کیا مسلم مغل بر صغیر معاشی و صنعتی بدحالی کا مرکز تھا؟

 ڈاکٹر احید حسن

فرانسس برنیئر ایک فرانسیسی سیاح تھا جو سترہویں صدی عیسوی میں اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں کئ سال رہا اور واپس فرانس جاکر مسلم  برصغیر کے معاشی و سیاسی حالات کے بارے میں ایک کتاب The Travels in Mughal India لکھی۔ اس کتاب میں اس نے اس وقت کے مسلم برصغیر کو یورپ سے نیچا دکھانے کی پوری کوشش کی اور یہ دعوٰی کیا کہ مسلم مغل سلطنت کا برصغیر سیاسی و معاشی بدحالی کا مرکز ہے، امراء عیاشیوں میں مبتلا ہیں، عوام غربت کا شکار ہے، شہر برباد اور صحت مند خوراک ناپید ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ فرانسس برنیئر ایک مغربی سیاح تھا اور اس کی تصنیف میں یورپ کے حق میں جانب داری اور مسلم مغل سلطنت کے بارے میں نسلی و مذہبی تعصب اور غلط بیانی کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کئ مؤرخین نے جن میں خود کئ مغربی مورخین بھی شامل ہیں، نے فرانسس برنیئر کے ان دعووں کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس زمانے کی تحقیق سے مسلم مغل سلطنت کے تحت برصغیر کی جو معاشی و سیاسی تصویر پیش کی ہے وہ فرانسس برنیئر اور ہمارے سیکولر مصنفین اور درآمدی اخباری کالم نگاروں اور دانشوروں کے دعوے کے بالکل برعکس ہے جس میں غیر مسلم اور سیکولر دانشور مسلم مغل برصغیر کو بدحالی اور تباہی کا مرکز قرار دیتے ہیں۔ فرانسس برنیئر اور ان سیکولر دانشوروں کے دعوے کس قدر جھوٹ پہ مبنی ہیں اور حقیقت کیا ہے، اب ہم اس کی تفصیل و تحقیق پیش کرتے ہیں۔

مسلم مغل سلطنت کے تحت ہندوستان کی معیشت انتہائی وسیع اور ترقی یافتہ تھی یہاں تک کہ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں برطانیہ نے برصغیر پہ قبضہ کر لیا[1]۔ایک مغربی ماہر سین ہارکن کے مطابق سترہویں صدی عیسوی میں یعنی مسلم مغل سلطنت کے زیر اثر پوری دنیا کی جی ڈی پی یعنی سادہ لفظوں میں پوری دنیا کی پیداوار اور دولت کا 60_70% ہندوستان اور چین کے پاس تھا۔ مسلم مغل معیشت سکوں کی کرنسی، زمینی مالگزاری یا Land revenue اور تجارت کے وسیع نظام پہ عمل کر رہی تھی جس کا نتیجہ پورے ملک اور عوام کی خوشحالی تھا۔ شاہی ٹکسال کی طرف سے سونے، چاندی اور تانبے کے سکے جاری کیے جاتے تھے جو فری سکوں کے طور پہ استعمال ہوتے[2]۔ مسلم مغل سلطنت میں ہندوستان میں سیاسی قیام پذیری اور وحدت تھی جس کی وجہ ایک مرکزی مسلم مغل سلطنت تھی جس نے پر امن اندرونی تجارت کے ساتھ اس بات کو یقینی بنایا کہ برطانیہ کی برصغیر میں آمد سے پہلے مسلم مغل ہندوستان ایک زرعی معیشت ہونے کے باوجود بڑی حد تک معاشی وحدت رکھنے والا ملک تھا جس کی اکثریت زراعت کے ساتھ وابستہ تھی[3]۔

مغلوں کے تحت ملک کی افرادی قوت کا 64% پرائمری سیکٹر میں تھا جس میں زراعت بھی شامل تھی،لیکن 36% افرادی قوت سیکنڈری اور تیسرے درجے کے سیکٹر یا Tertiary sector سے منسلک تھی[4]، یہ تناسب یورپ اور برطانیہ سے زیادہ تھا جہاں 1700ء میں 65-90% آبادی اور 1750ء میں 65_75% افرادی قوت زراعت سے وابستہ تھی[5]۔ مغلوں کی زرعی اصلاحات کے تحت زرعی پیداوار بڑھ گئ[1] اور مسلم مغل سلطنت کے زمانے میں برصغیر کی زراعت یورپ کی زراعت سے زیادہ ترقی یافتہ تھی اور زراعت میں وہ ترقی یافتہ طریقے استعمال میں تھے جن سے یورپ ناواقف تھا[6] اور مسلم برصغیر میں فی کس زرعی پیداوار اور صارف کا معیار یورپ سے بہتر تھا[7]۔ اس صورت میں فرانسس برنیئر جیسے لوگ کیسے کہتے ہیں کہ برصغیر میں غربت تھی اور عوام کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ یاد رہے کہ فرانسس برنیئر 1609ء سے 1675ء کے درمیان کا ایک مغربی فرانسیسی سیاح تھا اور جدید محققین نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنی تصنیف میں یورپ کو برصغیر سے برتر ثابت کرنے کے لیے مبالغہ آرائی کرتا ہے۔
مسلم مغل سلطنت ایک ترقی یافتہ صنعتی پیداواری معیشت کی مالک تھی جس کے تحت برصغیر کا دنیا کی صنعتی پیداوار میں حصہ

