فلم سنجو اور قومی دھارے کے میڈیا کی تلملاہٹ

 ندیم عبدالقدیر

گزشتہ ۲۵؍سال سے قومی دھارے کا میڈیا اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے ساتھ سنجے دت کےبارے میںبے بنیاد اور اوٹ پٹانگ تبصرے، تذکرے اور تجزیے کررہا ہے۔ پچیس سال میں پہلی بار فلم ’سنجو‘ کے ذریعے سنجے دت نے قومی دھارے کے میڈیا کے بارے میں تبصرہ کیا کِیا، قومی میڈیا تِلملا اُٹھا۔ فلمی ستارے ویسے بھی نرم چارہ ہوتےہیں۔ ان کی نہ ہی سیاسی پارٹی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے سیاسی ورکر، اسلئے انہیں آسانی سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ فلم ’سنجو‘ کے بارے میں اب قومی دھارے کے میڈیا کا جو مؤقف ہے وہ یہ ہے کہ اس فلم کے ذریعے ایک مجرم کو عزت بخشنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہندی فلم انڈسٹری میں پہلی بار کسی مجرم یا ملزم پر فلم بنی ہے۔

اس سے پہلے بھی کئی بار ایسی ہستیوں پر فلمیں بن چکی ہیں جو قانون کی نظر میں مجرم یا ملزم تھے، لیکن کبھی بھی قومی میڈیا نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ مخالفت کا یہ اعزاز صرف سنجے دت کے ہی حصہ میں آیا۔ قومی میڈیا آج بھی سنجے دت کو دہشت گرد کا تمغہ دینے کے اپنے جذبہ سے سرشار ہے۔ سنجے دت کے دہشت گرد ہونے کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ ممبئی بم دھماکوں کے ایک ملزم نے یہ الزام لگایا تھا کہ اس نے سنجے دت کو ’اے کے ۵۶‘ رائفل دی تھی۔ یہ صرف ایک الزام تھا۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ وہ ہتھیار، جس کے بارے میں بات کی گئی تھی، وہ بھی ضائع ہوچکا تھا اور یہ بات الزام لگانے والے کو نہیں معلوم تھی۔ سنجے دت کے گھر سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہو اتھا۔ اُس وقت سنجے دت ماریشیس میں تھے۔

 اگر سنجے دت ہندوستان لوٹ کر نہیں آتے ( جیسے کہ موسیقار ندیم لوٹ کر نہیں آئے) تو ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ وہ مشہور شخصیت تھے اور ایسی نامور اور رئیس ہستیوں کیلئےدنیا کے کسی بھی ملک میں زندگی گزارنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا، لیکن سنجے دت نے جرم یہ کِیاکہ وہ قانون بھاگے نہیں۔ وہ ہندوستان آئے اور قانون کا سامنا کیا۔ ان کے خلاف پولس اور حکومت کی ناقابل یقین فرض شناسی کا عالم یہ تھا کہ انہیں ائیرپورٹ سے ہی گرفتار کرلیا گیا۔ یہاں سنجے دت نے ایک بار پھر پولس اور قانون کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اعترافِ جرم کیا، اور کہاکہ ان کے پاس اے کے ۵۶ تھی جسے انہوں نے ضائع کردیا۔ یہی اقبالِ جرم ان کے خلاف  سب سے بڑا ثبوت بن گیا۔ اس کے علاوہ پولس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔

 پولس نے کوئی تفتیش یا جانچ نہیں کی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ سنجے دت اس معاملے سے بچنے کی کوشش کررہے تھے اور پولس نے انتہائی عقلمندی سے انہیں گھیر لیا۔ سنجے دت اگر ’اعترافِ جرم‘ نہیں کرتے اور کہہ دیتے کہ ان پر تمام الزامات بے بنیاد ہیں تو شاید قیامت کے صبح تک پولس انہیں مجرم ثابت نہیں کرپاتی۔ سنجے دت کو صرف الزامات سے انکار کرنا تھا کیونکہ باقی کام ان کے وکیل کردیتے، اور پھر وہ بھی عدالت کے باہر آکر میڈیا سے سینہ چوڑا کرکے کہہ سکتے تھے کہ’’اُن پر لگائے گئے سارے الزامات بے بنیاد ہیں، وہ بے قصور ہیں، اُن کی امیج کو سبوتاژ کرنے کیلئے اُن کے دشمنوں نے یہ سازش رچی ہے، انہیں عدلیہ پر پورا اعتماد ہے، انہیں یقین ہے کہ سچ کی جیت ہوگی‘ ‘۔ یہ وہ چند جملے ہیں جو ہمارے ملک میں ہر بڑا ملزم کیمرہ کے سامنے آکر کہتاہے، لیکن سنجے دت نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ مکّار نہیں تھے۔

عدالت نے سنجے دت کو ان کے اعترافِ جرم کو ہی ان کے خلاف ثبوت ٹھہرا کر انہیں سزا دی۔ سنجے دت نے اپنی سزا مکمل کی اور باہر آئے۔ اتنا سب ہونے کے باوجود آج بھی میڈیا سنجےدت کو دہشت گرد ہی قرار دے رہا ہے۔ یہ ہمارے لئے قابلِ غور مقام ہے کہ ایک شخص جس نے قانون کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ جس نے اعترافِ جرم کیا۔ ہما را میڈیا بجائے اس کی تعریف کرنے کے آج بھی اسے دہشت گرد کہنے میں ہی فخر محسوس کررہا ہے۔ کیا ایسا کرکے ہم اپنے گھٹیا سماج ہونے کی دلیل نہیں دے رہے ہیں۔

کیا سنجے دت کو دہشت گرد کہہ کر ہمارا میڈیا ایسے رجحان کو فروغ نہیں دے رہا ہے جہاں کوئی بھی مجرم اعتراف ِ جرم کرنا بے وقوفیسمجھے گا۔ کیا ایسا کرکے میڈیا سماج کو بہتر بنانے کی بجائے اسے بدتر بنانے کی طرف پیش قدمی نہیں کررہا ہے۔ سنجے دت کے ہندوستان لوٹ آنے، قانون کے ساتھ تعاون کرنے اور اعترافِ جرم کرنے کی پذیرائی نہیں کرکے ہمارا میڈیا ایسا سماج بنا رہے جہاں مستقبل میں کوئی بھی مجرم لوٹ کر آنے، قانون کے ساتھ تعاون کرنے اور اعترافِ جرم کرنے کی حماقت نہیں کرے گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