خوشبوؤں کے شاعر الیاس تنویرؔ کی پہلی برسی

تنویر احمد خطیب

محمد الیاس تنویرؔجو گزشتہ برس 31 جنوری کو اس جہان ِفانی سے کوچ کر گئے۔ اردو کے ممتاز شاعر ہونے کے علاوہ انسانی زندگی پر نفسیاتی حوالوں سے اور کائنات کے اسرار کوسمجھنے والے دانشور تھے۔ انہوں نے اپنی دانش کو مطالعے کی کثرت سے فروغ دیا اور نفسیات کو اپنے مزاج کا اس طرح حصہ بنایا کہ یہ علم اشیاء، مظاہر اور شخصیات کو کھوجنے کے لئے ان کی عینک بن گیا۔

روزِ اول سے اِس کرہ ٔارض پر ہر دور میں کروڑوں انسانوں میں چند افراد ایسے ہو تے ہیں جو سب سے نما یاں ہو تے ہیں کروڑوں کے اِس ہجوم میں زیادہ تر کھا یا پیا افزائش نسل کا حصے بنے اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔انسانوں کی اکثریت تاریخ کے کو ڑے دان میں غائب ہو جا تی ہے لیکن بعض اوقات قدرت انسانوں اور دھرتی پر کرم خاص کرتے ہوئے بے پنا ہ قوتوں کے حامل انسانوں کو بھی پیدا کر تی ہے ایسے لوگ عطیہ خدا وندی ہو تے ہیں اور پھر خدائے بزرگ بر تر سزا کے طور پر اِن کو چھین لیتی ہے ‘کروڑو ں کے اِس ہجوم میں حقیقی انسان کم ہی ہو تے ہیں اورزندگی کے تمام شعبوں میں رجال کا ر کم ہو تے ہیں جو دیر بعد گلشن ِ حیات میں اترتے ہیں اور پھر دیر تک جریدہ عالم پر ثبت رہتے ہیں ، مذہب، سیاست، علم و فن اور شعر و ادب عرض جملہ گو شہ ہا ئے حیات اِنہی روشن لوگوں کے دم سے آبا د ہوتے ہیں ۔

بے پناہ صفات سے مالامال یہ خاص لوگ، خا ص زبانوں کے لیے ‘خاص رشتوں کے لیے ‘سورج کی طرح کسی خطے میں طلوع ہو تے ہیں ۔ یہ لوگ سستے اور عام نہیں ہوتے ‘ایسے لوگوں کو پا نے کے لیے ملک کو برسوں گردش کر نی پڑتی ہے چشم فلک خاک چھان کر اُنہیں ڈھونڈتی ہے ایسے گوہر نایاب موتیوں کے لیے اصلاف کو برسوں گہرے سمندروں میں مرا قبہ کر نا پڑتا ہے انہی دیدہ وروں کے لیے نرگس کو بہت آنسو بہا نے پڑتے ہیں یہ لو گ کروڑوں دعائوں کا ثمر ہوتے ہیں ‘یہی زمین کا نمک ہو تے ہیں ‘سینکڑوں ذہنوں کا عطر ہو تے ہیں ‘اِن کی سوچ سے دماغ جلا پاتے ہیں اِن کے کردار کی روشنی سے معاشرے حیات نو پاتے ہیں اِن کے وجود سے ملکوں کے نام زندہ ہو جا تے ہیں ‘اِن کے علم کی روشنی سے صدیوں سے بے نو ر اندھی روحوں کو بینا ئی عطا ہو تی ہے۔انسانیت ایسے نا در اورنابگاہ روزگار انسانوں کی صدیوں راہ دیکھتی ہے اور پھر وہ گھڑی بھی آتی ہے جب ایسے روشنی کے مینار کو چہ فنا میں اُتر جا تے ہیں۔