1750ء تک چین کے بعد سب سے زیادہ یعنی 25% تھا[8]۔ 1750ء کے بعد انگریزوں نے اپنا قبضہ جمانا شروع کیا اور وہ لوٹ مار کی کہ آج تک یہ خطہ دنیا کے غریب ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے جہاں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ مغلوں کے تحت برصغیر عالمی تجارت میں سب سے اہم پیداواری مرکز تھا[9]۔ فرانسس برنیئر جیسے لوگ کس منھ سے الزام لگاتے ہیں کہ یہ علاقہ غربت عیاشی اور بدحالی کا مرکز تھا۔

مغل سلطنت کے زمانے میں برصغیر کی تیار کردہ اشیاء پوری دنیا میں فروخت کی جاتی تھیں۔ بڑی صنعتوں میں کاٹن، جہاز سازی اور سٹیل تھے اور تیار کردہ برآمدات میں ٹیکسٹائل یعنی کپڑا،سوت، ریشم، پٹ سن، دھاتی سازوسامان اور خوراکیں جیسا کہ شوگر، گنا،تیل اور مکھن شامل تھے[1]۔ فرانسس برنیئر کہتا ہے کہ ہندوستان کے شہر غربت کی علامت جب کہ دیہات ناگفتہ بہ حالت میں تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم مغل سلطنت کے زمانے میں شہر اور قصبے ترقی کے عروج پہ تھے اور شہری آبادی 15% تھی جو کہ اس وقت کے یورپ اور انیسویں صدی عیسوی کے برطانیہ کی شہری آبادی سے زیادہ تھی[10]۔

ابتدائی جدید یورپ میں مغل ہندوستان کی اشیاء خصوصا کپڑے اور دیگر سازوسامان جیسا کہ مصالحہ جات، سیاہ مرچ، نیل، ریشم اور جشک ہوجان( جو کہ بارود کی تیاری میں استعمال کیا جاتا تھا) کی ان کے اعلٰی معیار کی وجہ سے بہت مانگ تھی[1]۔ یورپ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ مسلم مغل برصغیر کے کپڑے اور ریشم پہ منحصر ہوتا گیا۔ سترہویں صدی عیسوی کے اواخر سے اٹھارہویں صدی عیسوی کے آغاز کے درمیان برطانیہ کی ایشیا سے 95% درآمدات مسلم برصغیر سے لی جاتی تھیں اور اکیلا بنگال ہالینڈ کو 40% درآمدات فراہم کرتا تھا[11]۔ جب کہ یورپی اشیا کی طلب مسلم برصغیر میں بہت کم تھی جو کہ فرانسس برنیئر کے دعوے کے برعکس ہر طرح سے خود کفیل تھا[1]۔  مغل ہندوستانی اشیاء خصوصا صوبہ  بنگال سے بڑی مقدار میں دیگر ایشیائی ممالک جیسا کہ انڈونیشیا اور جاپان کو بھیجی جاتی تھیں[12]۔ اس وقت مغل مسلم بنگال کپڑے کی پیداوار اور بحری جہاز سازی کا سب سے اہم مرکز تھا[13،14]۔

یہ وہ مسلم مغل برصغیر تھا جس کو سترہویں صدی عیسوی کا فرانسیسی سیاح فرانسس برنیئر اپنی کتاب میں جھوٹ بولتے ہوئے غربت کا مرکز قرار دیتا ہے۔

اٹھارہویں صدی عیسوی میں مغل سلطنت زوال پذیر ہوگئی اور اس کے جنوبی، وسطی اور کچھ شمالی حصوں پہ ہندو مرہٹے قابض ہوگئے جنہوں نے ان علاقوں کا انتظام جاری رکھا[15]۔ یہی مغل سلطنت تھی جس کی حکومت میں لبرل سیکولر طبقے اور مغربی مورخین کے دعوے کے برعکس برصغیر خوشحال تھا اور جب یہ زوال پذیر ہوئی برصغیر کی زرعی پیداوار اور کپڑے کی بین الاقوامی شہرت یافتہ صنعت شدید متاثر ہوئی[16]۔ مسلم برصغیر کی طاقتور معیشت کا بڑا مرکز بنگال تھا جس نے اپنی کپڑے کی صنعت اور عوام کا اعلٰی روزگار اور معیار زندگی برقرار رکھا[17] لیکن ہندو مرہٹوں اور بعد ازاں اٹھارہویں صدی کے وسط یعنی 1757ء میں انگریزوں کے حملوں نے بنگال کو تباہ کر ڈالا[ ،1718،19]۔ پانی پت کی تیسری جنگ میں احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں شکست کے بعد مرہٹہ ہندو سلطنت کئ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئ اور نتیجہ میں پیدا ہونے والی طوائف الملوکی اور مسلح جنگوں نے ملک کے کئ علاقوں میں معیشت کو کافی متاثر کیا لیکن نئ قائم شدہ مسلم اور ہندو صوبائی چھوٹی چھوٹی سلطنتوں میں خوشحالی جاری رہی[15]۔ برصغیر فرانسس برنیئر کے دعوے کے برعکس خوشحال رہا۔ پھر اٹھارہویں صدی کے اواخر میں انگریزوں نے برصغیر پہ اپنا تسلط قائم کرنا شروع کیا جس سے ہندوستان کی معیشت اور تجارت کی تباہی شروع ہوئی[20] اور یہ تباہی اتنی زیادہ اور بھیانک ہے کہ شاید ہی تاریخ میں کسی قوم نے اس طرح کسی دوسری قوم کو لوٹا ہوگا۔ یہاں تک کہ سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ یہ کہنے پہ مجبور ہوگیا:

"اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ برطانیہ کے خلاف ہمارے غصے کی ایک مضبوط اور حقیقی وجہ ہے۔ جیسا کہ خود  کیمبرج کے مؤرخ اینگس میڈیسن کے جان توڑ محنت سے مرتب کیے گئے اعدادو شمار ظاہر کر چکے ہیں کہ مغل سلطنت کے زمانے میں 1700ء میں اکیلے برصغیر کا عالمی معیشت میں حصہ سب سے زیادہ یعنی 22% تھا جب کہ پورے یورپ کا عالمی معیشت میں حصہ اکیلے برصغیر سے کم یعنی 23% تھا لیکن انگریزوں نے اس قدر لوٹ مار کی کہ ان کے جانے کے بعد اس علاقے کا عالمی معیشت میں حصہ صرف تین اعشاریہ آٹھ فیصد تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں انگریزوں کے قبضے کے دوران برطانوی سلطنت کا سب سے تاباں موتی یعنی برصغیر فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا کا غریب ترین خطہ تھا”[21]۔ قارئین خود اندازہ کیجئے کہ جن مغلوں پہ برصغیر کی مال و دولت کی لوٹ مار کا الزام لگایا جاتا ہے انہی کے دور میں برصغیر سب سے زیادہ خوشحال تھا اور جس برطانوی دور کے گن گائے جاتے ہیں ان کے زمانے میں کی گئی لوٹ مار کی وجہ سے برصغیر دنیا کا غریب ترین خطہ بن چکا تھا اور او حقیقت کو جسے ہمارا سیکولر طبقہ نہیں قبول کرتا خود بےشمار ہندوستانی اور کئی مغربی مورخین تسلیم کر چکے ہیں۔ اب فیصلہ کیجیے کہ لٹیرے مغل تھے یا انگریز۔

خود کیمبرج کے برطانوی مؤرخ اینگس میڈیسن کے اعداوشمار کے مطابق اٹھارہویں صدی تک چین اور مغل برصغیر دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور پیداواری طاقت تھے۔ انیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے نے برصغیر میں جان بوجھ کر استحصالی لگان یا ٹیکس اور دیگر حکمت عملیاں مسلط کیں جس کا مطلب زیادہ سے زیادہ مال کو لوٹ کر اس کی برطانیہ کی طرف منتقلی تھا، جس سے برصغیر میں خوراک کی فصلوں کی پیداوار تیزی سے کم اور غربت میں اضافہ ہوا جس سے کئ قحط آئے جس میں لاکھوں مسلم اور ہندو ہندوستانی مارے گئے[23] اور اس کی ذمہ داری لٹیرے برطانویوں پہ عائد ہوتی ہے۔ برطانویوں کی معاشی حکمت عملی جان بوجھ کر اس طرح مرتب کی گئی جس سے دستی مصنوعات اور کپڑے کی صنعت تباہی کا شکار ہوگئ[24] جب کہ برطانیہ اور اس کی شاہی اشرافیہ اور لارڈز امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔

1813ء کے چارٹر کی طرف سے بین الاقوامی پابندیوں کے ہٹنے کے بعد ہندوستانی تجارت بڑھ گئی[25] لیکن اس کا ہندوستان کو کوئی معاشی فائدہ نہ ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں نے برصغیر کی دولت لوٹ لوٹ کر برطانیہ منتقل کرنا شروع کر دی جب کہ برصغیر کی صنعت کاری کو جدید کرنے کی طرف انگریزوں نے کوئی توجہ نہ دی[26]۔ انگریزوں کی طرف سے دنیا کے سب سے امیر خطے یعنی برصغیر میں اس لوٹ مار کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ برصغیر جو 1750ء تک مسلم مغل سلطنت کے تحت اکیلا برطانیہ کیا  پورے یورپ سے زیادہ ترقی یافتہ اور دولت مند تھا اور جس کی فی کس آمدنی یورپ کے کسی بھی ملک سے زیادہ تھی غریب سے غریب تر اور اس لوٹ مار کے نتیجے میں برطانیہ اور اس کا شاہی اور لارڈز طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا چلا گیا۔ میڈیسن نے پھر بھی اٹھارہویں صدی عیسوی کے مسلم برصغیر کی ترقی کی شرح اندازے سے کم بتائی ہے جس کی وجہ سے اس پہ کئ ماہرین نے تنقید کی ہے[27،28]۔ بیروچ( Bairoch) کے مطابق کے مطابق اٹھارہویں صدی عیسوی میں مسلم مغل سلطنت کے زمانے میں برصغیر کی فی کس آمدنی اور پیداوار( Per capita GDP) کہیں اور زیادہ تھی[29،30] اور پرتھاسارتھی( Parthasarthi) کے مطابق اٹھارہویں صدی عیسوی کے مسلم میسور اور بنگال میں عوام کی حقیقی آمدنی اس وقت کے یورپ اور برطانیہ سے زیادہ تھی[8،31]۔ یہ بات فرانسس برنیئر کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے کہ جب اس نے سترہویں صدی عیسوی میں برصغیر کا دورہ کیا تو وہاں غربت اور بدحالی کا دورہ تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سترہویں صدی عیسوی کا مسلم مغل برصغیر اٹھارہویں صدی عیسوی کے برصغیر سے بھی زیادہ ترقی یافتہ تھا[32]۔

