سادگی کا تعلق ایمان سے ہے (2)

’’حضرت ابو امامہؓ سے  روایت ہے، وہ کہتے ہیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں  نے آپؐ کے سامنے دنیا کا ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم سنتے نہیں ، کیا تم سنتے نہیں ، یقینا سادگی ایمان سے ہے، یقینا سادگی ایمان سے ہے‘‘ (ابو داؤد)۔

ٹھیک یہی حال حیاتِ قومی کا بھی ہے۔ ایک قوم کو جو چیز زندہ اور طاقت ور اور سربلند بناتی ہے وہ اس کے مکان، ا س کے لباس، اس کی سواریاں ، اس کے اسبابِ عیش، اس کے فنونِ لطیفہ، اس کے کارخانے ، اس کے کالج نہیں  بلکہ وہ اصول ہیں  جن پر اس کی تہذیب قائم ہوتی ہے اور پھر ان اصولوں  کا دلوں  میں  راسخ ہونا اور اعمال پر حکمراں  بن جانا ہے۔ یہ تین چیزیں  یعنی اصول کی صحت، ان پر پختہ ایمان اور عملی زندگی پر ان کامل فرماں  روائی، حیاتِ قومی میں  وہی حیثیت رکھتی ہے جو ایک عمارت میں  اس کی مستحکم بنیادوں ، اس کی پختہ دیواروں  اور اس کے مضبوط ستونوں  کی ہے، جس قوم میں  یہ تینوں  چیزیں  بدرجہ اتم موجود ہوں ، وہ دنیا پر غالب ہوکر رہے گی۔ اس کا کلمہ بلند ہوگا، اللہ کی زمین میں  اس کا سکہ چلے گا، دلوں  میں  اس کی دھاک بیٹھے گی، گردنیں  اس کے حکم کے آگے جھک جائیں  گی اور اس کی عزت ہوگی، خواہ وہ جھونپڑی میں  رہتی ہو، پھٹے کپڑے پہنتی ہو، فاقوں  سے اس کے پیٹ پٹخے ہوئے ہوں ، اس کے ہاں  ایک کالج بھی نہ ہو، اس کی بستیوں  میں  ایک بھی دھواں  اڑانے والی چمنی نظر نہ آئے اور علوم و صناعات میں  وہ بالکل صفر ہو، تم جن چیزوں  کو سامانِ ترقی سمجھ رہے ہو وہ محض عمارت کے نقش و نگار ہیں ، اس کے قوائم و ارکان نہیں  ہیں ، کھوکھلی دیواروں  پر اگر سونے کے پترے بھی چڑھا دوگے تو وہ ان کو گرنے سے نہ بچاسکیں  گے‘‘۔

 ابھی اس بات کو بہت دن نہیں  گزرے ہیں ۔ حال ہی میں  ویب سائٹ پر ایک تحریر فاعتبروا یا اولی الابصار کے نام سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ’’1973ء کی بات ہے، عرب -اسرائیل جنگ چھڑنے کو تھی۔ ایک امریکی سینیٹر جو اسلحہ کمپنی کا سربراہ تھا، ایک اہم کام کے سلسلے میں  اسرائیل کی وزیر اعظم گولڈا مائیر کے پاس گیا۔ اس نے ایک گھریلو عورت کے مانند سینیٹر کا استقبال کیا۔ کچن میں  بٹھایا، چائے بنائی، پیالی دھوئی ، جگہ پر رکھی۔ اس نے اس دوران طیاروں ، میزائیلوں ، توپوں  کا سودا شروع کر دیا اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پاگئیں  تو گولڈامائیر سینیٹر کی طرف پلٹی اور بولی: مجھے یہ سودا منظور ہے۔ آپ تحریری معاہدے کیلئے اپنا سکریٹری میرے سکریٹری کے پاس بھجوادیں ۔ یہ ان دنوں  کی بات ہے جب اسرائیل شدید اقتصادی بحران کا شکار تھا۔ اس کے باوجود اسرائیل کی وزیر اعظم نے اسرائیل کی تاریخ میں  خریداری کا اتنا بڑا سودا کر ڈالا۔ یہ سودا اتنا بڑا تھا کہ جب خود اسرائیلی کابینہ کے سامنے آیا تو اس نے اسے رد کیا اور رد کرنے کی بنیاد یہ تھی کہ اس خریداری کے بعد اسرائیلی قوم کو برسوں  تک دن میں  ایک کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ گولڈامائیر نے ارکانِ کابینہ کا موقف سنا اور کہا: آپ کا خدشہ درست سہی لیکن اگر ہم جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں  کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو تاریخ ہمیں  فاتح قرار دے گی اور جب کسی قوم کو تاریخ فاتح قرار دیتی ہے تو وہ یہ بھول جاتی ہے کہ جنگ کے دوران قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روز کتنی بار کھانا کھایا جاتا تھا۔ اس کے دسترخوان پر شہد، مکھن، جیم تھا یا نہیں  اور ان کے جوتوں  میں  کتنے سوراخ تھے یا ان کی تلواروں  کے نیام پھٹے پرانے تھے۔ فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔

 گولڈامائیر کی دلیل وزنی تھی۔ اسرائیلی کابینہ نے اس سودے کو منظوری دے دی۔ آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ گولڈامائیر کا اقدام درست تھا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اسی اسلحہ اور جہازوں  سے یہودی عربوں  کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔

 جنگ کے ایک عرصہ بعد ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے نمائندے نے گولڈا مائیر کا انٹرویو لیا۔ سوال تھا: امریکی اسلحہ خریدنے کیلئے آپ کے ذہن میں  جو دلیل دی تھی ، آپ کے ذہن میں  اسی وقت آئی تھی یا پہلے سے حکمت عملی تیار کر رکھی تھی؟ گولڈامائیر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا تھا۔ بولی: میں  نے یہ استدلال اپنے دشمنوں  کے نبی (محمدؐ) سے لیا تھا۔ میں  جب طالبہ تھی تو مذاہب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہی دنوں  میں  نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات پڑھی تھی۔ اس کتاب میں  مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جب محمدؐ کا وصال ہوا تو ان کے گھروں  میں  اتنی رقم نہیں  تھی کہ چراغ جلانے کیلئے تیل خریدار جاسکے، لہٰذا ان کی اہلیہ (حضرت عائشہؓ) نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا لیکن اس وقت بھی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حجرے ک دیواروں  پر نو تلواریں  لٹک رہی تھیں ۔ میں  نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں  نے سوچا کہ دنیا میں  کتنے لوگ ہوں  گے جو مسلمانوں  کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں  جانتے ہوں  گے لیکن یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں ؛ لہٰذا میں  نے فیصلہ کرلیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں  بھوکا رہنا پڑے، پختہ مکانوں  کے بجائے خیموں  میں  زندگی بسر کرنا پڑے تو بھی اسلحہ خریدیں  گے۔ خود کو مضبوط کریں  گے اور فاتح کا اعزاز پائیں  گے۔ گولڈامائیر نے اس حقیقت پر سے پردہ اٹھاد یا مگر ساتھ ہی انٹرویو نگار سے درخواست کی کہ اسے آف دی ریکارڈ رکھا جائے، شائع نہ کیا جائے۔ چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے یہ واقعہ حذف کر دیا۔ وقت دھیرے دھیرے گزرتا گیا۔ یہاں  تک کہ گولڈامائیر انتقال کرگئی اور وہ انٹرویو نگار بھی عملی صحافت سے الگ ہوگیا۔ اس دوران ایک اور نامہ نگار امریکہ کے بیس بڑے نامہ نگاروں  کے انٹرویو لینے میں  مصروف تھا۔ اس سلسلے میں  وہ اسی نامہ نگار کا انٹرویو لینے لگا جس نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے گولڈامائیر کا انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو میں  اس نے گولڈامائیر کا واقعہ بیان کر دیا۔ اس نے کہاکہ اب یہ واقعہ بیان کرنے میں  اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں  ہورہی ہے۔

