ایک سے زیادہ شادی کرنا وقت کی اہم ضرورت

محمد ابراہیم قاسمی شولاپوری

(جنرل سکریٹری:دینی تعلیمی بورڈ، مہاراشٹر)

 ( اسلام میں ایک سے زیادہ شادی کی اجازت عورت کے تحفظ کے لیے ہے ناکہ مرد کے عیاشی کے لیے۔ مسلمان جاہلانہ ماحول سے مرعوب ہوکرخود پر ظلم نہ کریں۔ اللہ کی شریعت ہی انسانیت کے مسائل کا حل اوراس کے لیے باعث رحمت ہے۔ )

آپ ﷺ کی آمد سے پہلے لوگ طرح طرح کے خرافات اور خود ساختہ رواجات میں جکڑے ہوئے تھے، عبادات سے لیکر گھریلوزندگی تک میں بہت سی ایسی باتیں ان کے درمیان رائج ہوگئی تھیں جو انسانی فطرت  کے خلاف تھیں۔ مثلا عبادات میں کچھ لوگ رہبانیت اختیار کرلیتے یعنی گھر بار چھوڑدیتے تھے، دنیا کی لذتوں سے پرہیز کرتے، جنگلوں میں بسیراکرتے اور ایسے سخت سخت عبادت کے طریقے اپناتے تھے کے سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگ مختلف طریقوں سے اپنے جسم کو عذاب دیتے تاکہ انہیں ان کے زعم میں خدا کا قرب ملے۔ پھر روز مرہ کی زندگی میں بہت سی باتیں غیر انسانی پائی جاتی تھیں جن سے انسانیت شرمسار تھی۔

اللہ تعالی نے انسانوں پر فضل فرمایا اوراپنے آخری اور پیارے نبی کودنیاجہاں والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا۔ آپ ﷺ کے ذریعہ زندگی گزارنے کا پورا نظام قرآن وسنت کی شکل میں عطافرمایا اور ایسا واضح صاف ستھرا، شکوک وشبہات سے پاک آسان دین عطا فرمایاجس کے بارے میں خود اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم نے دین میں تمہارے لئے کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (سورہ حج آیت ۷۸) اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی چاہتے ہیں اور اللہ تعالی تمہارے ساتھ تنگی کونہیں چاہتے۔ (سورہ بقرہ آیت ۱۸۵) نیز آپ ﷺ کی مشن کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں :

وہ(محمد ﷺ) انہیں اچھی باتوں کا حکم کرتے ہیں، بری باتوں سے روکتے ہیں، پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے ہیں، گندی اور ناپاک چیزوں کو حرام بتاتے ہیں، اور ان سے وہ بوجھ اور طوق (شاق اور مشکل احکام اور رواجات)کو دور کرتے ہیں پس جو لوگ ان پر ایمان لائے، ان کی حمایت کی اور ان کی مدد کی اور اس نور(قرآن) کی پیروی کی جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، ایسے لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔ (سورہ اعراف آیت ۱۵۷)

اب ہمارے دین کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے دین میں تمام اچھی، پاکیزہ اور مفید چیزیں حلال ہیں اور تمام وہ چیزیں جو انسانوں کے لئے نقصان دہ یا غیر مفید تھیں اور ہیں وہ سب حرام ہیں ؛ لہذا جب اسلام کسی چیز کی ترغیب دیتا ہے تو ضرور اس میں انسانیت کی بھلائی ہوگی اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں نقصان ہوگا۔ نیز خود ساختہ رواجات انسانی معاشرہ پربہت بڑا بوجھ ہوتے ہیں، جنھیں دور کرکے ہی انسانیت سکون کا سانس لے سکتی ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسی تمام رسم وراج کا خاتمہ فرمایا جوانسانی فطرت کے خلاف یا انسانوں پر شاق تھیں۔

آج دنیا میں دور جاہلیت پھر عود کرآیاہے۔ وہی تمام برائیاں اور منکرات’’ شکل یا نام بدل کر‘‘ پہلے سے زیادہ خطرناک انداز میں، سوسائٹی کو ا پنے جکڑ میں لے لیا ہے۔ پہلے بچوں کی پرورش سے بھاگنے کے لئے ان کو قتل کیا جاتا تھا یا انہیں پیدا ہونے کے بعد زندہ دفن کیا جاتا تھا۔ اب سونوگرافی اور دیگر ذرائع سے اسی کام کو پروفیشنل انداز میں انجام دیا جارہا ہے۔ آج شراب نوشی، زناکاری، بدکاری اور دیگر برائیوں کو خوبصورت ٹائٹل دیکر، عام کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

