قرآن مجید کا فلسفئہ ’زوج‘

قمر فلاحی

زوج کے اصل معنی جوڑا کے آتے ہیں، جس کو ہندی زبان میں پورک کہا جاتاہے۔ ہماری کم علمی کہیے کہ ہم نے بچوں کو زوج کو زوجہ کی ضد پڑھانا اور بتانا شروع کیا جوکہ سراسر غلط ہے۔

اردو میں ایک اصطلاح اس رشتہ کیلئے مستعمل ہے اور نہایت ہی عمدہ ہے "شریکئہ حیات” اس میں بڑی بلاغت چھپی ہوئ ہے اور زوج کی اصل ترجمان ہے۔

جس طرح اولاد مذکر و مونث کیلئے یکساں ہے اسی طرح زوج بھی یکساں ہے۔

زوج مرد اور عورت دونوں کیلئے یکساں طور پہ بولا جاتا ہے، بس مذکر و مئونث میں فرق کرنے کیلئے” ۃ "کا اظافہ کرتے ہوئے عورت کیلئے زوجۃ بولا جاتا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ زوج، زوجین، ایک الگ رشتہ ہے جو نکاح کے بعد عمل میں آتا ہے، مگر نکاح اس کیلئے شرط نہیں ہے بغیر نکاح کے بھی یہ جوڑا قائم کیا گیا ہے جیسا کہ حسب ذیل دلائل سے واضح ہے۔ اسے یوں سمجھئے کہ مسلمان ایک اصطلاح ہے جو مرد و عورت دونوں کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ہر اس فرد کیلئے مستعمل ہے جو کلمہ کا اقراری ہو۔

قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے زوجین کو کبھی الگ الگ ناموں سے یاد نہیں کیا اور نہ ہی دونوں کے الگ الگ حقوق بیان کیے بلکہ ایک نام سے یاد کیا اور یکساں حقوق بیان فرمائے۔ لہذا جو کوئی ان رشتوں میں دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کریگا اور اس میں تفریق کریگا وہ قرآن میں تفریق کا قائل ہوجائے گا اور اس طرح بڑا گنا ہ کر بیٹھے گا۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا۔ (الاحزاب ۳۷۔)

پس جب کہ  زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کر لی ہم نے اس سے تمہارا جوڑا لگا دیا۔

كَذَٰلِكَ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ۔ (الدخان ۵۴)

اور ہم بڑی بڑی آنکھوں والی عورتوں سے ان کا جوڑا لگا دیں گے۔

وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ۔ (التکویر ۷۔)

اور جب جانوں کا جوڑا لگا دیا جائے گا۔یعنی انہیں آپس میں ملا دیا جائےگا۔

[مترجمین میں سے بعض جو زوج کا ترجمہ کرنے میں سہو کا شکار ہوئے ہیں یہاں آکر انکی گاڑی پھنس گئ ہے۔ کیوں کہ نفوس کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا۔]

تراجم میں یہی ایک نقص ہے جس کا خیال مترجمین میں سے اکثر نہیں رکھ پائے کہ انہوں نے ایک ہی اصطلاح کا ترجمہ الگ الگ جگہوں پہ الگ الگ کر دیا جبکہ ایسا نہیں کرنا تھا۔

وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚ أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا۔ (النساء ۲۰)

اگر تمہارا ارادہ ایک جوڑے کی جگہ دوسرے جوڑے کے لانے کا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں زوج مونث کیلئے استعمال کیا گیا۔ اس میں یہی بلاغت پوشیدہ ہے کہ اس کا مقام نیچا نہ سمجھا جائے۔

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ۔ (لقمان ۱۰)

۔۔۔۔اور ہم نے آسمان سے پانی برساکرزمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگادئے۔[تفسیر جوناگڈھی] یہاں آکر زوج کی اصطلاح کا اصل ترجمہ سامنے آیا اور یہی ترجمہ ہر حال میں کرنا ہی پڑیگا کیوںکہ یہاں نکاح اور زوجیت کا ترجمہ درست ہی نہیں ہوگا۔

وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ۔ (الاعراف ۱۹)

اے آدم تم اور تمہاری شریکئہ حیات [جوڑا ] جنت میں رہو اور تم جہاں سے چاہوں کھائو سوائے اس پیڑ کے کہ اس کے قریب مت جانا ورنہ تم دونوں ظالم ہوجائو گے۔

یہاں پہ ایک اور باریک نکتہ معلوم ہوا کہ ظلم صرف شرک کو نہیں کہتے ہیں بلکہ انکار فرمان بھی ظلم  ہے۔ حکم یہ تھا کہ اس پیڑ کے قریب نہیں جانا ہے جب اس کے قریب ہوئے تو ظالم ٹھہرے۔

ایک اور نکتہ یہ ہیکہ ظلم اور شرک میں یہ ربط ہے کہ جو اللہ کی نہیں مانتا وہ اپنے نفس یا شیطان کی مانتا ہے اس طرح وہ اللہ تعالی کے مقابلہ میں شیطان اور نفس کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اسے معبود کا درجہ دیدیتا ہے اسی لیے وہ ظالم ہوگیا کہ اس نے اللہ کا حق اطاعت چھین لیا اور اسے نفس اور شیطان کو دیدیا۔ سبحان اللہ

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا۔ (النساء ۱)

اے لوگو پرہیزگاری [بات ماننا] اختیار کرو اس رب کی جس نے تمہیں ایک نفس سےپیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا لگایا۔

سب جانتے ہیں کہ حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام میں نکاح نہیں ہوا تھا۔اور حضرت حوا علیھا السلام کو حضرت آدم کی پشت کی ہڈی سے پیدا فرمایا گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا لامحالہ یہاں بھی جوڑا لگانے کا ہی ترجمہ ہی کرناہوگا۔

فِيهِمَا مِن كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ۔ (الرحمن ۵۲)

اور ان دونوں جنتوں میں ہر قسم کے میوہ جات کے جوڑے ہوں گے۔

وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔( الذاریات ۴۹۔)

اور ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا پیداکیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ۔ (النحل ۷۲۔)

اور اللہ نے تمہارے لئے تمہی میں سے جوڑے بنا دئے۔

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ۔ (الروم ۲۱۔)

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے آرام پائو اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی یقینا غور و فکر کرنے والوں کیلئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ نے زوج بنانے کا مقصد بیان فرمایا کہ وہ ایک دوسرے کے معاون بن کر ایک دوسرے کو راحت و سکون پہونچاتے ہیں۔ مثلا دونوں مل کر اولاد پیدا کرتے ہیں، ان میں سے کسی ایک کے بس میں نہیں ہے اولاد پیدا کرنا۔ اللہ پاک نے آگے ارشاد فرمایا کہ تم دونوں کے درمیان زوج بننے کے بعد مودت اور رحمت ڈال دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں غور کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نشانی یہی ہے کہ جسے اللہ تعالی نے زوج بناکر یکجا کیا ہے تم اسے الگ کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ یہ آپس میں سکون حاصل نہیں کر پائیں گے اور انکی مودت و رحمت بھی ختم ہوجائے گی۔

تبصرے بند ہیں۔