شگفتہ غزل

افتخار راغبؔ

بزمِ ادب میں چیخنے گانے سے ہم رہے

رکھ کر بھی مال دھوم مچانے سے ہم رہے

اس درجہ تھک گئے ہیں کہ بیگم نہ پوچھیے

باہر کسی کے پانو دبانے سے ہم رہے

موسم ہے اتنا سرد کہ پانی ہوا ہے برف

ہر ہفتہ اے حکیم نہانے سے ہم رہے

اک روز قبل روٹھ کے میکے چلی گئیں

اُن کو منا کے عید منانے سے ہم رہے

سالے سے کوئی نوک نہ سالی سے کوئی جھونک

سسرال میں اگرچہ زمانے سے ہم رہے

 سب کچھ ہے دستیاب سسر جی کا ہو بھلا

محنت سے چار پیسے کمانے سے ہم رہے

ہر گھر میں چوکی دار ضرورت سے تھے سوا

ان کی گلی میں اور بہانے سے ہم رہے

 چوری کی شاعری پہ ہمیں مل رہی ہے داد

اپنا اب ایک شعر سنانے سے ہم رہے

ڈر ہے کہ کوئی چور نہ کہنے لگے ہمیں

ان کی گلی میں آنکھ چرانے سے ہم رہے

بیگم سے نوک جھونک میں پھٹ ہی گئی قمیص

اس عمر میں تو دوسری لانے سے ہم رہے

بے وزن شاعری کی یوں راغب پڑی ہے لت

مصرع جو گر گیا تو اٹھانے سے ہم رہے

تبصرے بند ہیں۔