افتخار راغبؔ
بزمِ ادب میں چیخنے گانے سے ہم رہے
رکھ کر بھی مال دھوم مچانے سے ہم رہے
…
اس درجہ تھک گئے ہیں کہ بیگم نہ پوچھیے
باہر کسی کے پانو دبانے سے ہم رہے
…
موسم ہے اتنا سرد کہ پانی ہوا ہے برف
ہر ہفتہ اے حکیم نہانے سے ہم رہے
…
اک روز قبل روٹھ کے میکے چلی گئیں
اُن کو منا کے عید منانے سے ہم رہے
…
سالے سے کوئی نوک نہ سالی سے کوئی جھونک
سسرال میں اگرچہ زمانے سے ہم رہے
…
سب کچھ ہے دستیاب سسر جی کا ہو بھلا
محنت سے چار پیسے کمانے سے ہم رہے
…
ہر گھر میں چوکی دار ضرورت سے تھے سوا
ان کی گلی میں اور بہانے سے ہم رہے
…
چوری کی شاعری پہ ہمیں مل رہی ہے داد
اپنا اب ایک شعر سنانے سے ہم رہے
…
ڈر ہے کہ کوئی چور نہ کہنے لگے ہمیں
ان کی گلی میں آنکھ چرانے سے ہم رہے
…
بیگم سے نوک جھونک میں پھٹ ہی گئی قمیص
اس عمر میں تو دوسری لانے سے ہم رہے
…
بے وزن شاعری کی یوں راغب پڑی ہے لت
مصرع جو گر گیا تو اٹھانے سے ہم رہے
تبصرے بند ہیں۔