سیاسی آوارگی بھی بند ہونی چاہیے

زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے کہ بہوجن سماج پارٹی کے ہائوس میں حزب مخالف لیڈر سوامی پرساد موریہ ہوا کرتے تھے وہ تو کماری مایاوتی پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان سے بھی ٹکٹ دینے پیسے کے مانگ رہی تھیں اس لیے انھوں نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا اور مایاوتی کہتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے لیے بھی ٹکٹ مانگ رہے تھے اس لیے میں انہیں نکالنے والی ہی تھی کہ وہ بھاگ گئے۔اب یہ تو خدا جانے کہ اصلیت کیا تھی؟ لیکن ان کے باہر آنے پر وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی ایسے جذبات کا اظہار کیا تھا جیسے انہیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ اور بی جے پی نے بھی ان کی سیاسی بصیرت اور صلاحیت کا قصیدہ پڑھا تھا لیکن انھوں نے ایک بڑے لیڈر کی طرح کہا تھا کہ میں دو مہینے کے بعد ایک ریلی بلائوںگا جس میں پا نچ لاکھ دلت شریک ہوںگے ، اس کے بعد ان سے مشورہ کے بعد اعلان کردوںگا کہ کہاں جانا چاہیے۔
سوامی پرساد موریہ نے ڈرامہ تو کیا لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ نریندر بھائی مودی ان کے وزیر اعلیٰ ہونے کا اعلان کردیںگے اور یہ تو وہ برابر کہہ رہے ہیں کہ امت شاہ نے ان سے ۳۰ ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب وہ انکار کررہے ہیں، جس کے نتیجہ میں موریہ نے بہن جی سے بھی رابطہ کیا کہ کیا واپس آجائوں؟انھوں نے بورڈ دکھادیا کہ جگہ خالی نہیں ہے۔ اب وہ کانگریس کی طرف دیکھ رہے ہیں جہاں ایک  انار اور سو بیمار کی وبا آئی ہوئی ہے کیوں کہ ان کے پاس صرف 60 ٹکٹ ہیں اور امیدوار 375۔ وہ بلا بھی لیں توکھلائیںگے کیا؟ اور اکھلیش کو اپنے باپ کی سرپرستی کی قیمت ادا کرنا ہے جس کی وجہ سے وہ ۳۵ ان جاں نثاروں کو منانے میں لگے ہیں جن کا ٹکٹ تبدیل کریںگے۔ حیرت ان پر ہے کہ جو اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر گئے ہیں کہ کیا انھوں نے بہار کے الیکشن میں نہیں دیکھا تھا کہ رام ولاس پاسوان بھی بی جے پی میں صرف اس امید پر گئے تھے کہ ان کو وزیر اعلیٰ بنادیا جائے گا یا ان کے بیٹے چراغ کو ڈپٹی منسٹر بنادیا جائے گا۔ وہ تو پاسی ہیں۔ ان سے بھی بڑے ایک مہا دلت تھے جو سابق وزیر  اعلیٰ تھے۔ انھیں تو یقین تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ بنیںگے۔ لیکن جس آدمی کا نام امت شاہ ہے اس نے جب ا پنی لال پٹاری کھولی تو اس میں مہادلت کے لیے ۲۰ ٹکٹ تھے اور رام ولاس پاسوان کو جو دئے ا نہیں دیکھ کر باپ اور بیٹے دونوں بے ہوش ہونے والے تھے کہ شاہ نے سنبھال لیا۔ اس وقت چراغ پاسوان بار بار ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ ہم ناراض نہیں ہیں لیکن حیران ہیں کہ آپ نے ہمیں کیا دیا؟
پاسوان خاندان یہ کہنے کی تو ہمت نہ کرسکا کہ شاہ جی بہار میں آپ کو کون جانے؟ یہاں تو آپ کو بھی جو ووٹ ملیںگے وہ ہمارے طفیل میں ملیںگے لیکن جو نتیجے آئے وہ بھی سب کو یا د ہوںگے کہ اس کے بعد سے باپ کی آواز تو کسی نے سنی ہوگی لیکن چراغ کا تو ایسا لگتا ہے کہ تیل پانی ہوگیا اور وہ جو سابق وزیر اعلیٰ تھے ان کی تو چتا میں لکڑی ڈالنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ سوامی پر ساد موریہ سے پہلے ہیم وتی نندن کی دختر بھی بڑے ارمان لے کر اور کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں گئی تھیں۔ ایک مہینہ کے بعد ہی ان کی ڈائری کا ایک ورق چھپا تھا کہ اب تو امت شاہ کے پاس ملاقات کا وقت ہی نہیں ہے۔ جبکہ پہلے ہر وقت انیتا جی انیتا کی آواز آتی تھی۔