انگریزوں نے برصغیر کو اس طرح لوٹا، اس طرح ہاتھوں پیروں سے درندوں اور جاہل لالچیوں کی طرح وہ لوٹ مار کی، کہ وہ مسلم برصغیر جس کا 1700ء میں مغل مسلم سلطنت کے تحت عالمی معیشت میں حصہ 24% سے زیادہ تھا، اس کا 1950ء میں انگریزوں کی 190 سال کی اس لوٹ مار کے بعد عالمی معیشت میں حصہ صرف چار اعشاریہ دو فیصد تھا اور مسلم مغل سلطنت کے تحت برصغیر کی وہ فی کس آمدنی جو ترقی کی شرح پہ برقرار تھی، انگریزوں کی اس لوٹ مار کی وجہ سے تیزی سے کم ہونا شروع ہوگئ[33] اور غربت کی شرح تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئ جو آج تک قائم ہے۔ انگریزوں نے جان بوجھ کر برصغیر کی صنعت کو تباہ کیا۔ مسلم مغل سلطنت کے تحت برصغیر 1750ء تک عالمی صنعتی پیداوار کا 25% حصہ پیدا کر رہا تھا لیکن انگریزوں کی اس تباہی اور لوٹ مار کی وجہ سے 1900ء میں برصغیر کا عالمی صنعتی پیداوار میں حصہ صرف 2% بچ گیا تھا[8]۔جب کہ اس لوٹ مار کی وجہ سے انگریز امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے اور وہ برطانیہ جس کا 1700ء میں عالمی معیشت میں حصہ صرف دو اعشاریہ نو فیصد تھا، اس کا حصہ برصغیر سے لوٹے گئے مال کی وجہ سے 1870ء میں عالمی معیشت میں حصہ نو فیصد تھا۔ برطانیہ کے صنعتی اور سائنسی انقلاب کی بنیاد برصغیر سے لوٹے گئے مال اور غریب ہندوستانیوں کے خون پہ رکھی گئی۔ اگر یہ سرمایہ برطانیہ منتقل نہ ہوتا تو کبھی برطانیہ میں یہ صنعتی انقلاب برپا نہ ہو پاتا اور نہ ہی اس سرمائے کی بنیاد پہ برطانیہ دنیا کے باقی حصوں پہ قابض ہو پاتا اور نہ ہی برصغیر کی لوٹی گئی دولت سے پہلی اور دوسری جنگ عظیم لڑ سکتا۔

1757ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پہ قبضے کے بعد زبردستی ہندوستانی بازار یعنی مارکیٹ کو برطانوی اشیاء کے لیے فری مارکیٹ کی حیثیت دے دی جہاں برطانوی اشیاء بغیر کسی لگان یا ٹیکس کے لاکر مہنگے داموں بیچی جاتی تھیں جب کہ برطانیہ میں ہندوستانی اشیاء پہ کئ مہنگے لگان یا ٹیکس لگا کر ان کی برطانیہ میں فروخت ناممکن بنادی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں نے زبردستی برطانوی اشیاء کی فروخت برصغیر میں شروع کی جب کہ برصغیر کی اشیاء کی ہندوستان میں فروخت ناممکن بنادی، مقامی ہندوستانی صنعت کاروں پہ جان بوجھ کر بھاری لگان یا ٹیکس لگا دیے گئے تاکہ برصغیر کی صنعت کو تباہ کیا جائے، یہ لگان یا ٹیکس مغل سلطنت میں اپنی کم ترین شرح پہ تھے بلکہ اس زمانے میں صنعت کاروں کو حکومت کی طرف سے امداد بھی فراہم کی جاتی تھی۔ برطانویوں کی ان تباہی پہ مبنی سرگرمیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ برطانویوں کو برصغیر کی بڑی مارکیٹ یعنی بازار اور کپڑے کی صنعت پہ اجارہ داری حاصل ہوگئی[34،35،36]۔ انگریزوں نے برصغیر سے خام مال لوٹ کر برطانیہ منتقل کیا جب کہ برطانیہ کی تیار کردہ اشیاء یہاں مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کر دیں اور مقامی اس صنعت کو جان بوجھ کر بھاری لگان یا ٹیکس سے تباہ کر دیا جو 1750ء تک آج کے امریکا کی طرح مغل سلطنت کے تحت دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھی۔انگریزوں نے برصغیر وہ حیثیت دی جس میں وہ برطانیہ کو مفت خام مال فراہم کرنے والا ملک جب کہ برطانوی اشیاء کی مہنگی فروخت کی غلام مارکیٹ  بن گیا[37]۔ برصغیر سے خام مال اور دولت کی منتقلی اور عسکری حکمت عملی والے علاقوں میں ریلوے لائنیں، ٹیلی گراف، سول سروس یا عوامی خدمت[38] اور نہری نظام تعمیر کیا گیا جس کامقصد خود کئ مغربی مورخین کی نظر میں زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرکے اس کی برطانیہ کی طرف آسان منتقلی تھا۔

