الیکشن سے مربوط شرعی مسائل (اول)

   تمہید

  اس حقیقت سے انکارنہیں  کیا جا سکتا سماج ومعاشرہ اور انسانی سو سائٹی کو منظم و مرتب کرنے کے لئے تنظیم وحکومت کی ضرورت پڑتی ہے۔ تنظیم کا ایک دائرہ تو محدود ہوتا ہے جسکو ہم خاندان کہتے ہیں، دوسرا دائرہ بہت ہی وسیع ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہوتا ہے جس کو سلطنت اور حکومت سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور سچائی یہ ہے کہ ایسے کسی نظام کے بغیر انسان کی تمام ضرورتیں  پوری نہیں  ہو سکتیں۔ اس لئے ہر مہذب سماج ریاست و حکومت کے زیر سایہ زندگی گزارتا آیا ہے۔

 جمہوریت اور سیکولزم

 حکومت کی تشکیل کے مختلف طریقے زمانۂ قدیم سے مروج رہے ہیں  مصر حاضر میں  جو سیاسی نظام (Political system) مشرق سے مغرب تک پھیلا ہے اور جس کو غلبہ حاصل ہے وہ جمہوری نظام (Democracy) ہے۔

 یہ بات دو دو چار کی طرح عیاں  ہے کہ جمہوریت اور سیکولزم کے تصورات و نظریات اسلامی تعلیمات سے جوڑ نہیں  کھاتے (اگر چہ جمہوریت کے بعض اصول اسلام کے طرز حکمرانی سے بہت قریب ہیں ) اس لئے اس سے بڑی کوئی گمراہی نہیں  ہوگی کہ انہیں  اسلامی نظریات سمجھ کر قبول کر لیا جائے، لیکن یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ شریعت (اسلامی) کا ایک قاعدہ اور ضابطہ ہے کہ ’’من ابتلی ببلتین فلیختر أھونھا‘‘ یعنی اگر دو برائیوں  میں  سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے اور وہ ناگزیر ہوجائے تو ضروری ہے کہ ان دونوں  میں  جو ہلکی برائی ہے اس کو اختیار کیا جائے۔

حکیم الأمت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں۔

 ’’اور یہ شرعی اور عقلی قاعدہ ہے کہ جس جگہ دو قسم کے ضرر (نقصان) جمع ہوں، ایک اشد (سنگین) دوسرا اھون (یعنی کم درجہ کا) تو اھون کو اختیار کر لینا چاہئے یعنی جہاں  دونوں  شقوں  میں  مفسدہ ہو مگر ایک میں  اشد ایک میں  أخف تو أشدسے بچنے کے لئے یا اس کو رفع کرنے کے لئے اخف کو گوارہ کر لیا جاتا ہے اور ہے تو یہ بھی برا مگر دوسرے مفسدہ کے مقابلے میں  پھر بھی أخف ہے۔(ملفوظات اشرفیہ؍41) (مروجہ سیاست کے شرعی احکام صفحہ 34)

 جمہوریت اور آمریت میں  قابلِ ترجیح کون؟

 اوپر کی تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غیر مسلم ملک میں  آمریت کو جمہوریت (آمریت میں  عوام الناس کا اختیار ختم کر دیا جاتا ہے بادشاہِ وقت سیاہ وسفید کا تنہا مالک بن جاتا ہے ظاہر سی بات ہے جس ملک میں  آمریت قائم ہووہاں  مسلمانوں  کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تحریر و تقریر کی آزادی نہیں  مل سکے گی) کے مقابلے میں  ترجیح دینا جائز نہیں  ہوگا۔ کیونکہ جہاں  دو برائیوں  میں  سے ایک برائی کو اختیار کرنا ناگزیر ہوجائے وہاں  مسلمان پر لازم ہے کہ دونوں  میں  جو ہلکی برائی ہو اس کو اختیار کرے اور جمہوریت بہر حال غیر مسلم مذہبی آمریت سے ہلکی برائی ہے۔

   یہاں  یہ بات یاد رہے کہ سیکولر جمہوری حکومت کی تائید (اس میں  شرکت اور انتخاب میں  حصہ لینا امیدوار بننا) اس لئے نہیں  کہ سیکولرزم اور جمہوریت اسلامی چیزیں  ہیں  بلکہ صرف اس لئے اس کی تائید کی جائے گی کہ آمریت کے مقابلے میں  یہ چھوٹی برائی ہے اور جمہوری نظام میں  مسلمانوں  کو اس کا موقع ضرور ملے گا کہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے ذریعہ مسلمانوں  کی تعداد میں  اضافہ کریں  اور تحریر وتقریر کی آزادیوں  سے فائدہ اٹھاکر اسلامی معاشرتی اقدار کی ترویج کے لئے فضا ہموار کریں۔

