حضرت علی المرتضیٰؓ: علم وحکمت کے مہر درخشاں

محمد ریاض علیمی

خلیفۂ چہارم، جانشینِ رسول، زوجِ بتول حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ عام الفیل کے تیس (۳۰) سال بعد ۱۳ رجب المرجب کو پیدا ہوئے۔ بچوں میں ایمان لانے میں سبقت کا سہرا آپ کے سر ہے۔ زمانۂ طفلی سے ہی رسول اللہ ﷺ کی زیرِ تربیت رہے اور آپ ﷺ کی حیات ظاہری تک آپ ﷺ کی مدد و نصرت اور دین اسلام کی حمایت میں مصروف رہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی بہت سے کما لات اورخوبیوں کی جامع ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جراأت، شجاعت، بہادری، سخاوت، سمیت علم وحکمت کے دریا اپنے اندر سموئے ہوئے تھے۔آپ سید العرب، صاحب ذوالفقار،حیدر کرار، میدانِ خطابت کے شہسوار اور قاضیٔ برحق بھی تھے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ میدان علم میں علمائے صحابہ میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کو علم و حکمت کا باب یعنی دروازہ فرمایا:  حضرت عبد اﷲبن عباس رضی اﷲعنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا :میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لہٰذا جو اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس دروازے سے آئے۔ (المستدرک للحاکم) اسی طرح ایک اور روایت میں سرکارِ مدینہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ حکمت کا دروازہ قرار دیا۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ (ترمذی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : مجھے نصیحت فرمایئے! ارشاد فرمایا: کہو! میرا رب اللہ تعالیٰ ہے، پھر اس پر قائم رہو۔ میں نے کہا: میرا رب اللہ تعالیٰ ہے اور میری توفیق اسی کی طرف سے ہے۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو حسن! تمہیں علم مبارک ہو۔ تم نے علم کے سمندر سے پی پی کر پیاس بجھائی۔ (ابن عساکر) علم سکھانے والے جب علم کا شہر یعنی مصطفیﷺ      ہوں تو اس علم کی کیفیت کیا ہوگی۔ اس علم کی انتہا کہاں ہوگی۔یقینا اس علم کے اسرار و رموز کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس علم کی گہرائیوں کو نہیں ناپا جاسکتا۔ اس کی وسعتوں کو نہیں سمیٹا جاسکتا۔

رسول اللہ ﷺ نے جتنا چاہا اللہ کے حکم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو علم سکھایا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے علی! مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قریب کروں اور علم سکھاؤں تاکہ تم اسے یاد رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب) رسول اللہ ﷺ نے قرآن کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعلق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں (اس طرح جڑے رہیں گے اور) جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے۔ (المستدرک للحاکم) گویا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ر ضی اللہ عنہ اور قرآن کو لازم و ملزوم قراردیا۔ یہ روایت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ حضرت علی کو قرآن کا علم دیا گیا تھا۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے۔ ہر چیز کا علم اس میں سمایا ہوا ہے اور حضرت علی قرآن کے ظاہری اور باطنی علوم کے جاننے والے تھے۔ قرآن کے اسرار و رموز سے واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اگر میں چاہوں تو سورۃ الفاتحہ کی تفسیر سے ستر(۷۰) اونٹ بھر دوں۔ (قوت القلوب) یعنی باب العلم کا حال یہ ہے کہ اگر وہ سورۃ الفاتحہ کی تفسیر لکھنا شروع کریں تو علوم و معرفت کے دریا بہادیں، قرآن کے اسرارو رموز منکشف کرتے چلے جائیں ور اتنی تفسیر ضبط تحریرمیں لے آئیں کہ ستر اونٹ اس کے وزن سے بھر جائیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بے شک قرآن مجید سات حروف پر اُترا ہے اور ان میں سے ہر حرف کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسے عالم ہیں جن کے پاس ظاہر و باطن دونوں کا علم ہے۔ (ابن عساکر)اسی بناء پر  حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کس کے بارے، کس جگہ اور کس پر نازل ہوئی بے شک میرے رب نے مجھے بہت زیادہ سمجھ والا دل اور فصیح زبان عطا فرمائی ہے۔ (حلیۃ الاولیاء) حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :مجھ سے کتاب اللہ کے بارے سوال کرو پس بے شک کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں میں یہ نہ جانتا ہوں کہ وہ دن کو نازل ہوئی یا رات کو، پہاڑ میں نازل ہوئی یا میدان میں۔ (الطبقات الکبریٰ )

آپ رضی اللہ عنہ کی علمی شان یہ تھیکہمنبر پرکھڑے ہوکر فرمایا کرتے تھے کہ مجھ سے جوکچھ پوچھنا چاہو پوچھ لو۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لو۔ (الریاض النضرۃ) آ پ کے زمانے میں مقدمات میں فیصلہ کرنے میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوتاتو آپ کی نگاہیں اس کی گہرائی تک پہنچ جاتیں اور حق کے ساتھ وہ فیصلہ فرماتے کہ سب دیکھتے رہ جاتے۔ آپ کی حکمت، فراست، دانائی کا عالم یہ تھا کہ پیچیدہ در پیچیدہ  مقدمہ بھی آپ کی خدمت میں پیش ہوتا تو اپنی دانائی اسے انتہائی آسانی کے ساتھ اس مقدمہ کی عُقدہ کشائی کرلیتے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو حکمت و دانائی کا کثیر ترین حصہ عطا کیا گیا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھا، کسی نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حکمت و دانائی کو دس (۱۰)حصوں میں تقسیم کیا گیا، نو(۹) حصے حضرت علی کو اور ایک حصہ لوگوں کو عطا کیا گیا۔ (ابن عساکر)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں علم فرائض اور مقدمات کے فیصلہ کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی دوسرا نہیں تھا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: علی سے زیادہ مسائل شرعیہ کا جاننے والا کوئی اور نہیں ہے۔ (الریاض النضرۃ)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا علمی مرتبہ اتنا بلند تھا کہ آپ کے زمانے میں بھی آپ کے پائے کا کوئی عالم موجود نہیں تھا۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایااور کہا کہ گزشتہ کل تم سے وہ ہستی جدا ہو گئی ہے جن سے نہ تو گذشتہ لوگ علم میں سبقت لے سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے ان کے مرتبہ علمی کو پا سکیں گے۔ (مسندِ احمدبن حنبل)

تبصرے بند ہیں۔