حضورﷺ کی تشکیل ِریاست کی فکری اور عملی بنیادیں (ساتویں قسط)

(و):ابن خلدون کے نزدیک چونکہ اہل عرب تہذیب و تمدن سے گریزاں، مدنی زندگی کے لوازمات سے عاری تھے اور ان کی فطرت انتہائی سادہ تھی، اس لئے وہ تمام اقوام عالم میں قبولیت حق و خیر کی استعداد سب سے زیادہ رکھتے تھے۔ ابن خلدون کا یہ نظریہ بجا طور پر تاریخی صداقت کا حامل ہے۔ دنیا کی متمدن ترین مملکتوں اور جزیرہ نمائے عرب کے درمیان لق و دق صحرا اور بے آب و گیاہ میدان حائل تھے۔ اس وجہ سے تہذیب و تمدن کی نیرنگیاں اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اثرات سے سر زمین عرب محفوظ تھی۔ اور پھر سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ عرب وہ قوم تھی جو کسی بیرونی تہذیب کے قدموں سے پامال نہ ہوئی تھی، اس کے تمام قوائے فطری علیٰ حالہٖ قائم تھے، نیز ان کی طبیعت پر جوش اور فطرت بے نقش تھی، اس لئے ان کی لوح حیات پر نقش تازہ ثبت کئے جانے کی گنجائش موجود تھی۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین کو پیش کیا وہ بجائے خود انسان کی فطرت اور اس کی حاجیات و ضروریات کے عین مطابق ہے جس کی تائید قرآن مجید کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ :

’’ہر طرف سے کٹ کر اپنے رخ کو دین کی طرف سیدھا کرلو اور اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت کی پیروی کرو جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے‘‘۔

گویا اس دین کا سرچشمہ فطرت کے چند بنیادی حقائق ہیں اور اس کی صحیح نوعیت ’’دین فطرت‘‘ کی ہے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی یہی وہ بنیادی صفت تھی جس نے اہل عرب کی ایک بڑی تعداد کو اس کی طرف مائل کیا اور اس کیلئے ان کے دلوں کو کھول دیا۔ اس دین کو قبول کرلینے کے بعد ان کی زندگیوں میں جو انقلاب واقع ہوا اس نے بجائے خود معاشرے کے دوسرے افراد کو متاثر کیا اور اس طرح یہ دائرہ بڑھتا چلا گیا۔  دین کی تعلیمات کی اثر انگیزی اور انقلاب آفرینی کا سب سے بڑا ثبوت ہمیں اس وقت ملتا ہے جب نجاشی (شاہِ حبش) کے دربار میں تقریر کرتے ہوئے جعفر طیار یہ اعتراف کرتے ہیں کہ:

 ’’اے بادشاہ! ہم لوگ پہلے سخت جاہل تھے، بتوں کی پرستش ہمارا مذہب تھا، مردار خوری ہم کرتے تھے، خواہش اور گناہ کا ارتکاب ہمارا وطیرہ تھا، قطع رحم اور پڑوسی کی حق تلفی اور ظلم و ستم کو ہم نے جائز کر رکھا تھا جو زبردست ہوتا وہ کمزور کو کھا جاتا، پس ہم ایسی ہی ذلیل حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم پر کرم کیا اور اپنا رسول ہمارے پاس بھیجا جس کے نسب اور شرف اور صدق اور امانت اور عفاف سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ اس رسولؐ نے ہم کو توحید الٰہی اور معرفت کی طرف بلایا اور بت پرستی جو ہمارے باپ دادا سے چلی آتی تھی اس سے ہم کو منع کیا اور صدقِ مقال (سچی بات) اور ادائے امانت اور صلہ رحم اور ہمسائے کے حقوق اور گناہوں سے بچنے اور خواہش کے ترک کرنے کا حکم دیا اور یتیم کا حق تلف کرنے اور عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا اور الٰہ واحد کی عبادت اور نماز اور روزہ اور زکوٰۃ کو ہم پر فرض کیا…۔ ہم نے اس رسول کی تصدیق کی اور ان پر ایمان لائے اور ہم نے شرک و کفر کو چھوڑ دیا اور جس چیز کو رسولؐ نے حلال بتایا ہم نے حلال سمجھا اور جس کو حرام بتایا ہم نے حرام سمجھا‘‘۔