انگریزوں کو برصغیر کی زمین کے سب حقوق حاصل تھے جس کو انہوں نے غریب ہندوستانیوں سے لوٹ کر غداروں میں تقسیم کیا جس سے آج کا پاکستان اور بھارت کا وہ طبقہ وجود میں آیا جو آج تک سردار اور جاگیردار کہلاتا ہے اور ان ممالک کی مقامی و ملکی سیاست پہ قابض جب کہ غریب عوام کے لئے آج تک مصیبت اور عذاب ہے۔ اس دوران باقی دنیا نے صنعت و حرفت اور سائنس میں ترقی کی جب کہ برطانوی حکومت کے ماتحت برصغیر میں اعلٰی تعلیم کے دروازے صرف ان سردار جاگیردار غدار لوگوں کے لیے مخصوص تھے جو برطانیہ سے وفاداری کی ضمانت تھے جس سے تعلیم صرف اعلٰی طبقے محدود رہی اور ملک میں جہالت اور پسماندگی کو فروغ ملا۔ یہ جاگیردار عوامی شعور کو روکنے اور ان کو جاہل غلام رکھنے کے لیے اپنے علاقوں میں سکول تک کھلنے کی اجازت نہیں دیتے تھے اور آج تک ان سرداروں کی اولاد کے تحت برصغیر خصوصًا پاکستان میں یہی سلسلہ جاری ہے۔ برطانیہ کی طرف سے اس لوٹ مار کا یہ نتیجہ یہ نکلا کہ 1947ء میں برطانوی حکومت کے اختتام پہ جو معیشت بھارت اور پاکستان کے حصے میں آئی دنیا کی غریب ترین معیشتوں میں سے ایک تھی[39] جو کہ مسلم مغل سلطنت کے تحت انگریزوں کے قبضے سے پہلے دنیا کی امیر ترین معیشت تھی۔ برطانوی قبضے کے دوران اور اس کے ختم ہونے کے وقت صنعتی ترقی صفر تھی،  زراعت تیزی سے پھیلتی برصغیر کی آبادی کی خوراک کے لیے ناکافی تھی، عوام کو جان بوجھ کر تعلیم سے دور اور جاہل چھوڑ دیا گیا، تعلیم کے دروازے برطانوی وفاداروں اور مقامی انگریز قبضہ مستحکم رکھنے والے سرداروں کی اولاد کے لیے مخصوص تھے اور برطانوی لوٹ مار کی وجہ سے برصغیر کا انفرا سٹرکچر بالکل ناکافی رہ گیا تھا[40]۔

صورتحال یہ تھی کہ جس برصغیر کی مغل سلطنت کے تحت آبادی ترقی کی وجہ سے شہری زیادہ تھی، 1872ء میں برطانوی لوٹ مار کے 115 سال بعد یعنی 1757ء سے 91 فیصد دیہات میں مقیم تھی[41]۔ یہ مغل سلطنت کے مقابلے میں شدید زوال کی کیفیت تھی جس کے تحت 1600ء میں مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں برصغیر کی 15% آبادی شہروں میں مقیم تھی[42]۔ 1947ء میں جب انگریزوں کا قبضہ ختم ہوا تو اس سے نکلنے والا برصغیر تین صدیوں پہلے یعنی 1600ء سے 1750ء کے دنیا کے سب سے امیر ترین مسلم مغل برصغیر کے مقابلے میں دنیا کا غریب ترین خطہ تھا۔ برطانوی دور میں صنعتی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے شہری ترقی نہ ہونے کے برابر تھی، بعد ازاں ممبئ، کلکتہ اور مدراس کے ساحلی علاقوں نے کچھ ترقی کی لیکن اس کی شرح بہت کم اور یہ ترقی صرف انگریز کے وفادار اعلٰی طبقے تک محدود تھی۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ صنعتی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے برطانوی قبضہ ختم ہونے کے وقت 1947ء اور بعد ازاں 1951ء میں ہندوستان کی آبادی کا صرف 1/6 حصہ شہروں میں مقیم تھا[43]۔

