افتخار راغبؔ
اچھے دنوں کے خواب دکھانے سے ہم رہے
بھکتوں کو بے وقوف بنانے سے ہم رہے
…
سیوک ہیں سارے ملک کے فرصت کہاں ہمیں
بیوہ کو اپنی گھر بھی بلانے سے ہم رہے
…
یوں گھومنے کا شوق ہوا ہے یہاں وہاں
اپنے وطن میں منھ بھی دکھانے سے ہم رہے
…
کالج کا منھ ہی دیکھے نہ اسکول ہی گئے
پھر بھی نہ باز سب کو پڑھانے سے ہم رہے
…
اتریں گے بار بار ہوائی جہاز سے
سابرمتی میں ناؤ چلانے سے ہم رہے
…
نعرے ہی ٹھوستے رہے ہم ان کے کان میں
بھکتوں کو دیش بھکت بنانے سے ہم رہے
…
سادھو کی طرح جینے کی عادت پڑی ہے یوں
دس لاکھ کا بھی سوٹ جڑھانے سے ہم رہے
…
جو جل رہے ہیں ان میں ہی ہم ڈالٹے ہیں تیل
بجھتے ہوئے چراغ جلانے سے ہم رہے
…
بھاشن سے پیٹ بھرتا تو مرتا نہ ایک شخص
کجھ ماسوا اب ان کو کھلانے سے ہم رہے
…
ہم ہیں جہاں وہیں پہ بہت خوش ہیں دوستو
جاپان جاکے ڈھول بجانے سے ہم رہے
…
ڈر ہے کہ کوئی چور نہ کہنے لگے ہمیں
ان کی گلی میں آنکھ چرانے سے ہم رہے
…
سیوک تو بن گئے پہ ہمیں تجربہ نہ تھا
"اب ڈوبنے سے تم کو بچانے سے ہم رہے”
…
راغبؔ ہے ہم کو فکر سوا سو کڑوڑ کی
گو اپنا ایک گھر بھی بسانے سے ہم رہے
تبصرے بند ہیں۔