مو ت بر حق ہے اور بے وقت بھی نہیں آتی اور مسلمان کے طور پر ہمیں شکایت کر نے کا بھی حق نہیں ہے کیونکہ خا لق ِ کائنات کی رضا میں ہی زندگی ہے مگر بعض اوقات موت ملکوں کو ہلاکر رکھ دیتی ہے بعض اوقات مو ت کے حسن انتخاب کی داد دینی پڑتی ہے وہ گلشنِ حیات سے چن کر وہ پھول تو ڑتی ہے جس کے دم سے بزم حیات مہکتی ہے یہ بزم دنیا کا ایسا چراغ بجھا تی ہے جن کی روشنی سے وہ قائم و دائم ہو تی ہے اربوں انسانوں میں سے ایسے فرد کو اُچک لیتی ہے جس سے انسانیت کا بھرم قائم ہو تا ہے یہ کہکشاں کے اُس روشن ستارے کو بجھاتی ہے جو سب سے روشن ہوتا ہے خاندان کے اُس فرد پر وارد ہو تی ہے جو پورے قبیلے کی آبرو ہو تا ہے اور دھرتی کو اُس سے محروم کر تی ہے جو زمین کا نمک ہو تا ہے ‘کر ہ ارض پر موجود کروڑوں ایسے انسان ہیں جن کو زندگی کے حقیقی معنوں کا ہی نہیں پتہ،جن کا ہونا نہ ہو نے سے بڑا عیب ہے ‘جن کی سانس علم و فکر کی آس ہو ‘جن کا ہونا غنیمت اور چلے جاناقیا مت ہو ‘جن کو پیدا کر کے ما ئیں تاریخ کے اوراق میں امر ہو جائیں جو زاد گان آفتاب ہوں اور منزل نو ر کے مسا فر ہوں۔

بے پناہ صفات سے مالا مال مرحوم الیاس تنویرجہاد زندگی، خو داعتمادی، محنت شاقہ اور درویش منش ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی تاریخ کے حوالے سے سب سے منفرد اور نمایاں مقام شخصیت ہیں جو آخر کا ر گزشتہ برس کی 31جنوری 2017کو دنیائے ادب داغِ مفارقت دیکر اس جہاں سے کوچ کر گیا۔محمد الیاس ملک المعروف تنویر ؔبھدرواہی ایسا ایک نام ہے جس کا شمار ریاست کے بلند پایہ ادیبوں اور شعراء میں ہوتا ہے۔مجھے آج بھی وہ دن یا د ہے جب مرحوم کے اس دنیا سے کوچ کرنے سے 5دن قبل راقم کی ملاقات جانی پور جموں میں اُن کی ہمشیرہ کے گھر میں ہوئی۔ مرحوم ملک الیاس تنویر ؔچھ بہنوں کے بھائی تھے گو کہ ملک الیاس کے بعد ایک اور لڑکے کی پیدائش ہوئی مگر ملک الیاس اپنی ماں کا تنویر تھا جسے وہ اپنی نظروں سے دور ہونے نہیں دیتی تھی،اِنکا بچپن اور جوانی اپنی بہنوں کیساتھ ہی گزرا،صحت مند معاشرے اور ماں و بہنوں کی صحیح تربیت نے انہیں تنویر ؔ کے خطاب سے نوازہ، صحت مند اور حیادار معاشرے میں تربیت پانے والے الیاس ؔمیں حیا، ایمانداری، دیانتداری، وفاداری، سماج دوستی، اپنوں کی فکر، بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت بزرگوں کا ہاتھ تھامنا، غریبوں کی مدد کرنا اور سادگی سے زندگی گزارنے کا وہ ہنر پیدا ہوا تھا کہ جو کوئی تنویرؔ سے ملتا تو بار بار اُن سے ملنے کی تمنا کرتا تھا۔ شرمیلے تھے،حیادار تھے، بہنوں کیساتھ محبت کی وجہ سے وہ اپنی بہنوں کے لاڈلے بھائی تھے اور وہ بھی بہنوں کے ہر دُکھ سکھ میں اُن کی آس بنا کر اُن کے ہر سکھ دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے تھے۔

