شگفتہ غزل

افتخار راغبؔ

اچھے دنوں کے خواب دکھانے سے ہم رہے

بھکتوں کو بے وقوف بنانے سے ہم رہے

سیوک ہیں سارے ملک کے فرصت کہاں ہمیں

بیوہ کو اپنی گھر بھی بلانے سے ہم رہے

یوں گھومنے کا شوق ہوا ہے یہاں وہاں

اپنے وطن میں منھ بھی دکھانے سے ہم رہے

کالج کا منھ ہی دیکھے نہ اسکول ہی گئے

پھر بھی نہ باز سب کو پڑھانے سے ہم رہے

اتریں گے بار بار ہوائی جہاز سے

سابرمتی میں ناؤ چلانے سے ہم رہے

نعرے ہی ٹھوستے رہے ہم ان کے کان میں

بھکتوں کو دیش بھکت بنانے سے ہم رہے

سادھو کی طرح جینے کی عادت پڑی ہے یوں

دس لاکھ کا بھی سوٹ جڑھانے سے ہم رہے

جو جل رہے ہیں ان میں ہی ہم ڈالٹے ہیں تیل

بجھتے ہوئے چراغ جلانے سے ہم رہے

بھاشن سے پیٹ بھرتا تو مرتا نہ ایک شخص

کجھ ماسوا اب ان کو کھلانے سے ہم رہے

ہم ہیں جہاں وہیں پہ بہت خوش ہیں دوستو

جاپان جاکے ڈھول بجانے سے ہم رہے

ڈر ہے کہ کوئی چور نہ کہنے لگے ہمیں

ان کی گلی میں آنکھ چرانے سے ہم رہے

 سیوک تو بن گئے پہ ہمیں تجربہ نہ تھا

"اب ڈوبنے سے تم کو بچانے سے ہم رہے”

 راغبؔ ہے ہم کو فکر سوا سو کڑوڑ کی

گو اپنا ایک گھر بھی بسانے سے ہم رہے

تبصرے بند ہیں۔