خیر بات لمبی ہوتی جارہی ہے۔ ہم اسے مختصرا یوں بیان کررہے ہیں کہ زمانہء جاہلیت کی ایک وبا عورتوں کا استحصال بھی تھا۔ ان کی معاشرہ میں کوئی عزت نہیں تھی۔ لوگ خواتین سے ذمے دارانہ طور پر شادی کرنے سے بھاگتے اور صرف شہوت رانی کے لئے، بغیر شادی کے ان کا استعمال کرتے تھے۔ عورتوں پر اسلام کا یہ احسان ہے کہ اسلام نے صرف شہوت ستانی کے لئے عورت سے تعلق قائم کرنے کو منع فرمایا۔ اسلام نے شادی کی فضیلت بیان کی اور مردکے ذمے عورت کے حقوق اور عورت پر مرد کے حقوق بیان کئے۔ ساتھ ہی اسلام نے  اس کی بھی وضاحت کی ہے کہ شادی کے ذریعہ مردو عورت کو باندی نہیں ؛ بلکہ اپنا شریک حیات اور زندگی کا ساتھی بناتا ہے۔ مرد کے ذمہ ہے کہ وہ عورت کے کھانے پینے سے لے کر اس کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کی تکمیل کرے۔

اسلامی اعتبار سے عورت گھر کی ملکہ ہوگی نا کہ نوکرانی۔ اگر مرد کے عورت پر کچھ حقوق ہیں ؛ تو اسی طرح مرد پر بھی عورتوں کے بہت سے حقوق ہیں۔ اگر مرد  ان حقوق کو ادا نہیں کرتا ہے؛ تو وہ جہاں دنیا میں مجرم ہے اور اس پر اس کو سزا ہوگی، اسی طرح وہ آخرت میں بھی گنہگار گردانا جائے گا۔ یہی وجہہ ہے کہ اسلامی نقطہء نظر سے شادی کے ذریعہ عورت اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتی ہے وہ اپنے شوہر سے اپنے حقوق مانگ سکتی ہے؛ جب کہ گرل فرینڈ یا رکھیل ہونے کی صورت میں وہ احساس کمتری کی شکاراور غیر محفوظ سمجھتی ہے۔ گرل فرینڈ خود کو اندر سے بے چینی محسوس کرتی ہے؛ کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ اس مرد کے ساتھ اس کے کسی طرح کے حقوق متعلق نہیں ہے؛ بلکہ وہ چند روزہ دوستی اور تکمیل شہوت کا ذریعہ ہے۔ مرد صرف اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے اس کو محبت کا فریب دیتا ہے اور جنسی تکمیل کے بعد ٹیشو پیپر کی طرح پھینک دیتا ہے۔ انگریزی ممالک میں آپ کھلی آنکھوں ایسے مناظر ہر طرف دیکھ سکتے ہیں۔

اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے: تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ مغربی ممالک میں سب سے زیادہ ذلیل اور بے وقعت کوئی چیز ہے تو وہ عورت ہے۔ آج یورپ میں ایک عورت صرف محبوبہ کی شکل میں تو قبول ہے، مگر وہ عورت ماں، بہن اور بیٹی کی شکل میں قبول نہیں ہے۔ ایک خاتون سے شادی سے پہلے، گرل فرینڈ کے زیر عنوان، متعدد مرد اس کی عزت سے کھیلتے ہیں۔ مگر اس کے لیے مکان اور کھانے خرچے کی ذمے داری لینے وہ بوائے فرینڈ تیار نہیں ہوتا؛ لہذا وہ خاتون اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے آخری دم تک محنت کرتی ہے۔ اس کو باہر اور اندر کے دونوں کام خود ہی کرنے پڑتے ہیں اورمردبوائے فرینڈ کے زیر عنوان صرف عیاشی کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کاکوئی انکار نہیں کرسکتا۔ عورت کی آزادی کے نام پر یہ سب ظلم کیاجارہا ہے اور وہ بے چاری اس ظلم کو نعمت سمجھ رہی ہے۔

آج ہمارے معاشرہ میں بیوہ، مطلقہ اور بے نکاح عورتوں اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو نکاح کرنا بھی چاہتی ہیں ؛ لیکن کوئی مرد ان کا ہاتھ تھامنے کے لئے تیار نہیں یا معاشرہ  دوسری شادی کو اتنی گری نظر سے دیکھتا ہے کہ چاہتے ہوئے بھی کوئی کرنے کے لئے تیار نہیں۔  اب عقل یہی کہتی ہے کہ وہ یا تو چھپ چھپ کر برائی کرتے ہوں گے یا پھر گُھٹ گُھٹ کر یوں ہی اس ناقابل برداشت تکلیف سہتے ہوئے، اس دنیا سے چلے جائیں گے۔

