جتنے بڑے اتنے ہی دوغلے

حفیظ نعمانی

کتنی عجیب بات ہے کہ آزادی کے بعد گائے کے کاٹنے پر نہ جانے کتنے مسلمان قتل کردیئے گئے اور کتنوں کو جیل میں ڈال دیا گیا اور آج بھی کتنے مقدمے چل رہے ہیں۔ اور شکایت کرنے والے بھی ہندو ہیں گرفتار کرنے والے بھی ہندو ہیں اور سزا دینے والے بھی ہندو ہیں۔ اور ملک میں سب سے زیادہ گائے کاٹنے والے اور ان کا گوشت ان ملکوں کو بھیجنے والے بھی ہندو ہیں جو گوشت کھاتے ہیں وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا بودھ۔

ملک میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو یہ نہ جانتا ہو کہ حکومت کہی تو بی جے پی کی جاتی ہے مگر وہ آر ایس ایس کی ہے اور کوئی وزیر ایسا نہیں ہے جو آر ایس ایس کے چیف کو جاکر یہ نہ بتاتا ہو کہ اس نے وفاداری میں کیا کیا ہے؟ کرناٹک میں بی جے پی کے صدر امت شاہ ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ جب کرناٹک میں ان کی حکومت بن جائے گی تو گائے کاٹنے پر پابندی لگادی جائے گی۔

کرناٹک کے وزیر داخلہ راما لنگا ریڈی نے امت شاہ کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا ہے کہ گائے پر پابندی لگانے کی بات امت شاہ کی چالبازی ہے۔ ان کی حکومت کے چار برسوں میں ہندوستان سے باہر جانے والا گوشت 14 فیصدی زیادہ گیا ہے اور اب ہندوستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے جو گائے کا گوشت مسلم ملکوں کو بھیج رہا ہے۔

گائے کا مسئلہ ووٹ کے لئے آج کا نہیں ہے پنڈت نہرو نے جب 1952  ء کا پھول پور سے پہلا الیکشن لڑا تو ہندو مہاسبھا کے پربھودت برہمچاری نے الیکشن لڑا اور ان کا نعرہ تھا کہ ملک میں گائے کشی بند ہونا چاہئے۔ پنڈت جی نے تین الیکشن پھول پور سے لڑے اور ان کے بعد اسی سیٹ سے ان کی بہن وجے لکشمی پنڈت لڑیں اور کامیاب ہوئیں۔

یہ بات اپنی جگہ ہے کہ ملک میں گائے پر پابندی بھی رہی اور دنیا کے دوسرے ملکوں کو گائے کا گوشت جاتا بھی رہا جس کا انتظام حکومت کرتی تھی اور آج بھی حکومت ہی کررہی ہے۔ پنڈت نہرو نے روس کی شرکت سے جمشید پور بہار میں اسٹیل کا بہت بڑا کارخانہ لگوایا اس کے لئے ایک چھوٹا سا شہر بسانا پڑا جس میں سیکڑوں روس کے افسر اور کاریگر آئے تھے۔ روسیوں کی سب سے محبوب غذا گائے کا گوشت ہے ان کے لئے پنڈت جی نے جمشید پور ضلع میں گائے کاٹنے کی عام اجازت دے دی۔ اور ہم خود 1975 ء کے آس پاس جمشید پور گئے تو سنا کہ یہاں تو گائے کا گوشت بازار میں ملتا ہے اور یہ پنڈت نہرو کا تحفہ ہے۔

یہ بات تو عام ہے کہ نائب وزیر داخلہ نے اقرار کیا کہ وہ بیف کھاتے ہیں اور وہ جہاں کے رہنے والے ہیں وہاں کوئی پابندی نہیں ہے۔ اب جو شمالی ریاستوں میں بی جے پی اپنی حکومت قائم کررہی ہے کیا وہاں کوئی گائے کے گوشت پر پابندی لگا سکتا ہے؟ جس دن وہاں پابندی کی بات ہوگی اسی دن حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جائے گا۔ وزیر داخلہ راما لنگا ریڈی نے کہا کہ ہندوستان نے 2017 ء میں 850  میٹرک ٹن گائے کے گوشت کو برآمد کیا ہے۔ اور انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا میں برازیل کے بعد ہندوستان گائے کا گوشت برآمد کرنے والا دنیا کا دوسرا ملک ہے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو وہ آئندہ سال پہلا ملک بن جائے گا۔

اُترپردیش میں سلاٹر ہائوس کی طرف سے حکومت کی خاموشی ہوسکتا ہے کہ اسی وجہ سے ہو کہ جب سلاٹر ہائوس بن جائیں گے تو وہاں چوری چھپے گائے بھی کاٹ دی جائے گی۔ اور کرناٹک کے وزیر داخلہ نے تال ٹھونک کر کہا ہے کہ سب سے زیادہ گائے کا گوشت اُترپردیش اور مہاراشٹر سے جاتا ہے اور سب سے بڑے بڑے بیف پروسیسنگ سینٹر ان ہی دونوں ریاستوں میں ہیں۔ اور بی جے پی کی حکومت والی ریاست گوا میں ہر دن 30  سے 50  ٹن گائے کے گوشت کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اب ایمانداری سے بتایا جائے کہ کیا یہ دوغلی پالیسی نہیں ہے کہ ملک میں گئو رکشک بننے کی عام اجازت ہو اور رام لیلا میدان میں آر ایس ایس کے بینر کے نیچے عام اجلاس ہو اور اعلان کیا جائے کہ جو ہماری ماں کو کاٹے گا ہم اس کو گولی ماریں گے۔ ہم نہیں جانتے کہ قانون کیا ہے اور کیا کہتا ہے ہم تو جان کا بدلہ جان سے لیں گے؟ اور گوا بنگال کیرالہ منی پور پرتگال اروناچل جیسی ریاستیں ہیں یا جو ہر دن سیکڑوں گائیں وزیراعظم بیف پروسیسنگ سینٹر میں کٹواکر مسلمان ملکوں اور روس کو بھیج کر ہزاروں کروڑ کما رہے ہیں ان کے گولی کون مارے گا؟ ہے کسی میں ہمت؟؟

یہ تو کوئی مان نہیں سکتا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو۔ سیاست سے متعلق ہر خبر ہندی اخباروں میں بھی چھپتی ہے۔ یہ ہوتا ہے کہ ایسی جگہ چھاپی جائے جو سامنے نہ ہو لیکن ہر بات ہر ایک کو معلوم ہے۔ اور گائے کے گوشت کا ایکسپورٹ تو ایسا مسئلہ ہے کہ جب کانگریس کی حکومت تھی تب بی جے پی کے لوگ اس پر الزام لگاتے تھے اور صفائی میں کہا جاتا تھا کہ ایکسپورٹ کرنے والوں کے یہ یہ نام ہیں اور یہ بی جے پی کے لوگ ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