مشفق خواجہ کی ادبی کالم نگاری (بہ حوالہ ’’خامہ بگوش کے قلم سے‘‘)

پاکستانی محقق اور نقادمشفق خواجہ خامہ بگوش ’’ادبی کالم نگاری‘‘ میں بلند پایہ شہرت کے حامل ہیں۔ انشائیہ کی طرح ’’ادبی کالم‘‘ بھی اردو ادب میں ایک نومولود صنفِ سخن ہے، لہٰذا اس کی خصوصیات متعین نہیں ہوسکی ہیں۔ بنیادی طورپر ہر وہ تحریر ادبی کالم کا جزو بن سکتی ہے جس میں ادبی دنیا سے متعلق کسی واقعہ یا شخصیت پر طنز و مزاح کے پیرائے میں اظہار خیال کیا گیا ہو۔
’’خامہ بگوش کے قلم سے‘‘ ایسے ہی طنزیہ و مزاحیہ کالموں کا منتخب نمونہ ہے ، ان کالموں کا براہ راست تعلق ادبا، شعرا، انشا پرداز، مترجمین، ناقدین اور محققین سے ہے۔ خامہ بگوش انھیں کو اپنا ہدفِ طنزو مزاح بناتے ہیں۔ موجودہ علم و ادب میں فکری انحطاط اور فنی گراوٹ کی واضح تصویر کشی خامہ بگوش کے ان ادبی کالموں میں چیدہ چیدہ ملتی ہیں۔
انھوں نے ۷؍ اپریل 19۷4ء کو روزنامہ ’’صداقت‘‘ (کراچی) سے اپنے اس نئے اسلوب نگارش کا آغاز کیا۔ پھر ’’خانہ بدوش‘‘ کے قلمی نام سے ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میں فکاہیہ کالم ’’ورق ناخواندہ‘‘ لکھنے لگے۔ پھر انھوں نے اپنا قلمی نام بدل کر ’’خامہ بگوش‘‘ رکھ لیا۔ اور 1984ء سے ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ میں ’’سخن در سخن‘‘ کے عنوان سے کالم نگاری کی۔ ان کالموں میں انھوں نے ادیب و شعرا کی خوب جم کر خبر لی۔ مثال کے طور پر جب مولانا کوثر نیازی کا مجموعۂ کلام ’’لمحے‘‘ منظر عام پر آیا، اس میں ایک شعر تھا:
کہیں بکھری ہیں کتابیں، کہیں میلے کپڑے
گھر کی حالت ہی عجب ہم نے بنا رکھی ہے
اس شعر پر خامہ بگوش کا تبصرہ ملاحظہ ہو:
’’یہ تو سنا تھاکہ عشق میں گھر صحرا ہوجاتا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ جلد سازی کی دکان یا لانڈری بھی کھل سکتی ہے۔‘‘
خامہ بگوش زور دار فقرے چست کرنے پر بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں بہ طور نمونہ جوش ملیح آبادی کی خود نوشت سوانح عمری ’’یادوں کی برات‘‘ پر ان کا یہ چوٹیلا فقرہ دیکھیے:
’’اگر گالیوں اور فحش لطیفوں کو حذف کردیا جائے تو یادو ں کی برات کی ضخامت ایک چوتھائی سے بھی کم رہ جائے گی۔‘‘
انھوں نے ادبی عدم توازن کو ہدف تنقید بنانے کے لیے فرضی کردار ’’لاغر مرادآبادی‘‘ خلق کیا ہے ۔ مختلف ادبی مسائل، ادیب و شعرا کے تخلیقی اور نفسیاتی رویوں پر ’’لاغر مراد آبادی‘‘ کے تبصرے مزہ دے جاتے ہیں اس طور پر کہ ہدف بننے والا شخص خود بھی لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہی خامہ بگوش کے فن کا اصل کمال ہے۔
طنز و مزاحیہ کالم نگاری کے لیے انھو ں نے منفرد اسلوب اختیار کیا اور اسے بہ حسن و خوبی برتا ہے۔ سخن سرائی اور سخن سازی میں وہ استادوں کے بھی استاد ہیں۔ وہ بات سے بات پیدا کرتے ہیں اور طنز کے نشتر بھی چبھوتے ہیں۔ اقتباس دیکھیے:
’’اردو غزل کو نیا موڑ دینے کی بات پر ہمیں فراق گورکھ پوری کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک نئے شاعر نے ان سے کہا: میں نے اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دیا ہے۔ فراق صاحب نے فرمایا : جی ہا ں اسی لیے تو نئی اردو شاعری خاصی مڑی تڑی نظر آتی ہے۔‘‘ (آمد اور آورد)
حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی طنز کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے، اسی مجموعے کے دیباچے کا عنوان ’’غلط نامہ‘‘ ان کی ظرافت کا اعلا نمونہ ہے۔ یہ دیباچہ بہ ذات خود ایک ادبی کالم نظر آتا ہے۔ رقم طراز ہیں:
’’خود اپنی کتاب پر دیباچہ لکھنا بہت مشکل ہے۔ کسی دوسرے کی کتاب پر لکھنے میں یہ آسانی ہوتی ہے کہ پڑھے بغیر اس کی وہ خوبی تلاش کرلی جاتی ہے جو اس میں نہیں ہوتی۔‘‘ (غلط نامہ)
یہی اعلا پائے کی ظرافت ان کے ادبی کالموں کے عنوانات سے ٹپکتی ہے، جیسے : الفاظ یا آلاتِ حرب و ضرب، ایک اور غالب شکن، علامہ اقبال کے گھوڑے کاشجرۂ نسب، استفادہ یا سرقہ، طبع زاد تراجم کا خالق ، اسقاطِ سخن ، دنیا دار صوفی، خود نوشت شاعری ، ادب کا جعلی شناختی کارڈ، ادبی غنڈہ ٹیکس اورسفرنامہ یا تذکرہ النساء وغیرہ ۔
ان کی تحریروں میں اردو محاوروں کا استعمال بھی مزاحیہ اسلوب میں جا بہ جا ملتا ہے، مثلاً:
’’عبدالعزیز خالد ایک غیر معمولی ادبی شخصیت ہیں۔ علم و فضل کے اعتبار سے وہ اتنے قد آور ہیں کہ ان کی طرف دیکھنے والوں کی ٹوپیاں گرجاتی ہیں اور ان کا علم و فضل اتنا وزنی ہے کہ اس کی زد میں آکر ٹوپی کے ساتھ اس کا پہننے والا فرد بھی گر جاتا ہے۔‘‘ (الفاظ یا آلاتِ حرب و ضرب)
اس اقتباس سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح ایک محاورہ کے اصل معنی سے قطعِ نظر کرتے ہوئے اس کے لغوی معنی سے مزاح کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ ’’ٹوپی گرنا‘‘ میں کیسا لطیف طنز ہے۔ یہ ان کے زبردست طباّع ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا قاری کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
خامہ بگو ش کبھی کبھی کسی ادبی چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے ڈرامائی طرز بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ اور اپنے طنز آمیز خیالات کا اظہار کسی ڈرامائی کردار کے حوالہ سے کرتے ہوئے اپنے وجود کو محض ایک تماشائی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے اپنے مشہور کالم ’’ایک اور غالب شکن‘‘ میں طنز و مزاح نگار محمد خالد اختر کو غالب کے طرز خطوط نگاری کو فروغ دینے والے قلم کار کی حیثیت سے پیش کرکے ان کے اسلوب پر خود شگوفہ بیانی کے بجائے غالب کے کردار کے توسط سے رائے زنی کی ہے۔ اسی طرح ان کے ہاں ایک کردار ’’لاغر مراد آبادی‘‘ کا ملتا ہے۔ وہ لاغر کو ایک کہنہ مشق ادیب اور نقاد کے طور پر پیش کرتے ہیں ، وقتاً فوقتاً لاغر کی زبان سے مختلف تخلیق کاروں کے فنی معیار پر بے لاگ تبصرہ کرواتے ہیں۔
