حضورﷺ کی تشکیل ِریاست کی فکری اور عملی بنیادیں (پانچوی قسط)

ترتیب:عبدالعزیز

اس موقف کی وضاحت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بہتر طور پر اس طرح کی ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ملتِ حنیفیہ اسماعیلیہ کی کجی کو درست کرنے، اس کی تحریف کو دور کرنے اور اس کی روشنی کو پھیلانے کیلئے تھی۔ اور اللہ کے اس قول میں یہی مراد ہے کہ ’’مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْم‘‘۔ اور جبکہ حالت ایسی ہے تو ضروری ہے کہ ملت ابراہیم کے اصول قابل تسلیم اور اس کا طریقہ مقرر ہو ، اس لئے کہ نبی جب ایسی قوم میں مبعوث ہوتا ہے جن میں عمدہ طریقے باقی ہیں تو ان طریقوں میں تغیر و تبدل بے معنی ہے بلکہ ان کو قایم رکھنا ضروری ہے کیونکہ ان لوگوں کے نفوس ان کو اچھی طرح سے قبول کرلیتے ہیں اور ان سے ان پر خوب حجت قائم ہوسکتی ہے۔
شاہ صاحبؒ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی کج روی کو درست کرنے اور ان کی خرابیوں کی اصلاح کیلئے مبعوث فرمایا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسماعیل کی شریعت میں غور کیا اور اس میں جو طریقہ حضرت اسماعیلؑ کے مسلک کے موافق یا منجملہ شعائر الٰہی کے مطابق پایا اس کو باقی رکھا اور جس میں تحریف ہوگئی تھی یا اس میں خرابی پیدا ہوگئی تھی یا اس میں شرک و کفر کی علامات تھیں اس کو مٹا دیا اور اس کا بطلان مستحکم کر دیا اور جو امور عادات وغیرہ کی قسم سے تھے ان کی خوبیاں اور برائیاں اس طرح بیان کردیں کہ ان سے احتراز کیا جاسکے۔ بری رسموں سے آپ نے منع فرما دیا اور عمدہ رسموں کا حکم دیا اور جو مسائل اصلی یا عملی زمانہ فترت میں متروک ہوگئے تھے ان کو ویسا ہی شاداب و ترو تازہ کر دیا جیسا کہ وہ تھے، اس طرح خدا کا انعام مکمل اور اس کا دین مستقیم ہوگیا‘‘۔
آگے چل کر شاہ صاحبؒ اپنے دعوے کے ثبوت میں زمانۂ جاہلیت کے بعض رسوم و رواج اور اصول و فروعات کو پیش کرکے لکھتے ہیں کہ ’’اگر تم کو ہمارے مذکورہ بیان میں شبہ ہو تو ان مضامین میں غور کرلو جن کو اللہ نے قرآن میں بیان فرمایا اور اس باقی علم کے ذریعہ جو ان کے پاس رہ گیا تھا ان پر دلیل قایم کی اور ان شکو ک و شبہات کو دور فرما یا جو انھوںنے اپنی معلومات میں داخل کرلئے تھے، بالخصوص اس آیت کو دیکھو:
قل من انزل الکتاب الذی جاء بہ موسٰی۔
اور جب لوگوں نے کہا: ما ہٰذا الرسول یا کل الطعام و یمشی فی الاسواق۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:
قلم ما کنت بدعاً من الرسل۔ (آپ کہہ دیجئے کہ میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا اور عجیب نہیں ہوں)۔