  خلاصہ یہ ہے کہ سیکولرزم (لامذہبیت) کی پہلی تعبیر تو مسلمانوں  کے لئے کسی حال میں  قابلِ قبول نہیں  ہے البتہ غیر مسلم ممالک میں  عبوری طور پر سیکولرزم کی جو تعبیر مسلمان اپنا سکتے ہیں  اور ان کے نزدیک قابل قبول ہے(عارضی اور و قتی طور پر) وہ یہ ہے ریاست کا کوئی مذہب نہیں  ہوگا، ریاست مذہب کے معاملات میں  مداخلت نہیں  کرے گی، مذہبی گروہوں  کو اپنے اپنے مذہب پر عمل اور اس کی تبلیغ و اشاعت کی آزادی حاصل ہوگی۔

 ووٹ کی شرعی حیثیت (سوال نمبر1 -اور 2؍ کا جواب)

  اس حقیقت سے انکار نہیں  کیا جا سکتا کہ عصر حاضر کی گندی اور بے لگام سیاست نے الیکشن اور ووٹ کے لفظ کو اتنا بدنام اور داغدار کر دیا ہے کہ انتخاب اور الیکشن کے ساتھ مکروفریب، رشوت، جھوٹ اور دغابازی کا تصور لازم سا ہو گیا ہے، اس لئے زیادہ تر شریف اور (سادہ لوح)لوگ اس جنجال میں  پڑنا مناسب نہیں  سمجھتے۔ اور یہ غلط فہمی بھی عام ہو گئی ہے کہ الیکشن اور ووٹوں  کی سیاست کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں  ایسے حضرات کا منشا تو برا نہیں  لیکن نتائج بہت برے ہیں  یہ سوچ کہ آج کی سیاست مکروفریب کا دوسرا نام ہے اس لئے نہ الیکشن میں  کھڑا ہونا چاہیے اور نہ ووٹ اور حقِ رائے دہی کا استعمال کرنا چاہیے- یہ نظریہ دین و شریعت کے خلاف اور ملک و ملت کے لئے بھی سخت نقصان دہ اور مضر ہے۔ فقیہ عصر مولانا تقی عثمانی نے بہت نکتے کی بات اور پتے کی بات تحریر کی ہے۔

  ’’ماضی میں  ہماری سیاست بلاشبہ مفاد (پاکستان کے حالات کے تناظر میں  مولانا نے یہ بات اصلا لکھی ہے) پرست لوگوں  کے ہاتھوں  گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے، لیکن جب تک کچھ صاف ستھرے اسے پاک کرنے کے لئے آگے نہیں  بڑھیں  گے اس گندگی میں  اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ اور پھر ایک نہ ایک دن یہ نجاست خود ان کے گھروں  تک پہنچ کر رہے گی عقلمندوں  اور شرافت کا تقاضہ یہ نہیں کہ سیاست کی اس گندگی کو دور دور سے کہا جاتا رہے بلکہ عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں  کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کی جائے جو مسلسل اسے گندہ کر رہے ہیں۔

  حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونین حضرت رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’الناس إذا رأو الظالم فلم یاخذوا علی یدیہ أو شک أن یعمّھم اﷲ بعقاب‘‘ (جمع الفوائد صفحہ 51 جلد دوم) اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں  تو کچھ بعید نہیں  کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب نازل فرمائیں ‘‘۔

 اگر آپ کھلی آنکھوں  دیکھ رہے ہیں  کہ ظلم ہو رہا ہے، اور انتخابات میں  سر گرم حصہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجے میں  مٹانا آپ کی قدرت میں  ہے تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بجائے ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اس ظلم کو روکنے کی مقدور بھر کوشش کریں  (فقہی مقالات جلد دوم صفحہ 28-84)

