صحت، صفائی اور ماحولیات

مصنف: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی   

تبصرہ نگار: سہیل انجم

کتاب: صحت، صفائی اور ماحولیات
صفحات: 176، قیمت : 115 روپے

پتہ: F-18/14-A Abul Fazal Enclave Part 2

New Delhi- 110025

حفظان صحت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ پوری دنیا میں نئی نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور انسان ان کے شکار بن رہے ہیں ۔ یہ مسئلہ ترقی پسند ملکوں کا بھی ہے اور ترقی پذیر ملکوں کا بھی۔ ان ملکوں کا بھی ہے جہاں کی اکثریتی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارتی ہے اور ان ملکوں کا بھی ہے جہاں کی اکثریتی آبادی خط افلاس سے اوپر ہے۔ دنیا بھر میں متعدد صحت ادارے بھی ہیں جو اس حوالے سے سرگرم ہیں اور جو دنیائے انسانیت کو امراض سے نجات دلانے کے لیے کمر بستہ ہیں ۔ امراض کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، کوئی ذات برادری نہیں ہوتی۔ بیماری علاقہ اور مذہب دیکھ کر نہیں آتی بلکہ حالات اس کو مدعو کرتے ہیں ۔ جو سماج بیماری موافق حالات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے یا جو ایسے حالات بننے نہیں دیتا وہ امراض سے بڑی حد تک بچا رہتا ہے اور جو سماج اس محاذ پر سنجیدہ نہیں وہ بیماریوں کا تیزی سے شکار ہوتا ہے۔

پوری دنیا میں امراض کے تئیں عوام کو باخبر اور ہوشیار کرنے کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں اور اخبارات و رسائل میں مضامین تحریر کیے جاتے ہیں ۔ بہت سے حساس افراد کی جانب سے اس حوالے سے کتابیں بھی تصنیف کی جا رہی ہیں ۔ تاکہ ان کے قارئین ان سے استفادہ کریں اور حتی المقدور امراض سے بچے رہیں ۔ اردو بولنے والوں کی بڑی آبادی عام طور پر پسماندہ ہے اس لیے اس کے یہاں اس معاملے میں زیادہ حساسیت نہیں ہے۔ یعنی وہ امراض کے بارے میں زیادہ باخبر نہیں ہیں اور نہ ہی احتیاطی تدابیر سے واقف ہیں ۔ یہی صورت مسلمانوں کی بھی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت اردو بولنے والی ہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنے میں کوئی مذائقہ نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت امراض کا زیادہ شکار ہوتی ہے۔ لیکن اردو زبان میں اس حوالے سے بیداری پیدا کرنے کی وہ کوشش نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جو صحت کے مسائل پر لکھتے پڑھتے ہوں۔

اس حوالے سے مبارکباد کے مستحق ہیں ڈاکٹر مظفر حسین غزالی جو اس میدان میں قابل قدر و قابل مبارکباد کام کر رہے ہیں ۔ موصوف علمی حلقوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں ۔ وہ ایک چوتھائی صدی سے بھی زیادہ عرصے سے تحریری میدان میں سرگرم ہیں ۔ وہ ایک مستند کالم نگار تو ہیں ہی اردو داں حلقوں میں صحت کے امور کے ماہر بھی مانے جاتے ہیں۔ وہ سیاسی مضامین بھی لکھتے ہیں اور سماجی مضامین بھی۔ وہ ہر ہفتے کم از کم دو کالم ضرور لکھتے ہیں جن میں سلگتے ہوئے مسائل پر اظہار خیال کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان مسائل سے نہ صرف واقف کرایا جاتا ہے بلکہ ان کی رہنمائی بھی کی جاتی ہے۔ آپ ایک عرصے سے نیوز ایجنسی یو این این سے وابستہ ہیں۔ آپ کے مضامین ملک کے تقریباً تمام اخباروں کی زینت بنتے ہیں ۔ آپ کے قلم میں سنجیدگی، پختگی اور متانت تو ہے ہی آپ مسئلے کا حل تلاش کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں ۔ علمی دنیا سے وابستہ بہت کم افراد ایسے ہوں گے جو ان کی شخصیت، ان کے کام اور ان کی سرگرمیوں سے واقف نہ ہوں۔

مظفر حسین غزالی ایک عرصے سے بچوں کی صحت کے عالمی ادارے یونیسیف سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ اس کے اردو میڈیا کوآرڈینیٹر ہیں اور ملک بھر میں جہاں جہاں یونیسیف کے پروگرام ہوتے ہیں اردو صحافیوں کی کھیپ لے کر پہنچ جاتے ہیں ۔ جب سے وہ یونیسیف سے وابستہ ہوئے ہیں صحت کے مسائل پر ان کی خاصی توجہ ہے جو وقت کی ضرورت بھی ہے اور اہل اردو کو ان مسائل سے واقف کرانے کے تقاضے کی تکمیل بھی ہے۔ ان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ جب بھی یونیسیف کے کسی پروگرام سے لوٹ کر آتے ہیں تو سب سے پہلے اس حوالے سے ایک مضمون اخبارات کے لیے سپرد قلم کرتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ صحت سے متعلق ان کے مضامین کے منتظر رہتے ہیں اور کوئی نیا مضمون آتے ہی پہلی فرصت میں اسے پڑھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