ایسی ہی بہت سی مثالیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین اگر چہ راہ راست سے دور ہٹ گئے تھے لیکن جو علمی حصہ ان میں باقی رہ گیا تھا اس کے ذریعہ سے ان پر حجت قائم ہوسکتی تھی۔ اہل جاہلیت میں جو لوگ حکیم ہوئے ان کے خطبوں کو دیکھو؛ مثلاً قس بن ساعدہ، زید بن عمرو بن نفیل اور عمرو بن لحی سے پیشتر کے نیک لوگوں کے کلام کو دیکھو گے تو سب میں یہ بات مفصلاً معلوم ہوگی بلکہ ان کے کلام میں اگر نہایت غور و خوض کروگے تو ان کے فضلاء اور حکماء کو پاؤگے کہ وہ عالم معاد اور فرشتوں وغیرہ پر اعتقادرکھتے تھے۔
آگے لکھتے ہیں: ’’اور یہ سب وہ باتیں تھیں جو ان میں حضرت اسماعیل کے طریقہ سے وراثۃً چلی آئی تھیں اور اہل کتاب سے ان کو حاصل ہوئی تھیں۔ ان کو بخوبی علم تھا کہ انسان کا اصلی کمال یہی ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے سرنگوں ہو اور انتہائی کوشش سے خدا کی عبادت کرے اور عبادت کے ابواب میں سے ان کے ہاں ایک طہارت بھی تھی اور غسل جنابت تو ان کے یہاں کا ایک معمول تھا اور اسی طرح ختنہ اور تمام فطری خصائل ان میں تھے۔ توریت میں ہے کہ اللہ نے ختنہ کو حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کیلئے ایک نشان قرار دیا تھا اور اس وضو کو مجوس اور یہود وغیرہ سب کیا کرتے تھے اور حکماء عرب بھی اس کے پابند تھے اور ان میں نماز بھی مروج تھی۔ حضرت ابوذرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھے اور قس بن ساعدہ الایاوی بھی نماز پڑھا کرتے تھے۔
یہود، مجوس، اور بقیہ عرب میں نماز کے تعظیمی افعال مروج تھے۔ خاص طور پر سجود کے پابند تھے اور دعا و ذکر الٰہی سے متعلق اقوال بھی تھے اور وہ لوگ زکوٰۃ بھی دیا کرتے تھے اور مہمان کی ضیافت کرنا، مسافر کو کھانا کھلانا، کسی کے اہل و عیال کا نفقہ، مساکین کو صدقہ دینا، اہل قرابت سے صلہ رحمی کرنا اور مصائب حق میں مدد کرنا ان کا دستور تھا اور یہ سب زکوٰۃ میں داخل تھے۔ انہی امور سے ان کی مدح ہوتی تھی اور انہی امور کو انسان کا کمال اور اس کی سعادت سمجھتے تھے؛ چنانچہ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ سے عرض کیا تھا کہ ’’اللہ آپ کو رسوا نہ کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مہمانوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ دوسروں کے عیال اور ضعفاء کے کفیل ہوتے ہیں۔ حوادث میں لوگوں کی اعانت کرتے ہیں‘‘۔
ایسا ہی ابن دغنہ نے حضرت ابوبکرؓ کی نسبت کہا تھا۔ اور وہ لوگ صبح صادق سے غروب آفتاب تک روزہ رکھا کرتے تھے اور مسجد میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ اور حضرت عمرؓ نے زمانۂ جاہلیت میں ایک شب کے اعتکاف کی نذر کی تھی او ر رسولؐ اللہ سے اس بارے میں استفتاء کیا تھا اور عاص بن وائل نے وصیت کی تھی کہ میری جانب سے فلاں فلاں غلام آزاد کئے جائیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اہل جاہلیت مختلف تعظیمات کے ذریعہ اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے لیکن حج بیت اللہ اور اس کے شعائر کی تعظیم اور شہر حرم تو اہل عرب میں ایسے مشہور تھے جو کسی پر مخفی نہیں۔ ان کے پاس کئی قسم کے منتر اور تعویذات بھی تھے لیکن ان میں شرک کی باتیں داخل کر دی تھیں۔ ذبح کرنا اور گردن میں برچھا مارنا ان کا طریقہ تھا، نہ وہ ذبیحہ کا گلا گھونٹتے تھے اور نہ پیٹ چاک کرتے تھے۔ وہ بقیہ دین ابراہیمؑ پر قایم تھے۔
