آتش تلخی حالات میں کیا کچھ نہ جلا

محمد شاہد خان ندوی

ان دنوں مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب کے بابری مسجد سمجھوتہ فارمولہ اور مسلم پرسنل بورڈ سے ان کے ہٹائے جانے کے موضوع نے پورے ہندستانی میڈیا میں ایک ہیجان برپا کررکھا ہے شوشل میڈیا پر بھی ایک طوفان بپا ہے، عمل پھر رد عمل پھر رد عمل کے ردعمل کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے اس دھینگا مشتی اور گھماسان میں کسی نے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، یہاں تک کہ دین وملت کے سودے کے الزامات بھی لگائے گئے، ذاتی رنجشیں بھی نکالی گئیں اور جماعتی وگروہی تعصب کا اظہار بھی کیا گیا۔

مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب نے انڈیا ٹی وی پر مولانا سجاد نعمانی صاحب کی پول کھول کر گویا علماء کے عزت وقار کو بلند کیا، اویسی صاحب کی قرآن فہمی کی سطح بتاکر ان کی دین فہمی کی اوقات بتادی تو اویسی صاحب بھی کہاں پیچھے رہ جانے والے تھے آخر وہ بھی ایک بڑے خطیب اور ڈیبیٹر (Debater)جو ٹھہرے، انھوں نے بھی فوراحساب کتاب چُکتاکردیا اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے آخری اجلاس میں ان کی عزت کی دھجیاں اڑادیں گویا ملت اسلامیہ کے یہ مایہ ناز سپوت کسی اسلامی محاذ کے خوش گوار کارِ ثواب میں مشغول تھے۔ لیکن ان سب کے باوجود ایک خوش آیند بات جو محسوس کی گئی وہ یہ کہ پوری ملت اسلامیہ بابری مسجد کے مسئلہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موقف پر قائم رہی اور کسی بھی طرح مولانا سلمان حسینی صاحب کے فارمولے کو قبول نہ کیا اور نہ ہی بورڈ میں کسی بھی قسم کا ٹوٹ پھوٹ اور بکھراؤ پیدا ہونے دیا اور یہی ہونا بھی چاہئے تھا۔

مومن کی شان ہی یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اپنی رائے کو درست سمجھتے ہوئے بھی اس میں غلطی کے امکان کو خارج نہیں سمجھتا اور پوری جماعت کو غلط سمجھتے ہوئے بھی اس کے درست ہونے کے احتمال کو خارج از امکان قرارنہیں دیتا۔

یہی موقف استاذ محترم مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب کا بھی ہونا چاہئے تھا ان کا مصالحتی فارمولہ اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے اس پر گفتگو کی جاسکتی تھی، لیکن ان کی ٹائمنگ (Timing )اور جگہ دونوں کا انتخاب غلط تھا، ٹاٹمنگ اسلئے غلط ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں اب صرف گنتی کے چند دن باقی رہ گئے ہیں اسلئے ایسے وقت میں اس مسئلہ کو اٹھانا اس اشو کو پھر سے زندہ کرنا پوری عدالتی کاروائی کو بے سود بنانے اور دشمن کو مزید فائدہ پہونچانے کے مترادف ہے جگہ اسلئے غلط ہے کہ پہلے مولانا کو اصولی طور پر یہ مسئلہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اندر اٹھانا چاہئے تھا بعد ازاں بورڈ کی موافقت سے ہی پیش قدمی کرنی چاہئے تھی، جس طرح طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں مولانا نے بورڈ میں رہتے ہوئے بورڈ کے موقف سے اختلاف کیاتھا اور اپنی الگ رائے درج کرائی تھی اوربغاوت کا بگل نہیں بجایا تھا ٹھیک اسی طرح اس مسئلہ میں بھی انھیں اپنی بصیرت کا ثبوت دینا چاہئے تھا لیکن مولانا یہاں جلد بازی کا شکار ہوگئے اور بورڈ کو بغیر اعتماد میں لئے ہوئے اتنا بڑا قدم اٹھادیا، یہ معاملہ بذات خود بہت سنگین تھا لیکن مولانا نے اپنی بے بصیرتی سے اسے ایک آتش فشاں میں تبدیل کردیا وہ اپنی سیمابی طبیعت سے مجبور ہوکر آنا فانا گودی میڈیا کی گود میں جا گرے، اور انڈیا ٹی وی کو انٹرویو دیدیا جوکہ حکومت اور سنگھ پریوار کے مفادات کیلئے کام کرتا ہے اور اس نے اس موقع کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔

بلا شبہہ حضرت مولانا سلمان صاحب ایک بڑے عالم دین، ایک شعلہ نوا خطیب، بلند پایہ محدث اور مفسر قرآن ہیں ان کے پایہ کی علمی شخصیت ملک گیر سطح پر خال خال ہی نظر آتی ہے لیکن اپنی تمام تر علمی صلاحیتوں کے باوجود وہ سیاسی بصیرت سے محروم ہیں ، اپنی ا فتاد طبع کی وجہ سے وہ کئی بار قوم کیلئے مصیبتیں کھڑی کرچکے ہیں اور ایک بارپھر انھوں نے ایک بڑی مصیبت کھڑی کردی ہے، سنگھ پریوار کی سازشوں کا شکار ہوکر انھوں نے پوری ملت اسلامیہ کو ایک ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔
مولانا کا تعلق ایک مشہور علمی خانوادے سے ہے وہ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے اور جانشین کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اسی لئے سنگھ پریوار کی نظر میں اس کام کیلئے ان سے زیادہ کارآمد کوئی دوسرا شخص ہو ہی نہیں سکتا تھا اسلئے اس بار ان پر نشانہ لگایا گیا اور بالآخر خطرے کا احساس کئے بغیر وہ مشہور گجراتی تاجر اور نریندر مودی کے نزدیکی ظفر سریش والا کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے۔

21 مارچ 2017 کو میرے ایک دوست ‘نور حیدری ‘ نے ٹویٹر پرایک ٹویٹ کیا تھا وہ ٹویٹ یہ تھا :

۔Muslim should exchange mosque by 5 minority status universities for muslims

مسلمانوں کو مسجد کے بدلہ میں اقلیتی کردار والی پانچ یونیورسٹیاں لے لینی چاہئے  اور اس پوسٹ پر ظفر سریش والا کو ٹیگ کیا تھا اس پر ظفر سریش والا نے جو جواب دیا تھا وہ یہ تھا:

Let, s first build a consensus within the muslim community and get credible muslims ۔in forefront

اس کام کیلئے  ‎پہلے ہمیں مسلم سماج میں رائے عامہ ہموار کرنی چاہئے اور معتبر مسلمانوں کو سامنے لانا چاہئے  اور وہی ہوا ظفر سریش والا نے مولانا سلمان حسینی صاحب کو آلہ کار بنالیا اور اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔

لیکن مبارک باد کی مستحق ہے پوری ملت اسلامیہ کہ جو عقائدی، فکری اور مسلکی اختلافات کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور مولانا سلمان حسینی صاحب کا ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا اور سنگھ پریوار کے پروگرام کے عزائم کو خاک میں ملا دیا، اس سلسلہ میں ندوی برادری بھی مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے مولانا کے پورے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کے موقف کو غلط ٹھہرایا، اور بار بار مولانا سے اپنے موقف سے رجوع کرنے اور جماعت میں واپس لوٹ آنے کی گہار لگائی، ہمارا بھی یہی مطالبہ ہے کہ ابھی بھی سویرا ہے مولانا کو چاہئے کہ اپنے موقف سے رجوع فرمالیں ، اور میڈیا میں بیان بازی سے گریز کریں، جماعت کے ساتھ کھڑے رہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وصلم کا ارشاد ہے کہ ‘ يد الله علي الجماعة، اللہ کی تایید جماعت کے ساتھ رہتی ہے، اسلئے آپ بھی جماعت کا کام جماعت کے اندر رہتے ہوئے انجام دیں آپ کی توانائی کی قوم کو آج بھی بہت ضرورت ہے اور یہی ہمیشہ سے قائدین کا شیوہ رہا ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