عارض خان عرف جنید کی گرفتاری اور بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی حقیقت 

ذاکر حسین

عارض خان عرف جنید کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار ی کے بعد ایک بار پھر اعظم گڑھ اور ملک کے مسلمانوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق گزشتہ روز عارض خان عرف جنید کو دہلی پولس کے اسپیشل سیل اور این آئی اے نے مشترکہ کوششوں کے بعد گرفتار کیا ہے۔ معاملے کو لیکربحث مباحثے کا دور جاری ہے۔ ایک طرف میڈیا عدالت کے فیصلے سے قبل ہی ملزم کو مجرم قرار دیتے ہوئے عارض کیلئے دہشت گرد جیسے سنگین اور حساس الفاظ کا استعمال کر رہاہے تو وہیں عارض خان کے گائوں ، ضلع اور ملک کے مسلمان اسے کسی بھی قیمت پر دہشت گرد ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ عارض خان کو انڈین مجا ہدین کا فعال رکن بتا یا جا رہاہے اوراین آئی اے، دہلی پولس نے اس کے اوپر کل 15لاکھ روپئے کا انعام رکھا تھا۔ ان کے بیان کے مطابق عارض کو نیپال سرحد سے گرفتار کیا گیاہے۔ ایک طرف پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا یہاں تک ادرو اخبارات نے بھی عارض کو دہشت گرد لکھ دیا ہے۔

 اب سوال یہ ہیکہ ہمارا میڈیاکسی بھی مسلمان کو ہشت گرد بتانے میں کیوں اتنی عجلت دکھاتے ہیں ؟ معاملہ عدالت میں ہے، اور عدالت ملزم کو مجرم یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ کرے گی، لیکن میڈیا اس طرح کے معاملات میں عدالت سے پہلے ہی خود عدالت بن جا تا ہے۔ عارض خان کا تعلق اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے موضع نصیر پور سے ہے اور وہاں کے مقامی لوگ کسی طرح سے یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ عارض کسی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتا ہے ؟ مقامی لوگوں کو اس بات پر بھی اعتراض ہیکہ عارض خان کو عدالت کے فیصلے سے قبل ہی کیوں دہشت گرد لکھا جا رہاہے۔ این آئی اے ارو دہلی پولس کے اسپیشل سیل کے بیان کے مطابق عارض بٹلہ ہائوس معاملے میں مطلوب تھا۔

غورِ طلب ہیکہ بٹلہ ہائوس انکائو نٹر کو ملک کے مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات کے انصاف پسند افراد غلط مانتے ہیں اور ان کی جانب سے مسلسل اس پولس آپریشن کی جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ ہوتا آرہاہے۔لیکن ابھی تک حکومت کی جانب سے بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی جوڈیشیل انکوائری کا کوئی واضح موقف پیش نہیں کیاہے جس کی وجہ سے مسلمانوں اور انصاف پسند طبقوں میں غم و غصے کا احساس پایا جا رہاہے۔ واضح ہو کہ 19 ستمبر2008میں دہلی کے جامعہ نگرمیں دہلی پولس نے اعظم گڑھ کے دو مسلم نوجوانوں عاطف امین اور محمد ساجد کو مبینہ تنظیم سیمی کا رکن بتا کر ہلاک کر دیاتھا۔اس کے بعد سے حقوق علمبردار کی تنظیموں بالخصوص راشٹریہ علماء کونسل کی جانب سے اس پولس آپریشن کو لیکر مسلسل شک وشبہے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

انکائونٹر میں ہلاک محمد ساجد کی انکائونٹرکے وقت عمر تقریباً 13،14کے آس پاس تھی۔ مرحوم ساجد کی عمر کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں ہیکہ ساجد نے اتنی کم عمر میں دہشت گردی کی دنیا سے کتنا واسطہ رہاہوگا۔ساجد کی والد محترم اپنے نوجوان بیٹے کی موت پر رنج وغم کی چادر سے ایسا لپٹے کہ موت کے بعد بھی ان کے چہرے سے رنج و غم کااحساس ان کے عزیز اقارب کو مسلسل پریشان کرتارہا۔ان کے چہرے پر چھائی درد کی پرچھائیں جیسے ہر وقت یہی سوال پوچھتی ہو ں کہ ہمیں کب انصاف ملے گا؟ لیکن ان کاانتظارانتظار ہی رہا اور وہ بھی درد کے سایے میں جیتے جیتے زندگی سے ہار بیٹھے۔ شاید اپنے بیٹے کی اچانک موت سے وہ دنیا سے بیزار ہو گئے تھے یا پھر شاید انہیں اپنے بیٹے سے ملنے کی جلدی تھی۔ بٹلہ ہائوس انکائونٹر میں ہلاک عاطف امین کے والد محترم کے چہرے پر بھی اپنے جوان بیٹے کی موت کے درد کے سائے ہر وقت منڈلاتے نظر آتے ہیں ۔