اور ذرا دیوار کے پرانے کیلنڈروں کو دیکھئے تو مل جائے گا کہ ملائم سنگھ کے نزدیک سب سے بڑے صحافی شاہد صدیقی تھے۔ ان پر جب نوازشوں کی بارش ہوئی تو کائونسل کا ممبر بھی بنادیا گیا اور جب اردو اکادمی کا صحافت ایوارڈ کا وقت آیا تو ملائم سنگھ سے کہا کہ اردو کے سب سے بڑے صحافی عبدالوحید صدیقی کے نام سے یہ ایوارڈ کردیا جائے اور ملائم سنگھ نے عبدالوحید صدیقی ایوارڈ کردیا۔ یہ تو کسی نے بعد میں انھیں بتایا کہ وہ اس لیے بڑے صحافی ہیں کہ شاہد صدیقی کے باپ تھے ورنہ… اس کے چھ سال کے بعد انہیں پھر کائونسل میں لے لیا گیا اور جب تیسری بار وقت آیا تو ملائم سنگھ بالغ وزیراعلیٰ ہوچکے تھے انھوں نے معذرت کرلی تو ایک ہفتہ کے بعد وہ بہن جی کے پاس گئے اور کہا کہ وہاں ان کا دم گھٹ رہا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے سوامی پرساد موریہ کا بہن جی کے پاس دم گھٹنے لگا تھا اور اب بی جے پی میں ان کی بیٹی بیٹے اور ۲۰ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ان کا بی جے پی میں دم گھٹ رہا ہے۔
پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کی حیثیت گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کی ہوتی ہے کہ وہ جب اپنے عاشق کے ساتھ بھاگتی ہے تو دل کی ملکہ بھی ہوتی ہے اور من کی رانی بھی لیکن جب پیسے اور زیور سب بک جاتے ہیں اور جیب میں اتنے پیسے رہتے ہیں کہ ریل کا کرایہ پورا ہوجائے تو دونوں واپسی کی باتیں کرتے ہیں اوراس وقت دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں جتنی بیماریاں ہیں وہ سب کانگریس سے آئی ہیں، اس میں یہ وبا شروع ہوئی کہ جو کوئی دوسری پارٹی سے آیا اس کے مقابلہ میں پرانوں کو نظر انداز کیا جانے لگا۔ اور پھر وہ دشمن ہوگئے۔ اب ہر پارٹی میں یہ بیماری عام ہے۔ بی جے پی نے دہلی میں یہی کیا، بہار میں یہی کیا اور اب اترپردیش میں بھی یہی کررہی ہے۔ جب ریتا بہوگنا کانگریس چھوڑ کر آئیں تو کسی نے یہ معلوم نہیں کیا کہ وہ پارٹی کیوں چھوڑی، جہاں برسوں سے تھیں اور صوبہ کی صدر بھی رہیں ظاہر ہے کہ آپ نے اس لیے پارٹی چھوڑی کہ وزیر اعلیٰ کے لیے آپ کے بجائے شیلادکشت کا نام طے کردیا جبکہ وزیر اعلیٰ نہ ان کو ہونا تھا نہ کسی اور کو۔ بی جے پی نے اگر بلایا تھا تو اس کی غلطی تھی اور وہ خود گئی تھیں تو کم از کم ایک سال انہیں ناگپور میں رکھ کر مسلم دشمنی کا سبق پڑھنے کے لیے تو بھیجا ہوتا؟ اس کے بعد ۲۰۱۹ء میں ٹکٹ دیا جاتا۔
یہی سوامی پرساد موریہ کے ساتھ ہونا چاہیے تھا کہ انہیں سال بھر وہ سبق پڑھایا جاتا جسے پڑھنے کے بعد آدمی امت شا ہ ہوجاتا ہے، سوامی پرساد موریہ کو یہ بھی سوچنا تھا کہ ایک موریہ جس کے خلاف ۱۱ مقدمے چل رہے ہیں جب اسے صدر بنادیا تو دوسرے موریہ کی گنجائش کہاںنکلے گی؟وہ بھی ایسا موریہ جس نے تھوک میں بی جے پی کے خلاف تقریریں کی ہوں۔
یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہونا چاہیے کہ اگر کوئی ایم ایل اے یا ایم پی پارٹی بدلے تو اسے کمیشن سے اجازت لینا اور وجہ بتانا چاہیے۔ اور جس پارٹی میں وہ جارہا ہے اسے پابند کرنا چاہیے کہ وہ سال بھر کے بعد اسے کوئی ٹکٹ دے گی۔ آیا رام گیا رام کا قانون اس پر بھی لگنا چاہیے ورنہ یہ بیمار ی ایسی ہوتی جارہی ہے کہ کسی کو ئی شرم ہی نہیں ہوتی۔ سوامی موریہ مایاوتی سے ناراض ہوئے بی جے پی میں گئے۔ اب وہاں من کی مراد پوری نہیں ہوئی تو کانگریس سے ہاتھ ملانا چاہا۔ وہاں کامیابی نہیں ملی تو بی ایس پی میں واپس آنا چاہا۔ اب ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی پارٹی بنالیں کیا یہ ملک کے ساتھ اور اس کے دستور کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