادی لے کر وہ مکتب گئی تھی۔ سفید اسکارف میں لپٹی مخمل کے بیگ میں بند خوبصورت قاعدہ اسے اس وقت زندگی کی سب سے قیمتی چیز لگتا تھا۔ صبح ، شام امی ابو اور بھائی بہنوں کی توجہ سے وہ بہت جلد قرآن پڑھنے لگی تھی اور پھر ابو کی خواہش کہ میری بیٹی قرآن کی حافظ بنے اس نے گرہ میں باندھ لی۔ ساتویں جماعت میں وہ قرآن کی حافظہ بن چکی تھی ۔ اور پھر ابو نے ایک شاندار پروگرام کیا۔ بڑے بڑے علماء تشریف لائے ۔ قرآن کی عظمت اور حافظ قرآن کی عظمت پر تقریریں ہوئیں ۔ تمام لوگوں نے اسے مبارکباددی اور عمل کی تلقین کی ۔
ابو نے اسے قرآن سمجھ کر پڑھنے کی ترغیب دی ، انہوں نے اسے بنیادی عربی سکھائی اور قرآن کے کئی ترجمے اور تفاسیر لاکر دیں۔ اب وہ کئی کئی گھنٹے قرآن سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرتی اس کے ابو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا وہ قرآنی علوم ، مباحث اور مشکل مسائل پر اپنی بیٹی سے گھنٹوں گفتگو کرتے رہتے۔ اس نے قرآن پڑھنا، سمجھنا، عمل کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تھا۔
مگر شادی کے بعد اس کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا تھا اس کے شوہر رضوان بس نام ہی کے مسلمان تھے۔ وہ کاروبار میں اس طرح جٹے ہوئے تھے کہ بمشکل جمعہ کے لئے بھی وقت نکال پاتے تھے۔ اس کی ساس ، سسر اور نند بھی روایتی مسلمان تھیں ایک دوبار اس نے انہیں نماز اور قرآن وغیرہ کی طرف متوجہ کیا تو سب نے اس کی خوب کھلی اڑائی ۔ ا س کے شوہر بھی ان موضوعات پر بات کرنے کے روادار نہ تھے۔ شروع میں تو وہ کڑھتی رہی مگر پھر یہ سوچ کر کہ بعد میں کسی مناسب موقع سے کوشش کروں گی وہ خاموش ہوگئی ۔ کہتے ہیں کہ خربوز ہ خربوز ے کو دیکھ کر رنگ پکڑتاہے ۔ وہ جو اپنا اثر ڈالنے کی کوشش کررہی تھی خود ہی متاثر ہونے لگی۔ نمازوں میں تاخیر اور پھر ناغہ اب تو کئی کئی دن کے بعد ایک وقت کی نماز ادا ہوتی۔ قرآن سے بھی اس کا تعلق کمزور پڑتا گیا اب یہ ہوتا کہ وہ تبرکاً جلدی جلدی کچھ آیات پڑھ لیتی اور بس ۔ قرآن کے بیشتر حصے بھی وہ بھول چکی تھی۔ پہلے تو کئی سال تک ابو کے خطوط اور نصیحتیں اسے مہمیز کرتیں مگر تین چار سال پہلے جب والد کا انتقال ہوا تو یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا۔
آج رمضان کی پہلی تاریخ تھی۔ گھر میں انواع و اقسام کے سامان لائے گئے تھے جیسے یہ دل کھول کر کھانے پینے کا مہینہ ہو۔ نہ تو کسی نے نماز پڑھی اور نہ تلاوت۔ اسے اپنا بچپن یاد آگیا رمضان کا مہینہ آتے ہی اس کے پورے گھر کا ماحول روحانیت سے پُر ہو جاتا گھر کا ہر شخص زیادہ سے زیادہ اللہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتا۔ مگر یہاں کی تو دنیا ہی بدل چکی تھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ خود کتنا بدل چکی تھی۔ بستر پر لیٹے لیٹے اسے اپنا بچپن تعلیم اور گھر کا ماحول ایک ایک کرکے یاد آرہے تھے۔ خیالات کانٹے کی طرح اس کے جسم و روح کو زخمی کررہے تھے۔ وہ کیا تھی اور کیا ہوگئی؟ اس کے والد کا چہرہ مجسم سوال بنا اس کے سامنے تھا۔ خیالات کی رونے کئی بار اس کے رخساروں کو بھگا دیا۔ گھنٹوں نیند نہ آئی تو وہ اٹھ بیٹھی۔ ایک نئے عزم اور جذبے کے ساتھ اسے اپنے گھر کو بدلنا ہے اس لئے کہ اگر اس نے گھر کو بدلنے کی کوشش نہ کی تو اس کا انجام بھی ان سے مختلف نہ ہوگا۔ وضو کے بعد اس نے قرآن کو سینے سے لگالیا اس کا چین و سکون اور راہبر اسے دوبارہ مل گیا تھا۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھی اور اس کے آنسو رخسار سے ہوتے ہوئے اس کے کپڑے بھگورہے تھے۔ ندامت اور توبہ کے آنسو۔

تبصرے بند ہیں۔