جانوروں کے نام نہ کرو قربان انسانوں کی جان

احساس نایاب

کسی نے کیا خوب کہا ہے بوئے پیڑ ببول کے تو آم کہاں سے پاؤگے۔

جس وقت ہمیں پتہ چلا کے سلمان خان کو کالے ہرن کے شکار کی وجہ سے 5 سال کی قید ہوگئی ہے اُس وقت ہمارے ذہن میں آنے والے سب سے پہلے الفاظ یہی تھے۔

کیونکہ سلمان خان کے ماضی سے جُڑے جتنے فوٹیج ہماری نظروں سے گذرے ہیں وہ سارے اس مہاورے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔

اکثر دیکھا جاتا ہے ہم خود کی حفاظت کے لئے اپنے اطراف ببول کے پیڑ اُگا لیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بنا کہ آگے چل کر یہی کانٹے دار پیڑ ہماری راہوں میں بارہا چبھتے رہینگے اور ایک حد تک یہ سچ بھی ہے اور دیکھا جائے تو جتننے بھی فلم ایکٹریس سے لیکر بزنس مین اور کئی شخصیات ایسے ہیں، جو اپنے فائدے کے لئے یا آگے چل کر اپنے کریئر کو محفوظ رکھنے کے خاطر ایسے لوگوں سے جُڑ جاتے ہیں جو ببول کے پیڑ کی مانند ہیں۔ مثلاً سیاستدان اور انڈرورلڈ سے جڑے ہوئے لوگ  اسلئے فلحال جو بھی ہوا ہے وہ تو کبھی نہ کبھی ہونا ہی تھا کیونکہ جس نے لوگوں کو خوش کرنے کے خاطر اپنے گھر میں گنیش پوجا کی، کرئیر کے خاطر مودی سنگ کئی پتنگیں بھی اڑائی، سواچھ بھارت کے دوران ایسے انسان کے ہمراہ راستوں کی صفائی کی جس نے 2002 میں کئی معصوم  مسلمانوں کا صفایا کیا تھا، تو ایسے انسان کیسے سلمان خان کے دوست وہ ہمدرد ہوسکتے ہیں انہونے تو اپنے سیاسی مفاد کے لئے سلمان خان اور اُن جیسے ناجانے کتنے فلم ایکٹرس کو ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کر پھینک دیا ہوگا۔ جس کے بعد نہ تو وہ دین کے رہے نہ دنیا کے۔ خیر ان سب سے آگے بڑھ کر جو نیک کام سلمان خان نے کئے ہیں جسکی وجہ سے کئی غریب بوڑھے بچے انہیں دعائیں دیتے ہیں انشاءاللہ وہ دعائیں کبھی ذائعہ نہیں جائینگی۔

لیکن ہمیں افسوس تو اپنے ملک کے قانون پہ ہوتا ہے ,جہاں انصاف کے نام پہ کچھ سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ آئے دن ناانصافی کی جارہی ہے اور وہ ہندوستان کی تاریخ میں سیاہ داغ کی طرح ہے کیونکہ جسطرح جانوروں کو انصاف دلایا جارہا ہے کاش اسی طرح نجیب، جُنید، افرزول کے گھر والوں کو بھی انصاف دلوایا جاتا , لیکن نہیں یہاں کی جو موجودہ حکومت ہے اسکی مثال شاید ہی کسی اور ملک میں ملیگی، کبھی گائے تو کبھی کالے ہرن،  اب تو لگتا ہے کہ وہ وقت بھی دور نہیں جب مرغی اور مچھروں کو بھی انصاف دلایا جائیگا یہ کہہ کر کہ وہ بھی تو بے زبان ہیں اور کیسے اُنکے قاتلوں کو چھوڑا جاسکتا ہے،  بھلے انکے ناموں پہ انسانوں اور تمام انسانئیت کو ہی کیوں نہ قربان کردیا جائے، جیسے اخلاق، پہلوخان، جنید جیسے بیگناہوں کو بےرحمی سے قتل کر کے دنیا بھر کے آگے انسانئیت کو ہی شرمسار کردیا گیا تھا اور انکے قاتل آج بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں۔