برطانیہ کی طرف سے برصغیر کی تباہی وہ حقیقت ہے جس کو کئ پاکستانی، ہندوستانی اور مغربی محققین تسلیم کر چکے ہیں جس کے مطابق برطانیہ کی صنعتی ترقی اور وہاں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب در حقیقت برصغیر سے لوٹی گئی دولت کی بنیاد پہ آئے اور باقی مؤرخین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ برطانوی قبضے کے دوران برصغیر کی صنعتی ترقی کے جمود اور زوال کی وجہ برطانویوں کا نو آبادیاتی قبضہ اور استحصالی حکمت عملیاں تھیں[44]۔

کئ معاشی مؤرخین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ برصغیر میں فی کس آمدنی میں حقیقی کمی انیسویں صدی عیسوی کے آغاز یعنی برطانیہ کے برصغیر کے قبضے کے وقت آئی اور اس کی وجہ برطانوی قبضہ تھا۔ لہٰذا فرانسس برنیئر کے دعوے کے برعکس مغل دور میں فی کس آمدنی کافی تھی اور غربت کی باتیں غلط ہیں۔  معاشی مؤرخ پراسانن پرتھا سارتھی نے برصغیر کی عوام کے آمدنی کے اعدادو شمار پیش کیے ہیں جس کے مطابق اٹھارہویں صدی عیسوی میں مسلم اور مغل دور میں بنگال اور میسور کے عوام کی فی کس آمدنی برطانوی عوام کی فی کس آمدنی سے زیادہ تھی جو کہ یورپ میں اس وقت سب سے زیادہ بلند معیار زندگی رکھنے والا ملک تھا[31] میسور کے عوام کی فی کس آمدنی ان کی روزمرہ کی ضروریات کے لیے درکار آمدنی سے پانچ گنا زیادہ تھی[45] یعنی 1990ء کے  بین الاقوامی ڈالر کے مطابق چار سو ڈالر سے زیادہ تھی[46]۔ دوسرے لفظوں میں مسلم سلطنت کے تحت ان علاقوں کے عوام کی فی کس آمدنی اس زمانے میں سالانہ 2000 ڈالر سے زیادہ تھی جب کہ 1820ء تک برطانیہ میں فی کس آمدنی 1706 اور نیدر لینڈ میں 1838 ڈالر تک تھی[47] ۔یہ آمدنی مسلم مغل سلطنت کے تحت یورپی عوام کی آمدنی سے کہیں زیادہ تھی۔ماہرین نے اس بات پہ دلالت کی ہے کہ مغل سلطنت کے زوال کی وجہ سے برصغیر صنعتی زوال کا شکار ہوا[8]۔ جہاں تک مغل برصغیر میں عوام کے معیار زندگی کی بات ہے تو حقیقت یہ ہے کہ امیر لوگ پر سکون زندگی گزارتے تھے۔ بڑے

صنعتی مراکز میں تاجر شاندار انداز میں رہتے،اپنے لیے پرسکون اور عالی شان گھر تعمیر کرتے،مہنگے لباس زیب تن کرتے اور ان کی خواتین مہنگے زیورات سے آراستہ ہوتی تھیں۔ جب کہ اس وقت کا یورپ ان چیزوں کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ جہاں تک مغل سلطنت میں ایک عام انسان کی بات ہے تو اس کے پاس بھی انیسویں صدی عیسوی میں برطانیہ کے قبضے کی نسبت مغل برصغیر میں کھانے کے لیے زیادہ خواراک میسر تھی۔یہاں تک کہ ایک مغربی مؤرخ مورلینڈ تسلیم کرتا ہے:

"مکھن اور دیسی گھی اور کھانے کے تیل کے لیے استعمال ہونے والے بیج غلے کی نسبت زیادہ سستے تھے اور معاشرے کا نچلا طبقہ بھی سہولیات کا اچھا صارف تھا۔ دودھ اور دیسی گھی مغل سلطنت کی عوام کی اکثریت کی خواراک کا بنیادی جزو تھا، یہ اشیاء سترہویں صدی عیسوی کی مغل سلطنت میں کثرت سے دستیاب اور بہت سستی تھیں”۔

غور کیجئے۔ خود ایک مغربی مؤرخ مورلینڈ فرانسس برنیئر کے دعوے کے برعکس یہ تسلیم کرتا ہے کہ سترہویں صدی کی مغل سلطنت میں نچلا طبقہ بھی خوشحال تھا جب کہ فرانسس برنیئر جھوٹ بولتا ہے کہ عوام غربت سے دوچار ، شہر گندگی سے بھرے ہوئے اور ہوٹل صحتمند خوراک سے بھرے پڑے تھے۔ مغل سلطنت میں خود کئ مغربی مورخین کے مطابق عوام مجموعی طور پر خوشحال تھی اور خوراک کا فی کس استعمال زیادہ تھا۔ ممکنہ طور پر مغل سلطنت میں کپڑے، فرنیچر اور نمک کا استعمال برطانوی دور کی نسبت کم تھا کیونکہ یہ چیزیں ایک عام آدمی کے استعمال کا کم حصہ رکھتی ہیں۔ ان سب باتوں کی بنیاد پہ کئ مغربی مورخین تک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم مغل سلطنت کے تحت اٹھارہویں صدی عیسوی کے آغاز تک برصغیر کی عوام کی معاشی کیفیت برطانوی قبضے کے دوران کی معاشی کیفیت سے کئ گنا بہتر تھی۔