                اوپر کی تفصیلات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوگئی کہ جمہوری ملکوں  میں  مسلمانوں  کے ووٹ کی کتنی أہمیت ہے اور مسلمان کس طرح ظالم حکومت کو آنے سے روک سکتے ہیں  اور ان کی حکومت کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی سی ہے، اور جس طرح جھوٹی گواہی دینا حرام اور ناجائز ہے اسی طرح ضرورت کے موقع پر شہادت کو چھپانا بھی حرام ہے قرآن مجید کا ارشاد ہے ’’ولا تکتموا الشھادۃ ومن یکتمھا فانہ آثم قلبہ‘‘ اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ اور جوشخص گواہی کو چھپائے اس کا دل گناہ گار رہے گا‘‘۔ اور جمع الفوائد اور طبرانی کی روایت ہے حضرت موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: من کتم شھادۃ إذا دُعی إلیھا کان کن شھد بالزور (جمع الفوائد بحوالہ طبرانی صفحہ 42 جلد1) جس کسی کو شہادت کے لئے بلا یا جائے پھر وہ اسے چھپائے تو وہ ایسا ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا‘‘۔

 اسلام میں  سچی گواہی کا مقام ہے کہ مذہب اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی انسان اپنا یہ فریضہ ادا کرے کہ اور کسی دعوت اور ترغیب و تشویق کا انتظار بھی نہ کرے چنانچہ حدیث شریف میں  آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا میں  تمہیں  نہ بتاؤں  کہ بہترین گواہ کون ہے وہ شخص ہے جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی ادا کردے۔ (جمع الفوائد)

 ووٹ بھی بلا شبہ ایک شہادت ہے اس لئے قرآن و حدیث کے مذکورہ أحکام اس پر بھی جاری ہوں  گے لہذا ووٹ نہ دینا اور اس حق کو محفوظ رکھنا یہ دین داری کا تقاضہ نہیں  بلکہ اس کا صحیح استعمال کرنا ہر مسلمان پر فرض اور ضروری ہے۔

 دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے، اس سفارش کے بارہ میں  قرآن کریم کا یہ ارشاد ہر ووٹر کو اپے سامنے رکھنا چاہیئے ’’ومن یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منھا ومن یشفع سفاعۃ سیئۃ یکن لہ کفل منھا‘‘ یعنی جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اس میں  اس کو بھی حصہ ملتا ہے اور بری سفارش کرتا ہے تو اس کی برائی میں  بھی اس کا حصہ لگتا ہے- اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت دار آدمی کی سفارش کرے جو خلقِ خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے اور پوری امانت اور دیانت کے ساتھ قوم و سماج کی فلاح و بہبود میں  لگا رہے- اور بری سفارش یہ ہے کہ نا اہل نالائق، فاسق ظالم کی سفارش کرکے اس کو خلقِ خدا پر مسلط کرے- اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں  سے کامیاب ہونے والا امیدوار اپنے پنج سالہ دور میں  جو نیک یا بد عمل کرے گا ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں  گے۔

 ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں  ایسا نہیں  کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں  اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے، اس لئے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لئے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔ نیز اگر مسلم ملک ہے تو وہاں  ووٹ کی حیثیت ان سب کے علاوہ سیاسی بیعت کی ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعہ متعلقہ امیدوار کو وکیل بناتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے سربراہ مملکت کا انتخاب کرے خدا کرے جلد ہی ہمارے ملک میں  وہ خوش قسمت ساعت آئے (آمین)(مستفادا جواہر الفقہ جلد دوم صفحہ 292-93)

  الیکشن میں  بحیثیت امیدوار پیش کرنے کا حکم؟َ (سوال نمبر3 کا جواب)

 مذہب اسلام اس بات سے منع کرتا ہے کہ لوگ خود کسی عہدہ یا منصب کے طلب گارہوں – آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب آدمی مطالبہ کے بغیر کسی ذمہ داری پر فائز کیا جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی خاص مدد ہوتی ہے، اور جب مطالبہ اور سوال کے ذریعہ کوئی عہدہ حاصل کرتا ہے تو اپنے نفس کے حوالہ کر دیا جاتا ہے اوراللہ کی مدد اس کی شریک حال نہیں  ہوتی ہے۔(ابو داؤد حدیث نمبر 1324)

