یوپی الیکشن اور مسلمان : میں مشورے کیوں دوں ؟

کئی دوستوں کا اصرار رہا کہ ہم بھی یوپی کی سیاست پرکچھ لکھیں، خاص طور سے اس تناظر میں کہ وہاں الیکشن ہونے والا ہے، اسدالدین اویسی میدان میں ہیں، کئی اور مسلم پارٹیاں ہیں اور پھر مختلف سیکولر پارٹیوں کے ہمراہ مسلم دشمن پارٹیاں بھی ہيں۔ وہاں کی سب سے بڑی پارٹی سماجوادی میں سرپھٹول چل رہا ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ہوگا لیکن ہم اپنے دوستوں کے اصرار پر چپی ہی سادھے رہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ ہم سیاسی معاملات میں اور خاص طور سے تب جب معاملہ بہت زيادہ سنگین ہو یوں کودنے کے قائل نہيں ہوتے۔ ہماری دوسری مجبوری یہ رہی کہ ہم الحمدللہ اسلام اور مسلمانوں سے محبت کے باوجود کبھی زمینی حقائق کو جھٹلانے کے قائل نہیں رہے اور تیسری بات یہ کہ ہمارے زيادہ تر دوست ہم سے وہی کچھ کہلوانا چاہ رہے تھے جو وہ خود سننا چاہ رہے تھے، ایسے میں چپی سادھے رہنا ہی زيادہ بہتر آپشن تھا اور ہم نے وہی اختیار کیا۔

مسلمان کسے ووٹ دیں اور کسی ووٹ نہ دیں یہ فیصلہ آخر ہم سنانے والے ہوتے کون ہیں ؟ لیکن چند باتیں ان سے شیئر تو کرہی سکتے ہيں۔

1۔ ہم اس حقیقت کو مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ سچ ہے کہ آرایس ایس کی اگوائی میں مرکزمیں جب سے بی جے پی آئی ہے مسلمانوں کے لیے ناک میں دم ہے، سیکولر قدریں سرپیٹ رہی ہيں، بھگواکرن ہورہا ہے، مسلم پرسنل لاء، یکساں سول کوڈ، تفریق بین المسلمین یہی کچھ چیزیں اس حکومت کے پاس ہمارے لیے ہیں۔ علی گڑھ کے ساتھ چھیڑ خوانی، اس کے نئے سینٹرس کو گرانٹ نہ دینا، علماء اور دعاۃ پر پانبدیاں عائد کرنا اور اپنے غنڈوں کو اس بات کی کھلی چھوٹ دینا کہ مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا کرو۔

2۔ کانگریس کا پچھلا دس سالہ دور اقتدار بعض خامیوں کے باوجود کتنا اچھا تھا وہ سب کو معلوم ہے، خاص طور سے اقلیتوں کے لیے جتنے اچھے اقدامات کیے گئے وہ بہرحال قابل تعریف تھے لیکن ہماری جذباتیت کا فائدہ اٹھاکر بعض مفاد پرستوں نے کمیوں کو یوں ہمارے بیچ پیش کیا کہ جیسے اس اقتدار سے بدتر اور کوئي اقتدار ہمارے لیے تھا ہی نہیں اور اب صورت حال یہ ہے کہ ہم سب کے سب آہیں بھر رہے ہیں۔

3۔ عام آدمی ملت کے نام پر استثنائی صورت میں ہی ووٹ کرتا ہے اصل میں اس کے لیے زندگی کے عام مسائل معنی رکھتے ہیں، روٹی کپڑا مکان، شاوی ویواہ اور صحت وغیرہ۔ وہ دیکھتا ہے کہ ان مواقع سے کون اس کے ساتھ آتا ہے اور اس کی مددکرتا ہے۔

4۔ بی ایس پی، ایس پی، کانگریس ہر ایک سے مسلمان کسی نہ کسی سطح پر ناراض ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ انہیں تینوں پارٹیوں سے کسی نہ کسی سطح پر جڑے ہوئے بھی ہیں، ایسے میں وہ خود طے کرسکتے ہيں کہ آج کے موجودہ تناظر میں کس کے ساتھ جانا زيادہ مناسب ہوسکتا ہے۔ بعض چھوٹی خامیوں کو دیکھ کر اگر بڑے معاملات نظر انداز کردیے جائیں تو نتائج سنگین ہی ہوتے ہیں۔

5۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ یوپی میں مسلمان 18 فیصد ہیں، اس سے پہلے والے الیکشن میں ان کے ایم ایل اے کی تعداد بھی لگ بھگ اٹھارہ فیصد تھی، ایسے میں انتخاب میں ان کی اپنی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اگر ہوشیاری برتیں تو من چاہی حکومت بنا سکتے ہیں۔

6۔ خود اپنی بنیاد پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ بظاہر چاہے جتنا بھی خوشگوار کیوں نہ نظر آتا ہو لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس کا امکان کتنا ہے، زمینی سطح پر اس کے لیے کتنا کام کیا گیا ہے، کتنے کارکنان بنائے گئے ہيں، کتنی مستعدی دکھائی گئی ہے۔ آخر الیکشن سے پہلے ہی یہ مدعا سامنے کیوں آتا ہے ؟ ہم اپنے اندر پولیٹیکل ایکٹیوزم کو بڑھاوا کیوں نہيں دیتے ؟

7۔ جے این یو کے دوران تعلیم مسلم طلبہ کے ایک گروپ نے ہمیں ایک مشورے کے لیے بلایا۔ بات تھی کہ وہ یونیین کا الیکشن لڑنا چاہ رہے تھے۔ ہم نے جے این یو کا پولیٹیکل نیچر سامنے رکھا اور انہیں بتایا کہ بہتر یہ ہو کہ آپ پہلے طلبہ میں اپنی پہچان قائم کریں اور ایک دو سال بعد میدان میں آئیں، انہوں نے ہمارا کہا نہیں مانا اور الیکشن میں کود پڑے۔ نتیجہ صرف یہ رہا کہ دو سال کے بعد انہوں نے الیکشن لڑنا چھوڑ دیا۔ جب انہوں نے نہ لڑنے کا فیصلہ لیا اور ہم نے استفسار کیا تو ان کا جواب تھا کہ دوچار سال میدان میں کام کریں گے، کچھ سوشل ایجوکیشنل پروگرام کے ذریعہ طلبہ تک پہنچیں گے اور پھر الیکشن میں لڑیں گے !!!!

یوپی کے مسلمان سمجھدار ہیں، ان شاءاللہ وہ بہت سوچ سمجھ کر اور دیکھ بھال کر فیصلہ لیں گے، جذبات سے بچیں گے، حالات پر نظر رکھیں گے اور اپنا ووٹ ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