 حضرت جعفر کی یہ تقریر کم از کم یہ بات تو صاف طور پر ثابت کر رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بہر حال لوگوں نے قبول کیا اور ان تعلیمات کو تسلیم کرلینے والوں کی زندگیوں پر انقلابی اثرات رونما ہوئے۔ اب ظاہر ہے کہ جو لوگ معاشرہ میں ایسی واضح تبدیلیاں دیکھ رہے تھے اس کی طرف فوری طور پر متوجہ ہونے پر مجبور ہوگئے۔ یہاں ایک اہم نکتہ قابل لحاظ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ تعلیمات کے اثرات سے زندگیوں میں تبدیلیاں صرف اسی لئے نہیں آئیں کہ ان کی فطرت سادہ تھی بلکہ فی الحقیقت زندگی میں تبدیلی اقتضائے ایمانی تھی؛ یعنی جو لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے ان کو رسوم جاہلیت کا ترک کرنا اور اخلاق فاضلہ کو اختیار کرنا بر بنائے ایمان ضروری تھا۔ بخاری کی متعدد روایتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ ’’جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ پڑوسی کو نہ ستائے، مہمان کی ضیافت اور توقیر کرے، اچھی بات کہے یا خاموش رہے، زنا نہ کرے، شراب نہ پئے اور چوری نہ کرے‘‘۔

  مختصر یہ کہ رسوم جاہلیہ کو مکی زندگی میں اولاً تقاضائے ایمانی کے طور پر مٹا دیا گیا اور پھر جب مدینہ میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آگیا تو قانونی و دستوری طور پر ختم کر دیا گیا۔

(ز): اوپر ہم نے جعفر بن ابی طالب کی تقریر کے بعض حصے نقل کئے ہیں۔ انھوں نے اس تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ ’’ہماری قوم نے اس دین حق کے اختیار کرنے پر ہم کو تکلیفیں پہنچائیں اور ہم کو بہت ستایا تاکہ ہم اس دین کو ترک کر دیں اور دوبارہ بتوں کی پرستش اختیار کریں اور جس طرح کہ وہ خبائث کو حلال سمجھتے ہیں ہم بھی حلال سمجھیں۔ پس جب ان کا ظلم ہم پر حد سے زائد ہوا اور انھوں نے ہمارا وہاں رہنا دشوار کر دیا تو ہم وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور آپ کے دامنِ پناہ میں آگئے‘‘۔

 یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آغازِ اسلام کے بعد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والے اصحابؓ کو شدید تکالیف، بے انتہا مظالم اور بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ ترغیب و ترہیب کا کوئی انداز ایسا نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صاحبان ایمان پر نہ استعمال کیا گیا ہو۔ ان کو ڈرایا دھمکایا گیا، ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے اور پھبتیاں کسی گئیں، متہم کیا گیا اور دعوتِ محمدیؐ کو روکنے کی کوششیں کی گئیں۔ قریش نے رسول اللہ کو عاجز کرنے کیلئے یوں تو بہت سے حربے استعمال کئے لیکن شاید مکی دور کے دو واقعات قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ سنہ 7 نبویؐ میں قریش نے بنو ہاشم کا معاشرتی مقاطعہ کر دیا۔ اس سے زیادہ شدید اذیت پہلے کبھی نہ دی گئی تھی۔ محرم سنہ7 نبوی سے لے کر سنہ 10 نبوی تک تین سال کا عرصہ قریش کی ظالمانہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ایک حلف نامہ کے ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خاندانِ بنو ہاشم کو غیر معینہ مدت کیلئے معاشی و معاشرتی دونوں اعتبار سے مفلوج کر دینے کا منصوبہ بنایا گیا؛ لیکن وہ تین سال سے زیادہ برقرار نہ رہ سکا اور اس مقاطعہ کے نتائج اگر چہ کفار قریش کی توقعات کے مطابق نہ نکل سکے ، لیکن اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بنو ہاشم کو بہر حال مبتلائے عذاب رکھا گیا۔