اور اسی سلسلۂ بیان میں آگے لکھتے ہیں: ’’ان لوگوں کے کھانے میں، پینے میں، لباس میں، مردوں کے دفن کرنے میں، نکاح، طلاق، عدت، سوگ اور خرید و فروخت و معاملات میں نہایت مستحکم طریقے متعین تھے جن کے ترک کرنے پر لوگوں کو ملامت کی جاتی تھی اور ہمیشہ سے وہ محارم کو جیسے بیٹیاں، مائیں، بہنیں وغیرہ حرام سمجھتے تھے۔ ظلم اور تعدی کے موقع پر ان کے ہاں سزائیں مقرر تھیں جیسے قصاص، دیت اور قسامت۔ اسی طرح زنا اور چوری کی سزائیں مقرر تھیں۔ نیز ایران و روم کی سلطنتوں کے ذریعہ سے ان میں منزلی اور تمدنی تدابیر و علوم بھی آگئے تھے، لیکن ان میں بدکاری کی کثرت ہوگئی تھی۔ آپس میں ایک دوسرے کو قید کرکے اور لوٹ مار کرکے ظلم کرتے تھے۔ زنا، فاسد نکاح اور سود خوری خوب پھیل گئی تھی۔ نماز اور ذکر الٰہی کو بالکل ترک کردیا تھا اور ان کی طرف کچھ توجہ نہ کرتے تھے۔ پس ان حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے ان کے تمام امور میں غور و خوض کیا ۔ ان میں سے جو حصہ ملت ابراہیمی کا صحیح تھا اس کو باقی رکھا اور اس پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور آپ نے اسباب و اوقات، شروط و ارکان، آداب و مفسدات، رخصت و عزیمت اور ادا  و قضا کی تعلیم دے کر انھیں منضبط کر دیا اور گناہوں کی روک تھام کیلئے حدود، سزائیں اور کفارات معین فرمائے۔ ترغیب اور ترہیب کے ذریعہ دین کو ان کیلئے آسان کر دیا، گناہوں کے تمام ذرائع بند کر دیئے اور ان امور پر آمادہ کیا جن سے نیکی کی تکمیل ہوتی ہے… ان کی تمام تحریفات کو مٹا دیا اور ان کے مٹانے میں انتہائی کوشش کی اور جو رسوم صحیح تھیں ان کو باقی رکھا اور ان کا حکم فرمایا اور جس قدر ان کی رسوم فاسدہ تھیں ان سے روک دیا اور خلافت کبریٰ کو ان میں قایم کیا۔
بہر حال اس طرزِ استدلال سے فائدہ یہ ہوا کہ داعی کے متعلق یہ بدگمانی پیدا نہیں ہوتی کہ یہ کوئی ایسا شخص ہے جو انفرادیت کے زعم میں تمام ماضی پر خطِ تنسیخ پھیرنا چاہتا ہے اور اپنی شخصیت کا سکہ جمانا چاہتا ہے بلکہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ ہمارے ہی اگلوں کا ورثہ ہماری طرف منتقل کرنے آیا ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے مخاطب سے لڑائی لڑنے یا براہ راست چوٹ کرنے کے بجائے اس بات کی کوشش فرمائی کہ جن اصولوں پر اشتراک و اتحاد ہے اس کے مشترک پہلوؤں کو استدلال کے ذریعہ واضح کر دیا جائے تاکہ مخاطب داعی حق کی بات سننے کی طرف راغب ہو۔ اس میں ضد اور ہٹ دھرمی کا مادہ کم سے کم پیدا ہو اور پھر اس کے سامنے ان نتائج کو رکھا جائے جو اس کے اپنے اقرار کردہ اصولوں سے لازمی طور پر نکلتے ہیں تاکہ وہ ان کو اپنی بات سمجھ کر قبول کرنے کی طرف مائل ہو؛ چنانچہ سورۂ عنکبوت میں یہ ہدایت موجود ہے کہ: ولا تجادلوا اہل الکتاب (107) : (اہل کتاب سے مجادلہ نہ کرو)۔