قارئین! آپ نے مسلم مغل سلطنت کے دوران برصغیر کی معاشی خوشحالی کی ساری تفصیل پڑھی، آپ نے اس سارے مضمون میں خود ہندوستانی اور کئ مغربی مورخین کے حوالے سے یہ بھی پڑھا کہ مسلم مغل برصغیر میں امراء اور نچلا طبقہ دونوں خوشحال تھے۔ خود مغربی معاشی مؤرخین کی تحقیق فرانسس برنیئر کے اس دعوے کی تردید کررہی ہے کہ مغل سلطنت کے تحت برصغیر غربت کی آماجگاہ تھا بلکہ یہ ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ برصغیر اٹھارویں صدی عیسوی تک مغل سلطنت کے تحت دنیا کا امیر ترین خطہ تھا جس کو انگریزوں کی ڈیڑھ سو سال سے زائد کی لوٹ مار، تباہی و غارت نے دنیا کا غریب ترین خطہ بنا دیا۔ مسلم فاتحین کو چور لٹیرا کہنے والے کس منہ سے ان پہ الزام لگاتے ہیں جب کہ انہی مؤرخین کے زمانے میں برصغیر دنیا کا امیر ترین خطہ اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت رہا۔ جب کہ یہی منافقین برطانوی قبضے کے تحت برصغیر کی تباہی و بربادی پہ آنکھیں موند لیتے ہیں۔ ہماری اوپر پیش کی گئ تفصیل کے بعد کس منہ سے فرانسس برنیئر اور یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ مسلم حکمران لٹیرے تھے اور برصغیر اس دور میں غربت کی آماجگاہ تھا بلکہ یہ مضمون ثابت کرتا ہے کہ مسلم مغل سلطنت کے تحت برصغیر دنیا کا امیر ترین خطہ اور آج کے امریکہ اور چین کی طرح دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھا جس کی عوام اس زمانے کے برطانیہ اور یورپ کی عوام سے زیادہ خوشحال تھی لیکن جھوٹ بولنے والوں نے اپنے گھٹیا پن کا مظاہرہ کرکے حقیقت چھپانے کی کوشش کی اور انگریزوں کی اس لوٹ مار اور قتل و غارت کو یکسر نظر انداز کر دیا جس میں برطانیہ نے برصغیر جیسے دنیا کے سب سے امیر اور خوشحال ملک کو اپنی بے رحمانہ لوٹ مار سے دنیا کا سب سے غریب خطہ بنا دیا۔ لعنت ہو اللٰہ تعالٰی کی حق چھپانے والوں اور جھوٹ بولنے والوں اور اس جھوٹ کو پھیلانے والوں پہ۔

ھذا ما عندی۔ واللٰہ اعلم بالصواب۔ الحمدللٰہ

حوالہ جات:

1:Farnie, DA (1979), The English Cotton Industry and the World Market, 1815–1896, Oxford, UK: Oxford University Press. Pp. 414, ISBN 0-19-822478-8
2:Baten, Jörg (2016). A History of the Global Economy. From 1500 to the Present. Cambridge University Press. p. 252. ISBN 9781107507180.
3:Data table in Maddison A (2007), Contours of the World Economy I-2030AD, Oxford University Press, ISBN 978-0199227204
4:Jan de Vries, "Review,” American Historical Review (2012) 117#5 p. 1534
5: Clingingsmith, David; Williamson, Jeffrey G. "India’s Deindustrialization in the 18th and 19th Centuries” (PDF). Trinity College Dublin. Harvard University. Retrieved 1 November 2017.
6: Madison, Angus (2001). The World Economy: A Millennial Perspective. OECD. ISBN 92-64-18998-X. Retrieved 1 November 2017.
7: Bagchi, Amiya (1976). "Deindustrialization in India in the Nineteenth Century: Some Theoretical Implications,”. Journal of Development Studies. 12 (October): 135–64.
8:Indrajit Ray, "Identifying the woes of the cotton textile industry in Bengal: Tales of the nineteenth century,” Economic History Review, Nov 5896, Vol. 62 Issue 4, pp. 857–92
9: Shombit Sengupta, Bengals plunder gifted the British Industrial Revolution, The Financial Express, 8 February 2010
10:Kumar, Dharma; Desai, Meghnad, eds. (1983). The Cambridge Economic History of India: c. 1751–c. 1970.
11: James Cypher (2014). The Process of Economic Development. Routledge.
12: Paul Bairoch (1995). Economics and World History: Myths and Paradoxes. University of Chicago Press. p. 89.
13:Henry Yule, A. C. Burnell (2013). Hobson-Jobson: The Definitive Glossary of British India. Oxford University Press. p. 20.
14:Giorgio Riello, Tirthankar Roy (2009). How India Clothed the World: The World of South Asian Textiles, 1500–1850. Brill Publishers. p. 174.
15: Griffin, Emma. "Why was Britain first? The industrial revolution in global context”. Retrieved 9 March 2013.
16: Broadberry, Stephen; Gupta, Bishnupriya (2009). "Indian GDP before 1870: Some preliminary estimates and a comparison with Britain” (PDF). Warwick University. Retrieved 12 October 2015.
17:Hitchcock, John. "Population of Great Britain & Ireland 1570–1931”. GenDocs. Archived from the original on 27 January 2007. Retrieved 12 October 2015.
18:Frank, Andre Gunder; Denemark, Robert A. (2015). Reorienting the 19th Century: Global Economy in the Continuing Asian Age. Routledge. pp. 83–85.
19:Paul Bairoch (1995). Economics and World History: Myths and Paradoxes. University of Chicago Press. pp. 95–104.
20:Jochnick, Chris; Preston, =Fraser A. (2006). Sovereign Debt at the Crossroads: Challenges and Proposals for Resolving the Third World Debt Crisis. Oxford University Press. ISBN 978-0-19-516801-3.
21:Paul Bairoch (1995). Economics and World History: Myths and Paradoxes. University of Chicago Press. p. 104.
22:Fernand Braudel (1982). Civilization and Capitalism, 15th–18th Century. 3. University of California Press. p. 534.
23:John M. Hobson (2004). The Eastern Origins of Western Civilisation. Cambridge University Press. pp. 75–76.
24: B. R. Tomlinson, The economy of modern India, 1860–1970 (1996)
25:Judith Brown, Modern India: The Origins of an Asian Democracy (Oxford University Press, 1994) p. 12
26:K. A. Manikumar, A colonial economy in the Great Depression, Madras (1929–1937) (2003) pp. 138–39
27:Dietmar Rothermund, An Economic History of India to 1991 (1993) p. 95
28: Omkar Goswami, "Agriculture in Slump: The Peasant Economy of East and North Bengal in the 1930s,” Indian Economic & Social History Review, July 1984, Vol. 21 Issue 3, p. 335–64
29: Colin Simmons, "The Great Depression and Indian Industry: Changing Interpretations and Changing Perceptions,” Modern Asian Studies, May 1987, Vol. 21 Issue 3, pp. 585–623
30:Dietmar Rothermund, An Economic History of India to 1991 (1993) p. 111
31: Dietmar Rothermund, India in the Great Depression, 1929–1939 (New Delhi, 1992).
32: "His Fortune on TIME”. Time.com. 19 January 1959. Retrieved 16 October 2012.
33: One-sixth of Indians were urban by 1950
34: B. R. Tomlinson, The Economy of Modern India, 1860–1970 (1996) p. 5
35: B. H. Tomlinson, "India and the British Empire, 1880–1935,” Indian Economic and Social History Review, (Oct 1975), 12#4 pp. 337–80
36: F. H. Brown and B. R. Tomlinson, "Tata, Jamshed Nasarwanji (1839–1904)”, in Oxford Dictionary of National Biography (2004) accessed 28 Jan 2012 doi:10.1093/ref:odnb/36421
37: Vinay Bahl, "The Emergence of Large-Scale Steel Industry in India Under British Colonial Rule, 1880–1907,” Indian Economic and Social History Review, (Oct 1994) 31#4 pp. 413–60
38: Chikayoshi Nomura, "Selling steel in the 1920s: TISCO in a period of transition,” Indian Economic and Social History Review (January/March 2011) 48: pp. 83–116, doi:10.1177/001946461004800104
39: Vinay Bahl, Making of the Indian Working Class: A Case of the Tata Iron & Steel Company, 1880–1946 (1995)
40: Ian J. Kerr (2007). Engines of change: the railroads that made India. Greenwood Publishing Group. ISBN 978-0-275-98564-6.
41:Derbyshire, I. D. (1987), "Economic Change and the Railways in North India, 1860–1914”, Population Studies, 21 (3): 521–45, doi:10.1017/s0026749x00009197, JSTOR 312641 p.521_45
42:R.R. Bhandari (2005). Indian Railways: Glorious 150 years. Ministry of Information and Broadcasting, Government of India. pp. 1–19. ISBN 81-230-1254-3.
43:Thorner, Daniel (2005). "The pattern of railway development in India”. In Kerr, Ian J. Railways in Modern India. New Delhi: Oxford University Press. pp. 80–96. ISBN 0-19-567292-5.
44: Babu, T. Stanley (2004). A shining testimony of progress. Indian Railways. Indian Railway Board. p. 101.
45: Hurd, John (2005). "Railways”. In Kerr, Ian J. Railways in Modern India. New Delhi: Oxford University Press. pp. 147–172–96. ISBN 0-19-567292-5.
46: R.R. Bhandari (2005). Indian Railways: Glorious 150 years. Ministry of Information and Broadcasting, Government of India. pp. 44–52. ISBN 81-230-1254-3.
47:Daniel R. Headrick, The tentacles of progress: technology transfer in the age of imperialism, 1850–1940, (1988) pp. 78–79

تبصرے بند ہیں۔