راقم الحروف کی زیر نگرانی، گذشتہ تین سالوں سے رمضان المبارک میں بیوائوں کو عیدکا راشن تقسیم کرنے کا معمول ہے۔ جب بیواؤں کی فہرست تیارکی گئی؛ تو بڑا تعجب ہوا کہ کسی محلہ میں پچیس، کہیں انتیس توکہیں سولہ تو کہیں تئیس بیوائیں ہیں۔ اسی طرح ہر مسجد کے اطراف میں، ایک بڑی تعداد بیوائوں کی تھی، جن میں سے اکثر کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ ان کی بے بسی کا حل کیا ہوگا؟ان کا سہار اکون بنے گا؟  اب ایک اہم سوال میرے ذہن میں آتا ہے کہ’’کیا رمضان، عید اور بقرعید کے مواقع سے ہماری مالی مدد، ان کے مسائل کا پوراحل ہوسکتی ہے؟  اس معمولی مالی مدد سے اس کا پورے سال کا گزارا بآسانی ہوجائے گا؟ کیا ان کو شوہر کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا دنیا کی کوئی نعمت شوہر کا بدل ہوسکتی ہے؟‘‘جواب یہی ہوگا، نہیں اور ہرگز نہیں۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اسلام میں دوسری شادی کی اجازت، مرد کی عیاشی کے لئے نہیں ؛ بلکہ عورت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہے۔ ایک عورت جس کا کوئی سہارا نہیں ہے، اس کو شادی سے سہارا مل جائے۔ مرد کے لئے تو جو کچھ پہلی عورت کے پاس ہے  وہی تو دوسری کے پاس بھی ہے۔ اس کو کوئی نئی چیز نہیں ملنے والی؛ لیکن ایک عورت کو زندگی کا سہارا مل جائے گا۔ ان مجبور خواتین کے کھانے پینے، کپڑے لتے، رہنے سہنے اور روز مرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ اپنی جان پر کھیل کر، ا ن کی حفاظت کرنے والا مل جائے گا۔ ان کو پاکدامن رکھنے میں معاون ہوگا۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ کچھ خواہش کے اندھے اور دین سے دور لوگ، ایک مرد کو اس بات کی تو اجازت دیتے ہیں کہ وہ جتنی عورتوں سے چاہے گرل فرینڈس کے نام پر جنسی تعلق بنالے اور ان کی عزت سے کھیلے؛ لیکن دوسری شادی کرکے ان عورتوں کے پاکیزہ زندگی کا سہارا بننے کی اجازت نہیں دیتے۔

آج ہر ملک میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ پھر ایک سے زیادہ شادی کی اجازت نا دینا، عورتوں پر بہت بڑا ظلم ہے اور مردوں کو ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کرنے کا موقعہ دینا ہے۔ وہ صرف ان کے جسموں سے کھیل کر، انھیں بے عزتی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں لاکھوں بچیاں پیدا ہونے سے پہلے مار دی جاتی ہیں۔ ان تمام مظالم کے سد بات کے لیے  اللہ تعالی نے مردوں کوانصاف کرنے کی سخت تاکید کے ساتھ، ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالی نے قوم کے ذمہ داروں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان عورتوں کی فوری شادی کرادیں جو بیوہ ہوچکی ہیں یا پھر اب تک شادی نہ کی ہوں۔

 اللہ تعالی فرماتے ہیں : ’’اور جو تم میں بیوہ ہیں یا غیر شادی شدہ ہیں ان کی شادی کردو۔ ‘‘ (سورہ نور آیت ۳۲)

آپ ﷺ کسی غیر شادی شدہ کو دیکھتے تو شادی کی ترغیب دیتے اور تاکید فرماتے تھے۔ حضرت شدادؓ بن اوس کی بیوی کا انتقال ہوا، وہ بھی کافی بوڑھے ہوگئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ میری جلدی سے شادی کرادو؛ کیوں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں اس حال میں نا مروں کہ میں غیر شادی شدہ ہوں۔

حضرت ابوذ رؓؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:  ’’ہمارا طریقہ نکاح کرنا ہے، تم میں بدترین لوگ وہ ہیں جو بے نکاح ہیں۔ تم میں بدترموت مرنے والے بے نکاحی لوگ ہیں۔ ‘‘(مصنف عبد الرزاق)

