دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی
عمران عالم
بے باک نگاہوں میں الجھن سی نظر آئی
دیکھی جو کنکھیوں سے اک شوخ کی انگڑائی
۔
اک بات جو پوچھی تو سو بات نکل آئی
محبوب کی آنکھوں میں دنیا ہی اتر آئی
۔
آؤ کہ نگاہوں سے کچھ جام ہی چھلکا دیں
"دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی”
۔
پابند سلاسل ہوں دھڑکن بھی مری قیدی
کچھ یاد نہیں مجھ کو راحت یہ کہاں پائی
۔
الزام رکھوں کس پر تفتیش کروں کیسے
کچھ حسن میں نخرے تھے کچھ عشق بھی ہرجائی
۔
کیوں بخت سے نالاں ہو معلوم نہیں تم کو
غالب نے بھی مانا تھا امید نہ بر آئی
۔
امروز کی نظروں سے ماضی کے دریچوں تک
کچھ راز نہیں کھلتا کیوں عشق میں رسوائی
۔
رہتے ہو کہاں عالم کچھ بات بھی ہے تم میں؟
کچھ بات نہیں لیکن دنیا ہوئی سودائی
تبصرے بند ہیں۔