اردو میں صحت کے مسائل پر لکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس تعلق سے ڈاکٹر مظفر حسین غزالی بہت غنیمت ہیں۔ مذکورہ کتاب ان کے انھی مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے صحت کے مسائل پر وقتاً فوقتاً تحریر کیے ہیں۔ حالیہ برسوں میں صحت پر خاصی توجہ دی جا رہی ہے اور حکومت ہند بھی اس تعلق سے کافی حساس ہے۔ یونیسیف اور حکومت کے اشتراک سے متعدد پروگرام اور بالخصوص صفائی اور ٹوائلٹ کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں جہاں بہت سے امراض پر مضامین ہیں وہیں رفع حاجت سے متعلق بیداری کے علاوہ بچوں اور ماؤں کی صحت کی دیکھ بھال پر بھی خاصا زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ضعیفوں کے امراض اور متعدی و غیر متعدی امراض کے بارے میں تفصیل کے ساتھ مضامین موجود ہیں۔ صحت سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر بھی کھل کر اظہار رائے کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر چند عنوانات پیش کیے جار ہے ہیں : بیماری کا کوئی مذہب نہیں ، نئی قومی صحت پالیسی، ٹیکہ کاری ماں کی ذمہ داری، خسرہ سے پاک ہندوستان کا خواب، ماں بچے کی صحت اور حفاظت، ٹیکوں سے اب بھی دور لاکھوں بچے، امرت جیسا ماں کا دودھ اور نومولود، کم خوراکی کا شکار ہوتا بچپن، بچپن بچے گا تو دیش بڑھے گا، عوامی صحت اور میڈیا ڈاکٹر، معدنیات کے جنگل میں زندگی، بچوں کی صحت میڈیا اور یونیسیف، اردو اخبارات اور حفظان صحت، گندگی کی زد میں سماج، صفائی ہے ایمان میری زندگی، گاندھی کی یاد میں صفائی، مذہبی رہنما ارو سوچھتا ابھیان، آلودگی کی زد میں زندگی ہماری اور پانی ہے تو کل ہے۔ ان عنوانات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کتاب میں کتنا تنوع ہے اور کس طرح مسائلِ صحت کا انتخاب کرکے ان پر قلم اٹھایا گیا ہے۔

 مصنف نے کتاب کی ابتدا میں اپنے مصمون میں بجا طور پر لکھا ہے کہ ’’ان مضامین میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ صحت مند رہنے کے لیے بچپن بچانا، اس کی بیماری، عدم غذائیت اور انفکشن سے حفاظت ضروری ہے۔ کیونکہ ان کی وجہ سے بہت سے بچے اپنی پانچویں سالگرہ بھی نہیں دیکھ پاتے‘‘۔ اسی طرح مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے پریسیڈنٹ پروفیسر اختر الواقع کتاب کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر مظفر حسین غزالی کی یہ کتاب قابل قدر ہے جس میں انھوں نے صحت سے جڑے مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے‘‘۔ محمد ذکی کرمانی، سینئر سائنس فیلو CEPCAMI علیگڑھ، پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی نے صحت اور اس سے متعلق بعض ذیلی موضوعات پر جدید فکر مندی کے ساتھ بین السطور میں مذہبی محرک کو بھی استعمال کیا ہے اور اپنے قارئین کو متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی ہے۔ موضوعات ایسے ہیں کہ ان پر لکھنے سے قبل مصنف کو عوامی سطح پر آنے کے لیے خصوصی اور کٹھن کوشش کرنی ہوتی ہے جو یقیناً ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ لیکن غزالی بڑی سبک روی کے ساتھ اس مرحلے سے گزرے ہیں ۔ تحقیقی اور صحافتی تصنیف کا یہ امتیاز ترسیل کے لیے انتہائی ضروری ہے جس میں ڈاکٹر مظفر حسین غزالی کامیاب ہیں‘‘۔

میں صحت کے موضوعات پر مضامین لکھنے اور پھر ان کو کتابی شکل میں شائع کرنے پر ڈاکٹر مظفر حسین غزالی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ ان کا یہ قلمی و علمی سفر آئندہ بھی جاری رہے گا تاکہ قارئین کے ان تجربے اور علم سے استفادہ کرتے رہیں۔

تبصرے بند ہیں۔