 گولڈامائیر کا انٹرویو کرنے والے نے مزید کہا: میں  نے اس واقعہ کے بعد جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا تو میں  عربوں  کی جنگی حکمت عملی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے اسپین کو فتح کیا تھا، اس کی فوج کے آدھے سے زیادہ مجاہدین کے پاس پورا لباس نہیں  تھا۔ وہ بہتر بہتر گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں  پر گزارا کرتے تھے۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب گولڈا مائیر کا انٹرویو نگار قائل ہوگیا کہ تاریخ فتوحات گنتی ہے۔ دسترخان پر پڑے انڈے، جیم اور مکھن نہیں  دیکھتی۔

 گولڈامائیر کے انٹرویو نگار کا اپنا انٹرویو جب کتابی شکل میں  شائع ہوا تو دنیا اس ساری داستان سے آگاہ ہوئی۔ یہ حیرت انگیز واقعہ تاریخ کے دریچوں  سے جھانک جھانک کر مسلمانانِ عالم کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ بیداری کا درس دے رہا ہے۔ ہمیں  سمجھا رہا ہے کہ ادھڑی عباؤں  اور پھٹے جوتوں  والے گلہ بان، چودہ سو برس قبل کس طرح جہاں  بانی کرنے لگے؟ ان کی ننگی تلوار نے کس طرح چار بر اعظم فتح کرلئے؟

 پرشکوہ محلات، عالیشان باغات، زرق برق لباس، ریشم و کمخواب سے آراستہ و پیراستہ آرام گاہیں ، سونے، ہیرے اور جواہرات سے بھری تجوریاں ، خوش ذائقہ کھانوں  کے انبار اور کھنکھناتے سکوں  کی جھنکار اگر ہمیں  بچانے میں  کامیاب ہوتی تو تاتاریوں  کی ٹڈی دَل افواج بغداد کو روندتی ہوئی مستعصم باللہ کے محل تک نہ پہنچتی۔ آہ! وہ تاریخ اسلام کا کتنا عبرت ناک دور تھا جب مستعصم باللہ آہنی زنجیروں  اور بیڑیوں  میں  جکڑا، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان  کے سامنے کھڑا تھا۔

 کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں  کھانا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں  میں  ہیرے جواہرات رکھ دیئے۔ پھر مستعصم باللہ سے کہا: ’’جو سونا، چاندی تم جمع کرتے تھے اسے کھاؤ‘‘۔ بغداد کا تاج دار بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا، بولا: میں  سونا کیسے کھاؤں ؟ ہلاکو نے فوراً کہا: پھر تم نے یہ سونا چاندی کیوں  جمع کیا تھا؟ وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کی ترغیب دیتا تھا، کچھ جواب نہ دے سکا۔ ہلاکو خان نے آنکھیں  گھماکر محل کی جالیاں  اور مضبوط دروزے دیکھے اور سوال کیا: تم نے ان جالیوں  کو پگھلاکر آہنی تیر کیوں  نہ بنائے؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کے بجائے اپنے سپاہیوں  کو کیوں  نہیں  دیئے، تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے۔ خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا: اللہ کی یہی مرضی تھی۔ ہلاکو خان نے کڑک دار لہجے میں  کہا: پھر جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے وہ بھی اللہ کی مرضی ہوگی۔ پھر ہلاکو خان نے مستعصم باللہ کو قالین میں  لپیٹ کر گھوڑوں  کی ٹاپو تلے روندوا ڈالا اور بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔ ہلاکو خان نے کہا: آج میں  نے بغداد کو صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں  بناسکتی۔ تاریخ تو فتوحات گنتی ہے۔ محل، لباس، ہیرے جواہرات، لذیذ کھانے اور زیورات نہیں  گنتی۔