 شاید ہندوستان کا قانوں صرف جانوروں کے لئے ہی بنا ہے یہی وجہ ہے جب کہیں پہ کسی انسان کو گاؤ رکشا کے نام پہ وحشیانہ قتل کیا جاتا ہے تو پوچھ تاچھ چھان بین کے نام پہ قاتلوں کو پکڑنا پولس کا مقصد نہیں ہوتا بلکہ فریج میں رکھا گیا گوشت یا ہانڈی میں پکا ہوا گوشت گائے کا ہے یا بکرے کا یہ باتیں تحقیق کے لئے اہم ہوجاتی ہیں جس سے قاتل کو بھگت اور بیچارے مقتول کو ہی گنہگار ثابت کردیا جاتا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے دورِ حاضر  میں انسانوں کی جان کی کوئی قیمت ہی نہیں رہی اور جانوروں کی جان انسانوں کی جان پہ حاوی ہوچکی ہے اسلئے آج ایک ہرن کے آگے سلمان خان کی تمام خوبیاں , اچھائیاں بے معنی ہوچکی ہیں۔

آج سلمان خان کو سزا سنانے کے بعد کئی لوگوں کی آنکھیں اشک بار ہوگئی۔ کیونکہ اُس بندے کی بدولت کئی ین جی او چل رہے ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں یتیم بچے پل رہے ہیں کئی بیماروں کا علاج ہورہا ہے کئی گاؤں میں غریب پیاسوں کو سلمان خان کی طرف سے کڑوروں روپیہ خرچ کرکے پانی پہنچایا جارہا جو کہ وہاں کی حکومت کی ذمیداری ہے اور ایسے بندے کو سزا وہ بھی صرف ایک جانور کے نام پہ تعجب ہے۔ یہاں پہ بار بار ہمارے  ذہن میں ایک سوال آرہا ہے کہ ایک جانور کی وجہ سے اتنی بڑی سزا تو اُن گاؤ رکشکوں کو کیسی سزا دی جائیگی جنہونے گاؤ رکشا کے نام پہ گاؤشالوں میں ہزاروں گاؤ ماتاؤں کو موت کے گھات اُتارا ہے؟ اور اُن تمام بھگوادھاری آتنکئیوں کا کیا جو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں؟

اب تو لگتا ہے کہ سلمان خان کو جو سزا ملی ہے اور جسطرح انہیں بارہا ہراسان کیا جارہا ہے اسکی وجہ ہرن نہیں بلکہ انکا مسلمان ہونا ہے؟ کیونکہ جنہونے گجرات میں فساد کروائے جس میں کتنی  بےرحمی سے مسلمانوں کا کھلے عام نرسنگھار کیا گیا. کیا وہ فسادی آتنکیوں کو سزا دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا اور صرف گجرات ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے کئی ریاستوں میں آئے دن ناجانے کتنے ہی فسادات کروائے جاتے ہیں ان تمام گنہگاروں کو سزا کیوں نہیں دی جاتی؟

افسوس یہاں پہ انسان کا شکار کرنے والے نیتا منتری سنتری بن جاتے ہیں جیسے گجرات کا شمبھو اور کچھ تو پردھان منتری بھی بن جاتے ہیں لیکن انجانے میں بھی جانوروں کا شکار کرنے والے بیچارے قیدی یا مرحوم ہوجاتے ہیں۔

ارے فستائی طاقتوں کے بھگتوں کچھ تو شرم کرو کچھ تو عقل سے کام کرو کچھ تو اپنے مسلم بھائیوں کا احسان مانو اگر ہم نہیں ہوتے تو یہی گاؤ ماتا راستوں گلیوں اور چوراہوں پہ سینگھ مار مار کے تمہیں مار دیتی یا تم لوگ کسی دوسرے جانوروں کے منہ کا نوالا بنکے رہ جاتے، کیونکہ قدرت کا بہترین نظام اللہ نے جس طرح بنایا ہے اسی کے بدولت ساری کائنات میں جان ہے اس لئے جانوروں کے نام پہ نہ کرو قربان انسانوں کی جان۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