لیکن اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ وہ اس میدان میں  قوم وملت اور سماج و معاشرہ کی صحیح خدمت کر سکیں  گے اور امانت و دیانت کا دامن حتی المقدور نہیں  چھوڑیں  گے اور قرآنی حکم اور سنت یوسفی کو زندہ کرنے کا جذبہ ہو کہ ’’اجعلنی علی خزائن الأرض انی حفیظ علیم‘‘ تو وہ شخص الیکشن (انتخاب) میں  اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کر سکتے ہیں۔ بلکہ عصر حاضر میں  اگر شریف دین دار اور معتدل مزاج لوگ انتخابات کے معاملے میں  بالکل یکسو ہو کر بیٹھ جائیں  گے تو اس کا نتیجہ یہ سامنے آئے گا کہ پورا میدان شر یروں  فتنہ پر دازوں  اور بے ایمانوں  کے ہاتھ میں  آجائے گا۔ اس لئے احقر کی رائے میں  مسلمانوں  کے لئے ضروری ہے کہ پوری بیدارمغزی اور فہم و فراست کے ساتھ اس میں  بھر پور حصہ لیں۔ اور جن کے اندر أہلیت اور قابلیت ہو ان کو ضرور میدان میں  اتاریں  اور ان کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کریں  اور خاص طور پر ان علاقوں  میں  جہاں  مسلمان اکثریت میں  ہیں  یا مسلمان جیتنے کی پوزیشن میں  ہیں  اور مسلمان ملی اتحاد کا ثبوت دیں  اور مسلمان قائد کو منتخب کرکے ایوانِ زیریں  تک پہونچائیں  اور باطل طاقتوں  کو مضبوط نہ ہونے دیں  بلکہ میر جعفر اور میر صادق جیسے مسلمانوں  کو بھی کیفر کردار تک پہونچائیں۔

  یہاں  یہ بات بھی یاد رہے کہ دور حاضر میں  زندگی کے تمام شعبوں  پر غیر معمولی طور پر حکومت اثر انداز ہوتی ہے، حکومت کی تشکیل اور امیدواری سے کنارہ کش ہوکر مسلمان اپنے دینی ملی اور سماجی وجود کو قائم رکھنے اور جائز دنیاوی مصالح کی حفاظت میں  کامیاب نہیں  ہو سکتے اس لئے ناچیز کی رائے میں  ایسے باشعور اور لائق افراد کو خود کو امیدواری کے طور پر پیش کرنا جائز ہی نہیں  بلکہ ضروری ہے اگر کوتاہی کریں  گے تو عند اﷲ مأخوذ ہوں  گے۔واللہ اعلم بالصواب

مخالفِ شریعت قانون ساز ادارہ کا ممبر بننے کا حکم؟ سوال نمبر4 کا جواب)

ایسے غیر مسلم ممالک جہاں  قانون ساز ادارے شریعت کی مخالف قوانین وضع کرتے ہوں، ایسی صورت میں  ان اداروں  کا ممبر بننا اور ان قوانین کی تائید و موافقت کرنا درست نہیں  ہوگا۔ لیکن جمہوری ملکوں  میں  ہر ممبر کو آزادی رائے کا حق ملتا ہے اور وہ اپنے مذہب کو اس قانون سے مستثنی کر ا سکتا ہے جو مخالفِ شریعت ہو ( غالبا تمام جمہوری ملکوں  میں  مسلم پر سنلاء اور اس کے عائلی نظام پر مسلمانوں  کو عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ تعزیراتی معاملات اور معاشی و اقتصادی نظام میں  مسلمانوں  کو آزادی حاصل نہیں  ہے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں ) شاہ بانو کیس (۱۹۸۶ء) اس کی واضح نظیر اور مثال ہے، جب ہمارے علماء، دانشوران اور ایوان زیریں  و ایوانِ بالا (لوک سبھا راجیہ سبھا) کے چند مسلم ممبروں  نے مسلم پرسنلاء کی بالادستی کو ثابت کرنا چاہا، اور مسلمانوں  کے عائلی نظام کی حفاظت اور ملی شناخت کی خاطر کمر بستہ ہوئے تو حکومت وقت بھی مجبور ہوگئی اور مسلم پرسنل لاء کی بالادستی قائم رہی۔ میری ناقص رائے اس سلسلے میں  یہ ہے کہ اگر کوئی پارٹی وہیپ جاری کرے اور پارٹی کی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے کا پابند بنائے تو ایسی صورت میں  مسلم ممبران کو پارٹی کے اس منشور اور وہیب کی مخالفت کرنی چاہیے اور اپنے ضمیر کی بنیاد پر استعفاء دے دینا چاہیئے۔

تبصرے بند ہیں۔