 مسلمانوں  کی یہ ساری زبوں  حالی اور قابل رحم حالت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں  پر کان نہ دھرنے کے نتیجے میں  ہی ہوتی ہے۔ کاش؛ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان باتوں  کو لائق توجہ سمجھا ہوتا۔ آپؐ فرماتے ہیں : میرے دوستوں  میں  قابل رشک وہ ہے جو سبک بار یعنی دنیوی ساز و سامان میں  نہایت ہلکا پھلکا ہو۔ صلوٰۃ میں  اس کا حصہ بڑا ہو۔ اپنے رب کی عبادت احسان کے ساتھ کرتا ہو اور اس کی روزی بقدرِ کفاف ہو اور وہ صابر و قانع ہو، (مسند احمد، ترمذی)۔ دنیا اور اور سامانِ دنیا کی چمک دمک، زیب و زینت ہر گز ہرگز رشک کے قابل نہیں  کہ ہم انھیں  حسرت بھری نگاہوں  سے دیکھتے رہیں ۔ یہ تو سب کی سب متاع قلیل ہیں ۔ ’’بہت جلد یہ سب کچھ بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں  تبدیل ہوجائے گا‘‘ (الکہف:8)۔

 ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں  بھی فرمایا: میں  تم پر فقر و ناداری کے آنے سے نہیں  ڈرتا لیکن مجھے یہ ڈر ضرور ہے کہ دنیا تم پر وسیع کر دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں  پر وسیع کر دی گئی تھی۔ تم اسے بہت زیادہ چاہنے لگوگے جیسے انھوں  نے اس کو چاہا۔ پھر وہ تم کو برباد کر دے گی جیسے کہ پہل لوگوں  کو اس نے برباد کر دیا، (بخاری و مسلم، کتاب الزہد والزقاق)۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بناکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھیجتے ہیں  تو کیا فرماتے ہیں : معاذ! عیش کوشی سے بچنا۔ اللہ کے بندے عیش کوش نہیں  ہوتے، (مسند احمد)۔

لیکن ہمارا حال کیا ہے؟ ہم کہتے ہیں  کہ ہمارے اپنے بیٹے اور ہماری اپنی بیٹیاں  عیش کوشی کی زندگی آخر کیوں  گزاریں ؟ کیوں  نہ دنیا بھر کی آسائشیں  اور عیش و عشرت ان کے قدموں  میں  ڈھیر کریں ؟ امّ درداء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ، میں  نے ابو درداءؓ سے کہا: تم تم مال اور منصب کیوں  نہیں  طلب کرتے ہو؟ انھوں  نے جواب دیا، میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: تمہارے آگے بڑی دشوار گھاٹی ہے۔ اسے گراں  بار یعنی زیادہ بوجھ والے آسانی سے پار نہ کرسکیں  گے۔ اس لئے میں  پسند کرتا ہوں  کہ اس گھاٹی کو عبور کرنے کیلئے ہلکا پھلکا رہوں ، (شعب الایمان بیہقی)۔ ابو درداءؓ  تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنیں  اور ہم نہ سنیں ؟ تو پھر اٰمنوا کما اٰمن الناس کی کوئی ادنیٰ سی شبیہ اپنے اندر کسیے پیدا کریں  گے اور پھر سوال یہ ہے کہ وہ دشوار گزار گھاٹی صرف ابو درداء رضی اللہ عنہ کو عبور کرنی ہے؟ کیا ہم اس سے مستثنیٰ ہیں ؟

   حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات جب چودہ صدیوں  کا سفر کرکے آج کے دور میں  نوجوان بچی مریم خنساء تک پہنچی، تو اس کے ایمان کا حال اس کے سسر صاحب نے بتایا، اس وقت جب وہ دنیا کے دارالامتحان سے دارالعیش کی طرف روانہ ہوگئی کہ شادی کے بعد گھر میں  کسی چیز کے اضافے کا مشورہ دیا تو کہنے لگی: ’’ابا جان! میں  اپنے سامان میں  اضافہ کرنا نہیں  چاہتی کہ مجھے پل صراط پار کرنا ہے‘‘۔ میں  یہاں  صرف اتنی بات اضافہ کروں  گی کہ کیا پل صراط صرف مریم خنساء کو پار کرنا ہے؟ اس حدیث کا موضوع تو سادگی ہے مگر آپ سوچیں  گی کہ بات کو پھیلا دیا گیا۔

تحریر: یاسمین حمید … ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