  اور دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ہجرت سے کچھ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کفار قریش کے ایک خصوصی اجلاس میں تیار کیا گیا۔ دارالندوہ میں مکہ کے اعاظم و اکابر کا ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں تمام خاندانوں کے سربرآوردہ لوگوں نے شرکت کی۔ حاضرین نے مختلف تجاویز پیش کیں۔ کسی نے کہا آپ کو قید کر دیا جائے، کسی کی تجویز یہ تھی کہ جلا وطن کیا جائے۔ آخر میں ابو جہل نے نہایت غور و خوض کے بعد کہا کہ محمد کو قید یا جلاوطن کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے۔ قتل میں بھی سب قبیلوں کے لوگ حصہ لیں۔ ہر قبیلہ میں سے ایک ایک جوان منتخب کیا جائے اور یہ سب مل کر محمد کی شمع حیات کو گل کردیں۔ اس صورت میں قتل کی ذمہ داری تمام قبیلوں پر آپڑے گی اور محمد کے قبیلہ میں اتنی ہمت نہ ہوگی کہ وہ ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے سب قبیلوں سے جنگ کرسکے۔ زیادہ سے زیادہ خون بہا اور ادا کرکے معاملہ رفع دفع کر دیا جائے گا۔ ’’ملائِ قریش‘‘ کا یہ منصوبہ اگر چہ بڑی مستعدی سے بنایا گیا تھا، تاہم تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ مخالفین و کفار کی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی اور رسولؐ اللہ بحفاظت تمام مدینہ تشریف لے گئے۔

  قریش کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحابؓ پر مظالم کا یہ دور مختلف نتائج بروئے کار لایا، مثلاً:

  1۔ مسلمان آزمائشوں کی بھٹی سے گزر کر کندن بن گئے۔ ان کے ایمان و اسلام کو جانچ لیا گیا اور سب پر یہ واضح ہوگیا کہ ایمان کی قوت کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ یہ بھی عیاں ہوگیا کہ ایمان و اسلام سے زندگی میں کیسی انقلابی تبدیلیاں آجاتی ہیں۔

 2۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحابؓ کا اخلاص و للہیت الم نشرح ہوگئی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ داعیِ حق اور اس کے متبعین نہ کسی اجر کے طالب ہیں نہ دار و دہش یا منصب و جاہ یا مال و منال کے خواہشمند ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ کسی لالچ یا خوف سے بھی متاثر نہیں ہوتے اور تمام دنیاوی محبتوں سے بالاتر سب کی فلاح و صلاح چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس گہرے اخلاص نے لوگوں کے دلوں میں بالآخر ہمدردی کے جذبات پیدا کئے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بنوہاشم کے معاشی و معاشرتی مقاطعہ پر کم از کم پانچ آدمیوں یعنی ہشام بن عمرو (بنو عامر)، زہیر بن ابی امیہ (بنو مخزوم)، مطعم بن عدی (بنو نوفل) اور ابو البختری و زمعہ بن الاسود (بنو اسد) نے اس ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کی اور سراپا احتجاج بن گئے۔ انھوں نے صاف صاف کہا:

 ’’اے اہل مکہ! یہ کیا انصاف ہے کہ ہم کھائیں، پہنیں، آرام سے بسر کریں اور بنو ہاشم کو آب و دانہ نصیب نہ ہو؟ خدا کی قسم! جب تک یہ ظالمانہ معاہدہ چاک نہ کر دیا جائے گا ہم چین سے نہ بیٹھیں گے‘‘۔

 اور پھر بالآخر انہی لوگوں کی کوششوں سے یہ معاہدہ ختم ہوا۔

3۔  ان مظالم اور مخالفت کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا چرچا نہ صرف مکہ اور پورے عرب بلکہ دوسرے بلاد و ممالک میں بھی پھیل گیا۔ ایک طرف مخالفانہ طور پر قریش اور دوسرے زائرین مکہ نے اطراف و جوانب میں اسلام کا پیغام پہنچایا اور دوسری طرف اہل مکہ کی سرد مہری اور مخالفت نے رسولؐ اللہ اور آپ کے اصحابؓ کو مکہ سے باہر تعلقات استوار کرنے کا موقع عطا کیا۔ انہی وجوہ سے صحابہؓ نے دو مرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور پھر مدینہ کی طرف کوچ کیا۔ علاوہ بریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے باہر طائف میں مضافاتِ مکہ میں اور حج پر آنے والے دوسرے قبائل کو دعوتِ اسلام دی اور اس طرح اسلام کی تبلیغ و شیوع کا دائرہ بڑی تیزی کے ساتھ دور دور پھیل گیا۔ اس سلسلہ میں مدینہ کے قبائل اوس و خزرج نے اس دعوت کو سن کر لبیک کہا، نتیجتاً بیعت ہائے عقبہ کا انعقاد ہوا جن کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ آپؐ مدینہ تشریف لے گئے بلکہ ایک ریاست کی تاسیس فوری پر عمل میں آگئی۔

ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