گو کہ راقم کواس چیز کا شرف ہے کہ میں بہت سے معاملات میں اُنکے خاندان کیساتھ قریبی روابط کی وجہ سے آگاہ رہتا تھا، خیر بات ہو رہی تھی مرحوم کیساتھ آخری ملاقات کی، جوں ہی مجھ پر نظر پڑی، دیکھتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے مصافحہ کیا، گلے لگایا اورپاس میں بٹھا کر خیر و عافیت کے بعد باتوں کا سلسلہ شروع کر دیا، دوران گفتگو مرحوم نے اپنی نا ساز صحت کے بارے میں کہا،آنکھوں میں تکلیف کی وجہ سے سرینگر جانا ہوا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں ڈرا دیا تھا، لیکن داماد مشتاق احمد ملک نے انہیں حوصلہ دیا اور کہا آپ ڈاکٹروں کی باتوں کی طرف دھیان مت دیں ، اسی دوران سرینگر سے جموں کی جانب لوٹے جہاں ایک واقف کار ڈاکٹر سے مرحوم کی آنکھوں کا چیک اپ کرایا گیا، ڈاکٹر نے اُن سے کہہ دیا کہ موسم اور آب ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے آپکی آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہو جاتا ہے باقی آپ کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہیں ، آپ کی نظر شاہین کی نظر ہے، ڈاکٹر کی صلاح کے بعد مرحوم اپنی آنکھوں کے درد کو لیکر محتاط ہوئے اور کچھ قدرے پریشانی سے باہر آئے۔ مرحوم چونکہ دربار ِ طیبہ سے ایک بار حاضری دیکر آئے تھے لیکن مدینے کی پر نور گلیوں سے انہیں اس قدر محبت ہو گئی تھی کہ بار بار یہ تمنا ظاہر کر رہے تھے کہ پھر سے مدینے جائوں اور دربار ِ مدینہ جا کرنبی ٔ محترم ؐ کے روضہ اقدس ؐ کا دیدار کر کے آئوں اس محبت میں وہ بھدرواہ بھی گئے جہاں انھوں نے حج کا فارم بھرنا تھا،کہنے لگے کہ میں بھدرواہ حج فارم بھرنے گیا تھا اس پر راقم نے پھر سے روضہ اقدس ؐ پر حاضری دینے کی مبارکباد پیش کی اور اس کے ساتھ ساتھ التجا کی معاشرے کی بہتری کیلئے کچھ کچھ صفحہ ٔ قرطاس پر اُتارا کریں ۔

میری اس عرض پر وہ متفق تو ہوئے لیکن وقت کی کمی کا اظہار کیا، کہا کہ اب میرے پاس وقت نہیں یوں تو مرحوم کے چہرے سے ایسا کچھ ظاہر نہیں ہو رہا تھا لیکن شائد مرحوم خود سمجھ گئے تھے کہ واقعی اُن کے پاس اب کچھ لکھنے کیلئے وقت میسر نہیں ، مرحوم جان گئے تھے کہ اب موت کا فرشتہ اُن کا تعاقب کر رہا ہے۔ راقم نے التجا بھرے لہجے میں ضدی ہوکر کہا کہ کچھ نہ کچھ لکھا کریں اپنے ہمعصر شاعروں ، ادیبوں کے بارے میں تو ہاں میں ہاں ملائی۔ ہمعصروں کاذکر چھڑنے پرمرحوم یوں اپنے ہمعصروں کے نام لیتے گئے کہ جیسے بزم کے سارے ادیب اُس کے سامنے بیٹھے ہوں ، ایک ایک کا نام لیتے گئے۔ اقبال بزم ادب بھدرواہ کے روحِ رواں مرحوم غلام نبی گونیؔ کے بارے میں حد سے زیادہ جذباتی ہوئے اور فرمایا زمانے نے اُنکی قدر نہ کی، اُنکی شاعری اعلیٰ معیار کی شاعری تھی، اُن کی شاعری میں ہمیں علامہ اقبال ؒکی شاعری کا عکس نظر آتا ہے لیکن بیحد افسوس ہے کہ مرحوم غلام نبی گونی ؔکی اعلیٰ معیار تحریریں زندہ درگور کرنے کا عمل اپنایا گیا جو کہ اُردو زبان و ادب کیلئے کسی سانحہ سے کم نہیں ۔ مرحوم میں خوداری اس قدر رچ بسی تھی اور فضول کی خوشامدی سے اس قدر خائف تھے کہ جذباتی ہو کر ایکدم کہہ اٹھے کہ جموں شعبہ اُردو نے اور کلچر اکیڈمی نے مجھ پر ایم فل کرایا جبکہ میں اس قابل نہ تھا جو اس قابل ہوتے ہیں انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔

مرحوم نے دُکھ بھرے لہجے میں کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایسے لوگوں کی تحریروں کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے جن کی تحریروں سے معاشرے اور اُردو زبان و ادب میں ایک نیا انقلاب برپا ہو سکتا ہے ؟؟۔مرحوم غلام نبی گونیؔ پی ایچ ڈی کے حقدار تھے اُن پر مکالمے لکھے جا سکتے تھے، لیکن ایسا نہ ہوتا  نہایت ہی افسوس کن ہے۔ مرحوم کا کہنا تھا کہ مرحوم غلام نبی گونی ؔ حقیقی معنوں میں اقبال ؒ کے شاہین تھے اس لئے ضروری ہے کہ اُن کے نام پر اگر مشاعرے کرائے جاتے، سمینارمنعقد کئے جاتے تو اس سے اُن لوگوں کا رُتبہ بھی بلند ہوجاتا جو یہ پراگرام کراتے رہتے ہیں ۔ مرحوم رساؔ جاودانی کی شاعری پر بات ہوئی، وفاؔ بھدرواہی، بشیر بھدرواہی، آسؔ بھدرواہی، رِند ؔبھدرواہی، کنول نین نگہت، لال چند، ساغر صحرائیؔ اور جتنے بھی اِنکے ہمعصر تھے سب پر بات ہوئی لیکن جان محمد تشنہؔ کا ذکر خاص طور پر رہا کیونکہ جان محمد تشنہؔ بھدرواہی زبان میں شاعری کرتے تھے،جان محمد تشنہؔ نے اپنی شاعری سے بھدرواہی زبان کو نئی جدت دی۔ بھدرواہی زبان میں غزل کا رجحان شروع کرایا اور بقول ِ ملک الیاس مرحوم غلام نبی گونیؔ، جان محمد تشنہ ؔ کو بھدرواہی زبان کا میر تقی میرؔ کہا کرتے تھے۔یوں مرحوم سے میری مفصل اور آخری گفتگو کے بعد ملاقات کا اختتام تو ہوا لیکن دل میں پھر سے ملاقات کی تمنا ہری رہی۔

