شناخت کی تبدیلی کا مسئلہ

کھادی ویلیج انڈسٹریز کمیشن کی ڈائری اور کلینڈر میں مودی کی تصویر شناخت تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہے ۔لیکن کیا شناخت بدلنا اور کسی عالمی شخصیت کی جگہ لینا وہ بھی چند تخیلاتی اور مصنوعی طریقہ کار ذریعہ اتنا آسان ہے ۔کیا کسی نشان زد اور ہدف مقرر کرکے وہ مقام پایا جاسکتا ہے ۔جو برسوں کی کوششوں اور قربانیوں سے عوام الناس کے ذریعہ کسی خاص شخصیت کا حصہ بنا ہو؟وزیر اعظم مودی کی کھادی ویلیج انڈسٹریز کے کلینڈر اور ڈائری پر اپنی تصاویر کی اشاعت پر یوں تو کوئی خاص ہنگامہ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے ۔شاید کرنسی کی منسوخی کی طرح کچھ وقفہ گزر جانے کے بعد کوئی بڑی ہنگامہ آرائی ہو ۔بہر حال ہم نے اس سلسلے میں دو طرح کے لوگوں کے خیالات پڑھنے کی کوشش کی کہ ان کے مافی الضمیر میں کیا کھچڑی پک رہی ہے ۔اول تو بھکت ،دوم حزب مخالف سے ہمارے ایک پڑوسی ہیں۔

اس کو حسن اتفاق کہئے کہ میرے ایک دوست بڑے پکے بھکت ہیں ۔وہ صاحب مودی جی پر کوئی تنقید برداشت ہی نہیں کرسکتے ۔ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان کو مودی جیسا وزیر اعظم اگر آزادی کے وقت ہی مل گیا ہوتا تو ہم امریکہ سے پچاس سال آگے ہوتے ۔ہم نے از راہ تفنن طبع ان سے سوال کیا کہ اب تو آپ کے اچھے دن آگئے مبارک ہو آ پکے مودی صاحب نے گاندھی جی کی جگہ لے لی !وہ جناب تو تھوڑی دیر کیلئے پرانی دوستی بھول کر ہتھے سے اکھڑ ہی گئے لیکن شاید انہیں جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور سنبھل کر بولے گاندھی کی جگہ لینے کا کیا مطلب ہے ؟مودی ہی تو ہندوستان کے اصلی گاندھی ہیں ۔آپ دیکھیں گے کہ وہ کس طرح ہندوستان کو دنیا میں ایک باوقار مقام دلانے میں کامیاب ہو تے ہیں ۔میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ وہ اصلی گاندھی کیوں کر ہوئے ۔گاندھی جی اور ان کے دور میں نصف صدی کا فاصلہ ہے ۔اس پر پھر ایک بار ناک بھوں چڑھا کر بولے کہ فاصلہ کچھ بھی ہو ،اس سے کیا ہوتا ہے ۔انہوں نے اپنی پرانی بات دہراتے ہوئے لب کھولے تو یوں گویا ہوئے کہ بھائی اگر ملک کو آزادی کے وقت ہی مودی جیسا گاندھی مل گیا ہوتا تو آج ہم امریکہ سے پچاس سال آگے ہوتے ۔میری بھی کیا شامت آئی تھی کہ زبان کھول ہی دی کہ واہ جناب کیا بات کرتے ہیں دنیا کے بڑے بڑے لوگ تو کہتے ہیں کہ آ پ کے اس گاندھی نے تو ترقی کی رفتار کو نصف صدی پیچھے کردیا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ ہم امریکہ سے پچاس سال آگے ہوتے ۔اس پر انہوں نے وہ بر افروختگی دکھائی کہ اللہ کی پناہ ۔کہنے لگے کہ تم لوگ دیش دروہیوں کی باتوں پر بھروسہ کرکے اس ملک سے غداری ہی نہیں کررہے بلکہ ملک کا بڑا نقصان کررہے ہو ۔تم نے دیکھا نہیں کہ ابھی کرنسی کی منسوخی سے کیسا انقلاب آیا ہے ۔دہشت گردی پر ایکدم سے بریک لگ گیا ۔پاکستان کو دن میں تارے دکھنے لگے اور چین نے تو خفیہ طور پر پیغام بھیج کر معافی تلافی کی ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اس کوبھلا کر اب ہمیں دوست سمجھو !امریکہ بہادر بہت ہیکڑی دکھایا کرتا تھا لیکن اب کیسا ہمارے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔یہ تو رہا نوٹ کی منسوخی کے بین الاقوامی اثرات کا ذکر اور ملکی سطح پر ساراکا لا مال جمع کرکے رکھنے والے کوما میں ہیں جن بد عنوان لوگوں کو نوٹ بندی سے نقصان ہوا ہے وہ چیخ پکار مچا رہے ہیں اور تم جیسے لوگ انہی کے پرپگنڈہ سے متاثر ہوکر ملک اور دنیا کے سب سے مقبول رہنما کے خلاف بد گمانی پھیلا رہے ہو ۔بھکت صاحب کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی اور ہم حیرت سے انہیں دیکھے جارہے تھے ۔میرے دماغ میں یہ سوال بار بار اٹھ رہا تھا کہ دہشت گردی کس سمت سے بند ہوئی ہے کہ دکھائی ہی نہیں دے رہا ہے ۔نوٹ بندی کے بعد بھی جموں کشمیر میں شدت پسندوں کے کئی حملے ہو چکے ۔شدت پسندوں کے پاس سے نئے نوٹ بھی دستیاب ہوئے ۔ پاکستان کی جانب سے سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔چین بھی اپنی حرکتوں سے نہ صرف بعض نہیں آیا بلکہ اس نے پاکستان کی حمایت پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ کی ہے ۔ روس چین اور پاکستان مل کر علاقہ میں نیا محاذ بنا رہے ہیں جس میں ہندوستان کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اگر روس چین اور پاکستان کا محاذ کامیاب ہو گیا تو پھر ہمارے لئے راوی چَین نہیں لکھتا ہے ۔لیکن وہ بھکت ہی کیا جو سچائی کا سامنا کرلے ۔