’’مدح معکوس‘‘ یعنی کسی کی تعریف ، تضحیک کے لہجے میں اور کسی پر طنز، تعریف کے پیرائے میں خامہ بگوش کی تحریرو ں کانمایاں اسلوب رہا ہے۔ اقتباس دیکھیے:
’’اگر کوئی ہمارے تین پسندیدہ شاعرو ں کے نام پوچھے تو ہم رسوائی کے خوف سے بے نیاز ہوکر میر، غالب اور بشیر بدر کے نام لیں گے، میر و غالب کے نام تو تین کی تعداد پوری کرنے کے لیے ہے ورنہ اصل پسندیدہ شاعر ایک ہی ہے جس کی تعریف میں ہم صفحوں کے صفحے سیاہ کرسکتے ہیں، اور یہ سیاہی کسی بھی گناہ گار کے نامۂ اعمال کی سیاہی سے مقابلہ کرسکتی ہے۔‘‘ ( آمد اور آورد)
مذکورہ اقتباس میں طنزیہ اندازِ مدح سرائی یا ہجو ملیح واضح ہے، اسی طرح سے ایک اور اقتباس پیش ہے:
’’ڈاکٹر صاحب کی تحقیق میں گہرائی کا اس سے اندازہ کیجیے کہ علامہ اقبال نے ہائیڈل برگ کے جس مکان میں قیام کیا تھا اس کے موجودہ مالک سے بھی انھوں نے ملاقات کی اور اس کے مفصل حالاتِ زندگی قلم بند کیے اور یہ بھی بتایا کہ اس مکان کے تین منزلوں میں اب کون کون رہتا ہے۔ اور 190۷ء سے لے کر اب تک اس مکان میں کس قسم کی تعمیراتی تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ مفید اطلاع بھی فراہم کی ہے کہ مالک مکان کے نواسے کی عمر چار برس اور نواسی کی عمر سات برس کے قریب ہے۔‘‘ (علامہ اقبال کے گھوڑے کا شجرۂ نسب)
درج بالا اقتباس کے نمونہ سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ خامہ بگوش کس طرح سے ستائشی لہجہ میں طنز کے تیر چلانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ خامہ بگوش کبھی کبھی طنز کے ایک ہی وار سے کئی کئی کو گھائل کرنے میں بھی ماہر نظر آتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’پچھلے دنوں انیس ناگی نے ایک اخباری انٹرویو میں اشفاق احمد کو کامیاب ادیب کہا تھا، اس کے جواب میں اشفاق احمد نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ انیس ناگی کی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اشفاق احمد کو اگر انیس ناگی کی شاعری سمجھ میں نہ آئے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ ایک کی سخن گوئی اور دوسرے کی سخن فہمی عالم بالا سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘ (دنیاد ار صوفی)
درج بالا اقتباس کے نمونہ سے یہ بہ حسن و خوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ انھو ں نے ہمہ پہلو جرح و تعدیل کا اسلوب بھی اختیار کیا ہے، ان سب کے علاوہ خامہ بگوش کسی سنجیدہ مسئلے میں مضحکہ خیز پہلو پیدا کرلینے میں بھی لاثانی نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر عنوان ’’اسقاط سخن‘‘ کے ذیل میں ایک مسئلہ پر مجروح سلطان پوری کی رائے درج کی گئی ہے۔ پھر وہ مجروح کے کثرت سے انگریزی اصطلاحات استعمال کیے جانے پر رقم طراز ہوتے ہیں:
’’اتنی زیادہ انگریزی جناب مجروح کی زبان سے اچھی نہیں لگتی، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں جدیدیے مجروح صاحب کی پیروی میں انھیں Woundedسلطان پوری نہ کہنے لگیں۔‘‘ (اسقاطِ سخن)
اصناف ادب میں دوسری صنفوں کی طرح صحافت کا معیار بھی مائل بہ پستی نظر آتا ہے۔ ان تمام خرابیوں کی بھر پور طریقے سے جرح و تعدیل (Postmortem)ایک کالم ’’خام خیالی یا روشن خیالی‘‘ میں کی گئی ہے۔ بہ طورِ نمونہ اقتباس دیکھیے:
’’صحافت کو کسی زمانے میں شریفانہ پیشہ کہا جاتا تھا، پیشہ تو اب بھی شریفانہ ہے لیکن شرافت وہ نہیں رہی جو اگلے زمانے میں تھی۔۔۔ پہلے کوئے صحافت میں وہی لو گ آتے تھے جنھیں جان و دل عزیز نہیں ہوتے تھے، اب جان و دل کی جگہ ایمان نے لے لی ہے۔ صحافت مشن نہیں، جنس تجارت بن گئی ہے۔‘‘
اسی طرح ادب میں ترقی پسند تحریک ، جس تیور سے ابھری اس کا خوب صورت نقشہ ’’ترقی پسند تحریک کی لُٹیا‘‘ کے تحت پیش کیا گیا ہے۔ اقتباس دیکھیے:
’’اگر کوئی شخص ہر وقت یہی کہتا رہے کہ میں عاقل و بالغ ہوں تو اس کا عاقل و بالغ ہونا مشکوک ہوجائے گا۔ یہی حال پاکستانی ترقی پسندوں کا ہے۔ جن کی ترقی پسندی کی عمارت زبانی دعویٰ پر قائم ہے۔‘‘
مشفق خواجہ نہ صرف فکاہیہ کالم نگاری بلکہ پوری اردو طنز و مزاح کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے موضوع، مواد اور اسلوب ہرسطح پر ندرت و انفرادیت اور جودتِ طبع کے حوالے سے اردو صحافت کی البیلی صنف فکاہیہ کالم نگاری کی تشکیل نو کا کارنامہ انجام دیا۔ موضو ع کی سطح پر ان کا سب سے اہم اضافہ یہ ہے کہ انھو ں نے باضابطہ معاصر ادیب و شعرا اور تازہ کار ادبی مسائل کو فکاہیہ کالم نگاری کی تاریخ میں پہلی بار اپنے طنز و مزاح کا ہدف بنایا اور اس طور پر ’’ادبی کالم نگاری‘‘ کی باضابطہ داخ بیل پڑی۔ شعر و ادب کے غیر ادبی معیارات، شہرت و جاہ اور انعامات کے لیے ادیب و شعرا کے سیاسی داؤ پیچ اور بزعم خود محقق، نقاد ، ادیب اور شاعر کہلانے والے خوش فہمیوں کی حماقت آمیز حرکتیں، شعر و ادب میں فروغ پانے والے غیر ادبی عناصر، میلانات، رجحانات اور تحریکات ، روایتوں سے ناآشنا اور فیشن زدہ ہیئتی اور صنفی تجربات ، ادبی سیاست کے زیر سایہ پنپنے والے مصاحبین کے مبالغہ آمیز تبصرے، لغو تحقیق، متعصبانہ تنقید اور بے معنی تخلیق وغیرہ دنیائے ادب کی کوکھ سے جنم لینے والی ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں کو مشفق خواجہ نے مزاح و ظرافت کی تخلیق کے لیے مواد اور خمیر کے بہ طور استعمال کیا۔ اور طنز و مزاح کے جتنے حربے ہوسکتے ہیں ان سبھی کو پورے فن کارانہ مہارت کے ساتھ بروئے کار لایا۔ مثلاً مبالغہ، موازنہ، رمز، بذلہ سنجی، ہجو ملیح، رعایت لفظی اور مضحک کردار نگاری وغیرہ۔

تبصرے بند ہیں۔