اُس شب کو مرحوم ملک محمد الیاس کا قیام جانی پور میں ہی رہا،دوسرے روز پرویز احمد ملک کے ہمراہ بٹھنڈی اپنے داماد کے گھر چلے گئے،ہم بھی اس سوچ میں تھے کہ اپنی تمنا کو پورا کرنے کیلئے پھر ملاقات کریں مگر ۳۱ تاریخ صبح چھ بجے اُن کی بڑی ہمشیرہ کا فون آتا ہے کہ الیاسؔ بیمار ہیں اُسے کٹرہ لے گئے صحت کی ناسازی کی خبر سنتے ہی ہم بھی کٹرہ جانے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں گوہر قیوم جو مرحوم کا بھانجا ہے نے دروازے پر دستک دی اور کہنے لگے کہ اب وہاں جانے کی ضرورت نہیں وہ سب ادھر ہی آ رہے ہیں ، گوہر قیوم سے یہ الفاظ سنتے ہی گویا سر پر آسمان ٹوٹ پڑا، پائوں تلے زمین کھسک گئی، دل تڑپ اٹھا اور آہ نکلی کہ ہائے …!! تنویر!!! کہاں جا رہے ہو ابھی تو ملاقات کا طوفان دل میں موجیں مارتا آپ سے ملنا کی فریاد کر رہا ہے اور آپ ہوکہ اچانک ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہو، ابھی تو آپ نے اپنے ہمعصروں کے بارے میں کچھ لکھنے کا وعدہ دیا ہے لیکن افسوس یہ زندگی کسی کو میسر نہیں جو اس جہاں میں آیا وہ اپنے مقرر اور معین وقت پر داغ ِ مفارقت دے گیا اور یوں محسوس ہوا کہ شائد مرحوم نے ملاقات کے دوران یہ کہہ کر اشارہ دیا تھا کہ اب میرے پاس کچھ لکھنے کاوقت نہیں ۔ وہ کس قدر موت کو قریب سے جانتے تھے آج اُس کے تحریروں کوپڑھ کر معلوم پڑتا ہے۔ کیونکہ اُن کی شاعری کا مختصر سا مطالعہ کرنے کے بعد ہم نے پا یاکہ وہ اپنوں کے جدا ہونے پر کس قدر دکھی تھے اور اُن کے دل میں دوسروں کی جدائی کا درد کس قدر رچ بسا تھا جسے انھوں نے تحریری شکل دیکر بیان کیاہے۔ اپنوں کے جدائی پر لکھے گئے چند اشعار پیش ہے ………

مرحوم غلام نبی گونیؔ کے بارے میں وہ یوں رقمطراز ہیں

رونق ِ محفل وہی تھا جان ِ محفل بھی وہی

اب فسردہ دل کو گرمائیں کس کی شوخیاں

اپنی شریک ِ حیات کے بارے میں وہ یوں لکھتے ہیں

اب صبح حسیں ہو کہ حسیں شام و شفق

لگتا ہے چمن بھی مجھے صحرا لق و دق

رساؔ کی یاد میں

جب جناب ِ رساؔ جہاں سے چلے

فرط ِ غم سے ہوا یہ دل بے ہوش

اپنی بھانجی نصرت کے بارے میں کیا کہتے ہیں

یہ کون کھو گیا کسی موج ِ سراب میں

کس سانحے نے پھر ہمیں ڈالا عذاب میں

وفاؔبھدروائی کی یاد میں یوں رقمطراز ہیں

وفا کی یاد اے تنویرؔ آئی

ہوا غم موجزن قلب ِ حزیں میں

حاجی عبدالغفار کچلو کے بارے میں

نہ شوخی ہے نہ کوئی گفتگو ہے

فقط اک ہو کا عالم کو بہ کو ہے

جعفر عنایت اللہ کی یاد میں

ہائے جعفر! تری جدائی سے

وقف ِ ماتم خوشی کا باغ ہوا

بالمؔ مرحوم کے بارے میں

دل کا یہ شہر کتنا بیاباں ہوا ہے آج!

بالم ہماری آنکھوں سے پنہاں ہوا ہے آج

تصدق حسین ملک مرحوم پر

یوں تصدق ہوا نظروں سے دور

نیند آنکھوں سے ہو گئی کافور

مرحوم الیاس تنویر رب ِ تعالیٰ کے فیصلوں پر کس قدررضامند تھے کہ جب اُن کا ایک جواں سال بیٹا انہیں داغ ِ مفارقت دے گیا تو اُس وقت بھی اُن کا کہنا تھا کہ اللہ کی دی ہوئی نعت تھی اُسی نے دی تھی اور وہی واپس لے گیا میں اللہ کے اس فیصلے پر قربان جائوں ، اللہ کے فیصلے کبھی غلط نہیں ہوا کرتے، اللہ کی رضا میں رضا مند ہوں اور یوں بھی تو انسان کا اِس دنیا میں آنے کا مقصد رب چاہی زندگی گزارنا ہے پھر کیوں کر ہم اس سے انکار کر سکتے ہیں ، جس نے رب چاہی زندگی گزاری اُس نے حقیقی معنوں میں زندگی کی حقیقت کو سمجھا۔ جب ’’منظر منظر آئینہ ‘‘کا شعری مجموعہ کا انتساب لکھا جاتا ہے تو اپنے لخت ِ جگر عارف شجاع کے بارے میں یوں لکھتے ہیں

راہ تک تک کے تھک گئیں آنکھیں

جانے والا نہ لوٹ کر آیا……!!