اس آیت قرآنی اور احادیث شریفہ کی روشنی میں ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر میں کوئی بے نکاحی عورت ہو؛تو پہلی فرصت میں اس کی شادی کی فکر کرے۔ بحیثیت  افراد معاشرہ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم شادی کے عمل کو آسان کریں۔ ہم فضول رسم ورواج اور اسراف سے اپنے کو بچائیں۔ یقینا اللہ تعالی کا حکم ماننے میں ہماری اور تمام انسانوں کی بھلائی ہے۔ پھر کیوں ہم کیوں چند  لوگوں کے ڈر سے اللہ کو ناراض کریں۔  ان حالات وواقعات کے پیش نظر ہماری رائے یہ ہے کہ ہم میں سے جو شخص ایک سے زیادہ بیوی کا خرچ اٹھا سکتے ہے، اسے چاہئے کہ وہ سماج کے اس بندھن کو توڑے اور دوسرا نکاح کرکے، بے سہارا عورتوں پر رحم کرے۔ اگر اللہ نے آپ کو استطاعت دی ہے؛ توبہت سی غریب بچیاں اور بیوہ عورتیں آپ کا سہارا چاہتی ہیں۔ اگر آپ بے سہار کو سہارا دینے کی نیت سے شادی کریں ؛ تو یقینا یہ آپ کے لیے باعث ثواب ہوگا اوریقینا ان بے سہارا خواتین کی دعائیں آپ کے لئے قرب الہی کا ذریعہ بنیں گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    آج کل بہت تواتر سے یہ بات کہی جارہی ہےکہ اسلامی۔سماجی حوالہ جات سے دوسری شادی فرض عین ہے۔۔گویا دوسری شادی نہ ہوگئی ،اسلام کا چھٹا رکن ہو گیا۔
    جو ایک بات بہت زور ڈال کر کہی اور سمجھائی جا رہی ہے وہ ہے کہ "اس سے معاشرے میں بے راہ روی پہ قابو پایا جائے گا اور جو بیٹیاں ابھی تک والدین کی دہلیز پر بیٹھی بڑھاپے کی حدود کو چھو رہی ہیں وہ بھی شادی شدہ کا درجہ پا سکیں گی مزید بر آں مطلقہ اور بیواؤں کی خبر گیری بھی اسی صورت میں ممکن ہے ”
    فرض کر لیتے ہیں کہ یہ سب حقائق درست ٬مان لیتے ہیں کہ ان کے بغیر معاشرتی برائیوں پر قابو نہیں پایا جا سکتا تو میرا سوال ان حضرات سے یہ ہے کہ :
    "جناب اگر آپ کوثواب کمانا ہے تو آپ پہلی شادی سے بھی کما سکتے ہیں ۔۔پہلی شادی کے لیے آپ کسی بیوہ ٬مطلقہ یا بڑی عمر کی عورت کو منتخب کیوں نہیں کرتے؟پہلی شادی ہمیشہ بیس اکیس سال کی نوجوان دوشیزہ سے ہی کیوں کرنی ہوتی ہے؟؟ہمارے معاشرے میں بہت سی بیٹیاں سماج کی ریتی رواج کی بھینٹ چڑھ کر اپنے ہاتھ پیلے ہونے کا خواب سجائے والدین کی دہلیز پر بیٹھی اپنی جوانی کھو دیتی ہیں اس وقت آپ جیسے ثواب کہ شوقین حضرات آگے بڑھ کر ان کا سہارا کیوں نہیں بنتے؟؟تب وہ بیٹیاں آپ کے گھر والوں کی پسند پہ پوری کیوں نہیں اترتیں؟؟آپ کے گھر والوں کو ہمیشہ چاند سی بہو کی خواہش ہی کیوں ہوتی ہے؟کیا وہ بیٹیاں کسی کے گھر کا چاند نہیں ہوتیں؟کیا ان کی آنکھیں کوئی خواب نہیں سجاتیں؟؟کیا وہ ہر رات سپنوں کی دہلیز پہ بیٹھ کے اپنے خوابوں کےشہزادے کا انتظار نہیں کرتیں؟؟
    تو محترم !جب آپ انہیں اپنی پہلی بیوی کے طور پر منتخب کرنا پسند نہیں کیا تو دوسری بیوی کہ طور پہ وہ آپ کی پسند کیسے بن گئیں؟؟یہ ثواب کا حصول ہے یا پہلی بیوی سے جان چھڑانے کا بہانہ؟
    دوسری شادی کہ لیے اسلام کی چار بیویوں کےاحکام یاد آجاتے ہیں لیکن پہلی بیوی کے لیے "چھانٹی ” کرتے ہوئے انبیاء اور اصحاب کی مثالیں کیوں بھول جاتے ہیں؟
    خدارا آپ کودوسری شادی کرنی ہے، کریں۔ بھلے ہی چار کریں لیکن اپنی خواہشات کو ثواب وعذاب کے پردوں میں نہ چھپائیں ۔یہ ثواب نہیں ہے یہ صرف نفسانی خواہشات پوری کرنےکے ذرائع ہیں اور کچھ نہیں۔
    چنانچہ اس گناہ و ثواب کے چکروں میں نہ خود الجھیں نہ معاشرے کو الجھائیں۔۔اپنا قبلہ درست کریں معاشرہ خود سیدھا ہو جائے گا
    جناب
    آپ اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
    ہم کہیں گے تو شکایت ہوگی

تبصرے بند ہیں۔