اور ایک جگہ قرآن میں اس طرح ارشاد ہوا کہ : قل یا اہل الکتاب تعالوا الیٰ کلمۃٍ سوائٍ بیننا و بینکم (108) : (اے اہل کتاب! اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے)۔
بہر صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور مخاطب کے درمیان قدرِ مشترک کو تلاش کیا اور اس کو بنائے بحث و استدلال بنایا؛ کیونکہ نوع انسانی اپنے ظاہری اختلافات کے لحاظ سے کتنی ہی متفرق اور پراگندہ کیوں نہ نظر آئے لیکن اس کے اس تفرق اور پراگندگی کی تہہ میں بے شمار اصول و قواعد ایسے بھی ہیں جن میں سب متحد ہیں۔ آفاق کے قوانین و ضوابط، فطرت کے یقینیات، تاریخ کے مسلمات اور بنیادی اخلاقیات میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں شرق و غرب اور عرب و عجم سب ایک ہی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرزِ استدلال اور طریقِ دعوت کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ وہ لوگ جو ایمان قبول کرتے گئے ان کو ذہنی و فکری طور پر مزید اطمینان حاصل ہوا اور وہ اس پر پوری طرح جم گئے۔ پھر معاشرہ کا وہ طبقہ جو شک و تذبذب اور شبہات و احتمالات کا شکار تھا اور قبولِ حق میں چند رکاوٹوں کے سبب ہچکچا رہا تھا، اس طرزِ استدلال سے مطمئن ہوکر داخل اسلام ہونے لگا اور تیسرا طبقہ جس میں شامل لوگوں نے اپنی فطری صلاحیتیں بالکل برباد کر ڈالی تھیں اور جن کی فطرت کا قالب بالکل ٹیڑھا ہوچکا تھا۔ ان لوگوں نے البتہ کانوںمیں انگلیاں ٹھونس لیں، پیغام نبویؐ کے سننے اور سمجھنے سے انکار کردیا اور یہ کہہ دیا کہ رسول کی تعلیمات بالکل انوکھی ہیں، ان کا یہ انکار بقول قرآن درحقیقت ان کے بہت سے سابق انکاروں کا لازمی نتیجہ تھا، چنانچہ سورۂ اعراف میں آتا ہے:
’’یہ بستیاں ہیں جن کے کچھ حالات ہم تم کو سناتے ہیں اور ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایسے نہیں تھے کہ جس چیز کو جھٹلا چکے ہوں اسے مان لیں، اسی طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے‘‘ (13)۔
یہود کے معاملہ میں بھی یہی صورت پیش آئی۔ یہود کی اکثریت نے تعلیمات رسولؐ کا انکار کیا۔ ٹھیک یہی حال نصاریٰ کا ہوا۔ ان کی جماعت کے بڑے حصے نے جو اپنے اگلوں کی تقلید و پیروی میں گمراہ ہوکر دین کی اصل تعلیمات سے محروم ہوچکا تھا اسلام کو نہیں سمجھا بلکہ وہ اس کا دشمن بن گیا۔ الغرض اس گروہ کا طرز عمل جو کچھ بھی رہا ہو۔ اس سے یہ بات سب کے سامنے کھل کر آگئی کہ یہ لوگ جان بوجھ کر تکذیب حق کر رہے ہیں۔ اس طرزِ استدلال کا یہ لازمی اثر بھی ہوا کہ ایک عام عقلی و ذہنی بیداری پیدا ہوئی، صدیوں کا جمود ٹوٹا۔ اب ہر ایک کو جھنجھوڑ دیا گیا اورہ وہ سوچنے پر مجبور ہوگیا۔
(جاری)
موبائل: 9831439068    azizabdul03@gmail.com

تبصرے بند ہیں۔