یوں سمجھ لیجئے کہ مرحوم کی ہر تحریربہت منفرد اور چشم کشا ہے قاری اُس کے سحر میں اِسطرح ڈوبتا ہے کہ دنیا ما فیا سے بے خبر ہو جا تا ہے مرحوم کی تحریروں میں ادب کی میٹھا س اور شیرینی رچ بسی ہے۔اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے لوگ لیل و نہا ر کی ہزار گردشوں کے بعد نمو دار ہو تے ہیں۔

بھیڑ میں دنیا کی جانے وہ کہاں گم ہو گئے

کچھ فرشتے بھی رہا کر تے تھے انسانوں کیساتھ

مرحوم الیاس تنویر کاشگفتہ لہجہ، دھیمی سی ہنسی، دوران گفتگو لہجے میں برقرار نرمی، ان کی شرافت، عاجزی اورمنکسرالمزاجی بھدرواہ کے عوام کو ہمیشہ یادتورہے گی لیکن ان کی شعری فنی نزاکتیں ادبی حلقوں میں بہت دیر تک گونجتی رہیں گی، مرحوم کو اُردو زبان و ادب کیساتھ دیوانگی کی حد تک لگائو اور وابستگی تھی۔مادری زبان پنجابی ہونے کے باجود،آٹھویں جماعت میں پڑھائی کے دوران اُردو میں شعر کہنے کی طرف رجحان پیدا ہوا۔اُن کے دو شعری مجموعے’’پرتُو تنویر‘‘اور’’منظر منظر آئینہ‘‘ شائع ہو چکے ہیں جنکی ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی۔مرحوم صوبہ جموں کے کہنہ مشق استاد آنجہانی میکشؔ کشمیری کے پسندیدہ شاگرد تھے ان کی ہی رہبری اور راہنمائی کی بدولت مرحوم تنویرؔ ادبی اُفق پر ایک درخشندہ ستارے کی طرح اُبھر آئے۔شعری ادب کیساتھ ساتھ مرحوم کے مختلف نثری شاہکار ریاست کے مقتدر رسائل اور جرائد کے علاوہ اخبارات میں بھی شائع ہوتے رہے۔ان کے شعری مجموعے حمد، نعت،نظم،غزل،قطعات اور مسدس جیسے اصنافِ سخن سے مزین ہیں ۔ غزل کے تو رساؔ تھے ہی جس میں اپنی کمال کی دسترس حاصل تھی۔مرحوم کا کلام مجموعی طور پر عالمی بھائی چارے امن و آشتی،رواداری،باہمی ہمدردی،انسان دوستی کا غماز ہے اور وہ موجودہ دور ِ زمانہ کی انسانوں پر کئے جانے والی نا انصافیوں ، ظلم و استبداد، سماجی نا برابری،انسانی اقدار کی پائمالی اور حق تلفیوں کیخلاف اپنے زور ِ قلم سے شعری جہاد کرتے نظر آتے ہیں جس کی جھلکیں ان کے کلام میں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ آج مرحوم تنویرؔ کو ہم سے جد ہوئے پورا ایک سال ہوا، اب وہ ہم سے دور جا چکے ہیں ! بس اللہ تعالیٰ سے اب میری یہی دعا ہے کہ  اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے۔ آمین ثمہ آمین!!

گوہر اشک ترے در پہ نچھاور کر دوں

میرے دامن میں نہیں کچھ بھی عقیدت کے سوا

تبصرے بند ہیں۔