میںنے ایک دوسرے شخص جو ہمارے پڑوسی ہیں حزب مخالف سے تعلق ہے اور مودی جی کے بہت بڑے ناقد ہیں سے ملاقات کی ان سے کلینڈر اور ڈائری پر گاندھی جی کی تصویر کی جگہ مودی کی تصویر پر گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا کہ بھائی یہ اصل میں وزیر اعظم کی شناخت بدلنے کی ایک کوشش ہے ۔شناخت! ہاں بھائی شناخت ۔اس میں تعجب کی کیا بات ہے ۔کیا آپ نہیں جانتے کہ مودی جی کی شناخت کیا ہے ؟ان کی وہ شناخت جس کو دنیا میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔اس سے وہ پیچھا چھڑا نا چاہتے ہیں ۔اسی لئے انہوں نے پچھلے ماہ کہا تھا کہ وہ فقیر ہیں جھولا اٹھا کر چلے جائیں گے اور اب اس کا دوسرا ایپی سوڈ گاندھی جی کی جگہ لینا ہے ۔انہوں نے کہا لیکن گاندھی جی کی جگہ لینا ان کے لئے آسان نہیں ہے ۔گاندھی جی پیدائشی گاندھی تھے اور ان کےعدم تشدد کے فلسفہ نے انہیں مہاتما بنایا ۔وہ امن کو فروغ دینے کیلئے کام کرتے تھے ۔ گاندھی جی ملک کی سلامتی اور بقا کے تعلق سے سنجیدہ تھے اور اسی کیلئے انہوں نے ساری زندگی وقف کردی ۔اس کے برعکس مودی جی کیا ہیں دنیا واقف ہے ۔انہوں نے محبت کے بجائے نفرت کو فروغ دیا ۔ان پر ہزاروں انسانوں کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے ۔ان کی حکومت میں خوف اور دہشت کا ماحول ہے ۔کوئی ان کی تنقید کرتا ہے تو ان کے بھکت اسے دیش دروہی کہہ کر پاکستان بھیجنے کی بات کرتے ہیں ۔جبکہ گاندھی جی کی کوئی برائی بھی کرتا تھاتو وہ اس سے خوشدلی سے ملا کرتے تھے ۔گاندھی جی ملکی معیشت کی ترقی کی پرزور وکالت کرتے تھے ۔جبکہ مودی نے اپنے غیر دانشمندانہ فیصلوں سے گائوں دیہات اور دوسری چھوٹی چھوٹی صنعتوں کو تباہ کردیا ہے ۔رہی سہی کسر ان کے کرنسی کی منسوخی کے فیصلے نے پوری کردی ہے جس سے چھوٹی صنعتوں کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔ملک ان کے اس احمقانہ فیصلے سے کئی دہائی پیچھے چلا گیا ہے۔بے روزگاری کی سونامی سے غریبوں میں بھکمری کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ان کی بات سن کر مجھے بھکت اور مخالفین کی باتوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آرہا تھا۔میں نے ان سے پوچھا ،لیکن آپ نے شناخت بدلنے کی بات کی تھی ۔وہ بولے بھائی اتنی باتوں کے بعد بھی آپ نہیں سمجھے ۔دیکھئے آج بھی ملک اور بیرون ملک صرف گاندھی جی کو ہی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔اس لئے مودی جی سوچ رہے ہیں کسی طرح سے وہ مودی سے گاندھی بن جائیں لیکن ذرا غور کیجئے جو شخص اپنی ذات پر چند روپئے خرچ کرتا تھا ایک ہی کپڑے میں اپنی زندگی گزارتا تھا ۔انتہائی سادگی سے زندگی بسر کرتا تھا ۔جس کی زندگی میں کوئی چمک دمک یا دکھاوا نہیں تھا ۔اس کی جگہ ہندوستان کا سب سے مہنگا  وزیر اعظم لے سکتا ہے کیا؟جو دس لاکھ کی سوٹ پہنتا ہو ،ایک لاکھ تیس ہزار کا قلم رکھتا ہو،بائیس ہزار کی شیروانی زیب تن کرتا ہو،جس کا سینڈل دس ہزاری ہو،جس کا جیکٹ چالیس ہزار کا ہو ،پیینتیس ہزار کا چشمہ اور ایک لاکھ تیس ہزار کی گھڑی استعمال کرتا ہو وہ بھی یہ ساری چیزیں عوام کے ٹیکس سے ادا کی گئی ہوں ۔انہوں نے کہا کہ گاندھی بننا بہت مشقت کا کام ہے اس کیلئے برسوں کی محنت ،محبت اور خلوص کے ساتھ خلق کی خدمت کا جذبہ ہی کسی کو گاندھی یا مدر ٹریسا بناتا ہے ۔ایکٹنگ اور زور زبردستی سے اپنی تصویر کہیں چھپوادینے سے کوئی ان کی جگہ نہیں لے سکتا ۔سیدھی سی بات یہ ہے کہ انانیت ،دکھاوا اور شاہ خرچی والا مزاج سادگی ،خلوص اور محبت کی جگہ نہیں لےسکتا ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