 محترم امین مسلسل راشٹریہ علماء کونسل کے ساتھ اپنے بیٹے کو انصاف دلانے کیلئے جدوجہد کی راہوں میں سرگرداں ہیں ۔محترم امین کی دردناک کہانی کچھ یوں ہیکہ ان کا ایک بیٹابٹلہ ہائوس انکوائونٹر میں میں زندگی کی دہلیز عبور کر موت کی وادیوں میں کہیں کھو گیا تو دوسرا بیٹاآج کل موت وزیست سے سے نبردآزما ہے۔اب سوال یہ ہیکہ جناب امین صاحب کی احساسِ محرومی کا صلہ کون دے گا؟حکومت یاپھر دہلی پولس۔واضح ہوکہ آئین ہندکی مروجہ کرمنل پروسیجر کوڈ(ضابطہ مجموعہ فوجداری )کی دفعہ 176کے مطابق کسی بھی پولس ٹکرائو کی مجسٹریٹ جانچ کروانا لازمی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکوت مسلمانوں اور انصاف کا احترام نہ صحیح آئین ہند کا احترام کرتے ہوئے اس پولس آپریشن کی جانچ کرواتے ہوئے  انصاف کو انصاف دلائے۔ اربابِ اقتدار کاکہنا ہیکہ بٹلہ ہائوس انکائو نٹر کی جوڈیشیل انکوائری سے دہلی پولس کا مورل ڈائون ہوگا۔ جنابِ عالی گستاخی معاف ہو مٹھی بھر  پولس کے مورل ڈائون کے چکرمیں ملک کے کروڑوں مسلمانوں اور لاکھوں انصاف کے متلاشی لوگوں کے مورل کو آپ کچل رہے ہیں ۔

بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی جوڈیشیل انکوائری  کی مانگ اور اس معاملے میں انصاف کی مانگ کر رہے راشٹریہ علماء کونسل کے سربراہ مولانا عامررشادی، دیگر لیڈران اور کارکنان قابلِ مبارکباد ہیں کہ جس طرح سے مسلسل آپ سب بلا خوف حکومت سے جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔بٹلہ ہائوس انکائونٹر نہ صرف ایک انکائونٹر نہیں تھا بلکہ یہ حادثہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بد ترین دن تھا جب دہلی پولس نے د ونوجوانوں کو آئین اور حقوق انسانی کی تمام حدود کو عبور کرتے ہوئے قتل کر دیا۔انکائونٹر میں ہلاک محمد ساجد کے بارے میں کہاکہ جاتا ہیکہ وہ ایک نا بالغ لڑکا تھا اورانکائونٹر سے قبل وہ اعظم گڑھ کے اپنے آبائی وطن سنجر پور میں رسوئی گیس بھرنے کی دوکان چلایا کرتا تھااور میڈیانے اسی سے جوڑ کر ساجد کو بغیر کسی تحقیق کے بم بنانے کا ماہر بتا دیاتھا۔حالانکہ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے انکائونٹر میں ہلاکت کے وقت ساجد کی عمر 13،14تھی۔

 اب اس بات پرر ٖغور کرنے کی ضروت ہیکہ ایک تیرہ، چودہ سال کے بچے کو بم بنانے کی اتنی مہارت کہاں سے حاصل ہوئی ہوگی ؟انکائونٹر کے بعد گرفتاریوں کا لامتنا سلسلہ چلا، جس میں سنجر پور باشندہ محمد سیف، اعظم گڑھ باشندہ محمد شہزاد، اعظم گڑ ھ کے ہی موضع بینا پارہ سے تعلق رکھنے والے حافظ ابوالبشر سمیت انگنت تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو گرفتارکیا گیا۔بٹلہ ہائوس انکائونٹر کے بعد پولس کی گرفت میں آئے اعظم گڑھ کے موضع خالص پورباشندہ شہزاد احمد کو دہلی کی ایک نچلی عدالت ساکیت کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ حالانکہ شہزاد احمد کے معاملے میں ایسے بہت سے شواہد ہیں ، جو شہزاد احمد کی عمر قید کی سزا پر بہت سے سوال اٹھاتے ہیں ۔ جس دن ساکیت کورٹ میں شہزاد احمد کی مقدمے کی سماعت ہورہی تھی توملزم نے کورٹ سے مانگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فاضل جج ایک بار L-18 کو دورہ کر کے وہاں کا جائز لے لیں کہ کیا اس عمارت کی ا وپری منزل سے کوئی چلانگ لگا کر زندہ بچ سکتا ہے ؟ لیکن ساکیت کورٹ نے شہزادا حمد کی مانگ کو رد کرتے ہوئے اسے عمر قید کی سزا سنا ئی ۔

 واضح رہے کہ جامعہ نگر میں واقع L-18چار منزلہ عمارت ہے اورشہزاد احمد پر جس فلیٹ سے سے کود کر بھاگنے کا الزام ہے وہ عمارت کی چوتھی منزل ہے۔ اب غو کرنے والی بات ہے کہ اگر کوئی شخص چار منزلہ عمارت سے کودتا ہے تو اس کا زندہ بچنا کیسے ممکن ہے ؟ حکومت کو چاہئے کہ اس انکائونٹر کی عدالتی تحقیقات کروائے، تاکہ انکائونٹر، شہزاد احمد اور ان سب معاملے سے جڑے دیگر باتوں کو لیکر ملک کے مسلمانوں اور انصاف پسند طبقوں میں جو شکوک و شبہات پائے جا رہے ہیں ، اس کو ختم کیا جاسکے۔ عارض خان عرف جنید کے معاملے میں نہ صرف اس کے گائوں نصیر پور بلکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شک وشبہہ میں مبتلا ہے اور اسے کسی طرح بھی دہشت گرد ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ لوگوں کا کہنا ہیکہ اس سے قبل بے شمار مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں پھنسا کر ان کی زندگیاں تباہ کی جا چکی ہیں ۔ اب پولس اور ملک کی ایجنسیوں کو ملک کے مسلمانوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے پولس اور خفیہ ایجنسیوں سے وابستہ افسران کو اس بات پر دھیان دینے کی ضرورت ہیکہ وہ کسی بھی شخص کو بے گناہ اور فرضی طریقے سے نہ پھنسائیں ۔ اس طرح کے معاملات میں ملک کی حکومتوں اور عدلیہ کو بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں فرضی طریقے سے پھنسانے والے افسران کے خلاف ٹھوس اور سخت اکیشن لیناچاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