میںرا کو فراموش کرنا آسان نہیں

بلراج میںرا چلے گئے .وہ ہمارے قبیلے کے تھے .افسانے لکھتے تھے .انکے کیی افسانوں کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی – آتما رام اور ماچس کا ذکر خصوصی طور پر ھوا پھر وہ گہرے سنّاٹے کے قیدی بن گئے .. لوگوں سے ملنا ملانا کم ہو گیا . قمر احسن بہت بڑے افسانہ نگار تھے . انکے ساتھ بھی یہی ہوا ..آج وہ کہاں ہیں شاید یہ علم بھی کسی کو نہ ہو …جسمانی طور پر میںرا ہمارے درمیان ضرور تھے، لیکن ادبی دنیا سے وہ اپنے تمام رشتے ختم کر چکے تھے .کبھی کبھی سننے میں آتا،کہ کسی نے بلراج میںرہ سے ملاقات کی .کبھی کبھی میںرا کے تعلّق سے کویی اڑتی پڑتی بات بھی سامنے آ جاتی ..وہ اردو افسانے کے مستقبل سے نا خوش تھے .میں نہیں جانتا کہ اس درمیان بیس سے پچیس برس میں انہوں نے کسی کا کویی افسانہ پڑھا یا نہیں .لیکن وہ خوش نہیں تھے . کیا وہ اختلاف کی حد تک اردو افسانوں سے مایوس ہو چکے تھے ؟ یا وہ بھیانک سطح پر ڈپریشن کا شکار تھے ؟اگر ایسا ہے تو کس بات کا ڈپریشن تھا ؟ قمر احسن بھی اسی ڈپریشن کا شکار ہوئے —بلراج اس معاملے میں خوش قسمت کہ قاری اور نقاد دونوں نے انھیں مرنے نہیں دیا .جبکہ قمر احسن جیسے قد اور افسانہ نگار کو بھولے ہوئے زمانہ ہو گیا . بلراج میںرا کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ کم لکھنے کے باوجود اردو سے پیار کرنے والوں نے انھیں اس صف میں قبول کر لیا تھا جہاں افسانوں کی نمائندگی کرنے والے چند نام ہی تھے .اس مختصر فہرست میں آنکھیں بند کر کے انکے دو ایک افسانوں کا تذکرہ نا گزیر ہو گیا تھا .پھر کیا تھا کہ وہ افسانوں کی دنیا سے نکل کر لمبے بن واس پر چلے گئے ؟ اور ایسے گئے کہ واپس نا لوٹے — قمر احسن بھی گم ہو گئے –اس دور میں جدیدیت پسند کیی ایسے افسانہ نگار تھے جو پہلی نظر میں ادبی افق کے روشن ستارے نظر اے،پھر اچانک کیی ستارے غروب ہو گئے .ایک اہم نام اکرام باگ کا بھی ہے .زندہ ہیں .برسوں بعد شاید دو ایک مختصر افسانے لکھے — عرض کروں کہ اس گفتگو سے مجھے کویی خوشی نہیں ہے .ایک افسانہ نگار چلا گیا ..جس نے برسوں پہلے ادب کی دنیا سے امیدیں ختم کر دی تھیں ؟کس بات کی امیدیں ؟جبکہ میںرہ کو بھی احساس ہوگا کہ کچھ ہی کہانیاں لکھ کر انہوں نے ادب میں اپنے نام کو زندہ کر لیا ہے —- کیا آپ تقدیر کو مانتے ہیں ؟ کیا ادب میں قسمت جیسی چیز پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے ؟ میرے خیال سے ہاں —قسمت نے قمر احسن کو عمدہ کہانیاں لکھنے کے با وجود گم کر دیا .میںرا کی پر اسرار خاموشی کے با وجود انھیں زندہ رکھا … بیس پچیس برس کے افسانوی سفر کا تعاقب کرتے ہوئے میں نے جب بھی کویی مضموں لکھا،قمر احسن کو بھی یاد کیا،اکرام باگ کو بھی .لیکن ان دونوں کے تذکرے اس درمیان کہیں نہیں دیکھے — میںرا کبار بار یاد کیے گئے – اور یہ خوشی کی بات ہے کہ انھیں یاد رکھا گیا .کیا آتما رام اور ماچس حقیقت میں ایسی لا زوال کہانیاں تھیں کہ اس کے خالق میںرہ نے ان کہانیوں کے بعد ایک دنیا سے کنارہ کر لیا ؟ کیا انھیں اس بات کا صدمہ تھا کہ اردو افسانہ زوال پزیر ہے .یا کویی اور بات تھی ؟ بیشک،یہ تحقیق کا موضوع ہے،پس پردہ کویی اور بات بھی ہو سکتی ہے ..دنیا کے کسی بھی بڑے افسانہ نگار نے اس شرط پر لکھنا بند نہیں کیا کہ اب ہمارے بعد کی صف خالی ہے .پھر میںرا کی خاموشی کا راز کیا تھا ؟قمر احسن کی خاموشی کا راز کیا ہے ؟

فنکار چلے جاتے ہیں .اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ جاتے ہیں . یہ وقت انکی کہانیوں کے تجزئیے کا نہیں ہے .یہ وہ دور تھا،جب بغیر کسی مشقت کے، ایک سیٹنگ میں تین چار صفحے کی کہانیاں آرام سے لکھ لی جاتی تھیں . ماچس اور چیخو ف کے کلر ک کی موت میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے …میںرہ کے جانے سے دل اداس ہے .جیسے ایک شخص ابھی ابھی ماچس کی تلاش میں باہر نکلا ہو .کہانی کا کردار گھر لوٹ آیا تھا .میںرہ نہیں لوٹیں گے .لیکن کیا یہ کم ہے کہ انہوں نے اپنے نام کو اپنی زندگی میں ہی،اردو افسانے کا ایک معتبر اور اہم نام بنا دیا تھا ..یہ خوش قسمتی کتنے لوگوں کے حصّے میں آتی ہے .

ہم ایک ایسے کلچر کے نمائندے ہیں جہاں موت کا انتظار کیا جاتا ہے .میںرا تو ادب سے دور ہو جانے کے بعد ہی خوفناک گھٹن اور کا شکار ہو گئے تھے ..میںرا کا قلم جس دور میں خاموش ہوا،اس وقت شب خون،الفاظ،جواز جیسے میعاری رسائل بھی ا علیٰ ادب کی نمائندگی کر رہے تھے ..میںرا کی خاموشی کا سبب کچھ اور بھی تھا . یہ راز ان کے ساتھ ہی چلا گیا . .ایک طرح سے میںرا خود کو سزا دے رہے تھے .کویی بھی ادبی تحریر جدید رنگوں کے بغیر آج تو کجا کسی بھی عھد میں اعتبار حاصل نہیں کر سکتی ..جدیدیت کے پیمانے الگ ہو سکتے ہیں جدیدیت سے مطلق انکار کیا ہی نہیں جا ..سکتا — ساتویں دہایی تک جہاں فیشن زدہ افسانوں کی یلغار رہی،وہیں عمدہ افسانے بھی لکھ گئے —

تبصرے بند ہیں۔