تفہیم القرآن  کے انگریزی تراجم: ایک تعارف

مجتبیٰ فاروق

تفہیم القرآن بیسویں صدی میں تفسیری لٹریچرمیں انتہائی اہم اضافہ ہے۔ اس کے متنوع خصوصیات وامتیازات ہیں جن کی وجہ سے یہ عوام وخواص میں بے حد مقبول ہے۔ یہ حقیقی معنوں میں ایک شاہکا ر  (Magnam Opus)  تفسیر ہے۔ جو اپنے آغاز سے لیکر اب تک بے شمار اثرات نئی نسل پر مرتب کر چکی ہے نیز یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ تفہیم القرآن میں جو جاذبیت اور کشکمش ہے وہ بلا مبالغہ کسی اور اردو تفسیر میں نہیں ہے اگرچہ سبھی تراجم وتفاسیر منفرد خصوصیات کے حامل ہیں لیکن تفہیم القرآن عصر حاضر کے سلگتے ہوئے مسائل کا وحی الٰہی کی روشنی میں جس انداز سے حل پیش کرتا ہے وہ اس کا نمایاں امتیاز ہے۔ مغربی فکر وتہذیب سے متاثر نئی نسل مختلف ذہنی اشکالات اور تہذیب حاضر کے نت نئے مسائل اور الجھنوں میں گھری ہوئی تھی اس کو سید مودودیؒ نے بحسن وخوبی ایڈرس کیا ہے۔

تفہیم القرآن اگرچہ ایک مخصوص طبقے کو ذہن میں رکھ کر لکھی گئی لیکن اس سے ہر خاص وعام مستفید ہو رہا ہے۔ ایک طرف اگر عام تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے بیش بہا تحفہ ہے تو وہیں علماء کے لیے بھی یہ نعمت عظمیٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔ فہم قرآن کے حصول کے لیے یہ ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ برصغیر میں فہم قرآن کا جوذوق وشوق ابھرا۔ اس میں سید مودودیؒ کااہم حصہ ہے۔ بیسویں صدی میں برصغیر پاک وہند میں فہم قرآن کا ذوق ابھرنا ہی تفہیم القرآن کی عظیم الشان فتح ہے۔

تفہیم القرآن کتابی شکل میں مدون ہونے سے پہلے ہی قسطوں میں ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہوتا رہا تھا جس کی وجہ سے قارئین کتابی شکل میں آنے سے قبل ہی اس سے آشنا و مانوس تھے۔ تفاسیر میں صرف تفہیم القرآن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ کتابی صورت میں طبع ہونے سے قبل ہی رسالہ ترجمان القرآن میں شائع ہوتا رہا اور صاحب تفہیم القرآن نے اپنے معاصر علماء کو اس بات کی دعوت بھی دی کہ آپ حضرات کو اگر کہیں اس میں کوئی غلطی نظر آئے یا کسی حذف و اضافے کی ضرورت محسوس ہوتو ضرور مطلع فرمائیں ۔ خواجہ اقبال احمد ندوی کے مطابق ’’مولانا مودودیؒ نے اصحاب علم اور علمائے کرام سے درخواست کی تھی کہ مسودہ میں اگر کسی مقام پر کوئی غلطی نظر آئے یا کسی مقام پر انہیں محسوس ہو کہ یہاں مزید تشریح کی ضرورت ہے آپ براہ کرم دلائل کے ساتھ مجھے متنبہ فرماتے رہیں تاکہ غلطیوں کی اصلاح اور تشریح رسالہ میں شائع ہوتی رہے۔ جب بھی مسودہ پر دلائل کے ساتھ کوئی اعتراض وارد ہوتا، مولانا خط پڑھتے ہی سارا کام چھوڑ کر، اس کا جائزہ لیتے تھے۔‘‘

 تفہیم القرآن کی غرض وغایت:

مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن فروری ۱۹۴۲ء میں لکھنا شروع کیااور ۳۰ سال کی مدت میں  ۷؍جون ۱۹۷۲ء میں پایہ تکمیل تک پہنچائی۔ یہ چھ ضخیم جلدوں اور ۴۱۴۳ صفحات پر مشتمل ہے۔مولانا کے ذہن میں قرآن مجید کے ترجمہ وتفسیر لکھنے کا مقصد ومدعا واضح تھا وہ قرآن مجید کا ایک نیا ترجمہ وتفسیر ایک اضافے کے طور پر اور محض خیر وبرکت کے حصول کے لیے وقت کا زیاں سمجھتے تھے۔ انہوں نے جس طبقے کو ذہن میں رکھ کر تفسیر لکھی اس میں انہیں سو فیصدی کامیابی ملی۔ مولانا کے پیش نظر جو طبقہ تھا وہ عام تعلیم یافتہ طبقہ تھا جو عربی زبان سے بالکل نابلد ہے۔ انہوں نے تفسیر لکھنے کا مقصد تفہیم القرآن کے دیباچے کے پہلے ہی صفحے پر بیان کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں :

’’میں ایک مدت سے محسوس کر رہا تھا کہ ہمارے عام تعلیم یافتہ لوگوں میں روح قرآن تک پہنچنے اور اس کتاب پاک کے حقیقی مدعا سے روشناس ہونے کی جو طلب پیدا ہو گئی ہے اور روز بروز بڑھ رہی ہے وہ مترجمین ومفسرین کی قابل قدر مساعی کے باوجود ہنوز تشنہ ہے اس کے ساتھ یہ احساس بھی اپنے اندر پا رہا تھا کہ اس تشنگی کو بجھانے کے لیے کچھ نہ کچھ خدمت میں بھی کر سکتا ہوں ۔ انہی دونون احساسات نے مجھے اس کوشش پر مجبور کیا جس کے  ثمرات ہدیہ ناظرین کر رہاہوں ـ‘‘

 تفہیم القرآن کے  انگریزی ترجمے کا آغاز چودہری محمد اکبر مراد پوری نے کیا۔ بعد میں انھوں نے عبدالعزیز کمال کو اس میں شریک کر لیا۔ ان دونوں نے ایک ساتھ ترجمے پر کام کیا۔اس دوران چودہری محمد اکبر کا انتقال ہوگیا لیکن عبدالعزیز کمال نے اس ادہورے کام کو مکمل کیا۔یہ ترجمہ ۱۹۸۷ء میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔ اس ترجمہ کو پہلے اسلامک پبلی کیشنز لاہور نے دس جلدوں میں  The Meanings of the Quran کے عنوان سے شائع کیا اور پاکستان میں اس کے متعدد ایڈ شن شائع ہوئے۔ معیاری زبان نہ ہونے کی وجہ سے یہ ترجمہ زیادہ کامیاب نہ ہوا۔ بعد میں The Holly Quraan Translation and Brief Notesکے نام سے ایک جلد میں اس کی اشاعت ہوئی۔

  تفہیم القرآن کا دوسرا انگریزی ترجمہ برطانیہ کے ایک معروف اور موقر تحقیقی ادارہ اسلامک فاونڈیشن  لیسٹرسے شائع ہوا۔ یہ ترجمہ اد ارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کے سابق ڈائریکٹر جنرل  اور معروف اسلامی محقق ڈاکٹر ظفر اسحق انصاری  نے دس جلدوں میں کیا۔ اس ترجمہ کا نام  "Towards understanding the Quran "رکھا گیا ہے۔ اس ترجمہ کی زبان بھی معیاری ہے اور اسلوب بھی دلکش ہے۔ ہند وپاک کے علاوہ اکثر ممالک میں یہی ترجمہ معروف ہے۔ ڈاکٹر ظفر اسحق انصاری مرحوم ؒ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے انگریزی داں طبقہ کے لیے  اس کا ترجمہ کیا۔ وہ اس اعزاز کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

I felt greatly honoured when i was asked to render this important work in to English .It was ,however , with considerable diffidence that i accepted the undertaking . I was encouraged however , by the fact that Mowlana Moududi himself considerd me worthy ot the task and sent word to that effect .

 ترجمہ اور مختصر حواشی کا بھی ایک جلد میں Towards understanding the Quran. Abridged version of Tafhim al Quraan   کے نام سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ قرآنیات کے ماہرین  نے  اس ترجمہ کو خوب سراہا جن میں ایک خاص نام ڈاکٹر عبدالرحیم قدوائی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