فتح طیب اردگان اور تیسرا گروہ

سمیہ شیخ

چند روز قبل ترکی میں جناب طیب اردگان کی کامیابی پر ملت کے کی افراد نے خوشیاں منائیں اور کچھ پر کچھ اثر نہ ہوا’ اور تیسرے گروہ کے لوگ کنفیوژن میں مبتلا ہیں۔ اور یہ مخمصہ انہیں آج سے نہیں بلکہ جب سے جناب اردگان صاحب منظر پر نمودار ہوئے ہیں تب سے لاحق ھے۔ جب بھی ہم نے ان کے کسی فعل پر خوشی کا اظہار کیا تو اس تیسرے گروہ نے ناقدری کی اور کہا کہ ان کے داڑھی نہیں ہے’ ان کا لباس غیر اسلامی ہے’ ان کا رہن سہن اسلام سے مختلف نظر آتا ہے۔ اور تو اور ان کی اہلیہ پردے کی پابند نہیں اور بھی کچھ اندرونی مسائل ہیں ممکن ہے اہل فکر اس سے واقف ہوں۔

میں اپنے تفہیم کے سفر کے دوران سورہ یوسف سے گزری۔  مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے اس سورہ کی آیت 76 کی جو تفسیر بیان کی ہے وہ اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے کافی مددگار ہے ویسے تو سارا قرآن ہی تدبر و تفکر کی دعوت دیتا ہے لیکن اس سورے پر جس قدر غور و فکر کیا جائے اسی قدر آپ پر قدرت کے راز افشاء ہوتے چلے جائیں گے ع

 قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں   

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار  

 مولانا کے مطابق اگر آج کوئی ملک بالکلیہ ہمارے اختیار میں ہو اور ہم اس میں اسلامی نظام قائم کرنے کی خالص نیت ہی سے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں’ تب بھی اس کے نظام تمدن’ نظام معاشی’ نظام سیاست اور نظام عدالت و قانون کو بالفعل بدلتے بدلتے برسوں لگ جائیں گے۔ اور کچھ مدت تک ہم کو اپنے انتظام میں بھی سابق قوانین برقرار رکھنے پڑیں گے۔ کیا تاریخ اس بات پر شاہد نہیں ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عرب کے نظام زندگی میں پورا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے نو دس سال لگے تھے ? اس دوران میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی حکومت میں چند سال شراب نوشی ہوتی رہی’ سود لیا اور دیا جاتا رہا’ جاہلیت کا قانون میراث جاری رہا۔ تجارت کی بہت سی فاسد صورتیں عمل می آتی رھیں اور اسلامی قوانین دیوانی و فوجداری بھی اول روز ہی تمام و کمال نافذ نہیں ہوگئے۔

 پس معلوم ہوا کہ کسی ملک کا نظام عملا ایک دن میں نہیں بدلا جاسکتا اور ناہی اسکی خود کی ذات… آپ یہ کیو نہیں دیکھتے کہ وہ بندہ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جہد کر رہا ہے۔ آپکی نگاہیں اسکی خامیوں ہی پر کیوں مرکوز ہوگئیں? ہوسکتا ہے وہ یہ سب حکمت کے تحت  کر رہا ہو۔ ہم یہاں ہندوستان میں سالہا سال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کر رہے ہیں کیا ہم نے ایک بھی  ایسا کام کیا ہے  جو اردگان سے مشابہ ہو حالا کہ وہ بھی دین کے قیام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہیں۔

  بخدا آج پوری دنیا مسلمانوں کے ہاتھ سے عملی طور پر چلی گئی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کہیں پربھی صحیح معنوں میں اللہ کی زمین پر اللہ کا خلیفہ اس کے احکامات کو نافذ کر رہا ہے۔ لیکن آج یہ دیا ٹمٹمایا تو کیا یہ ضروری ہے کہ ہم خود ھی اپنی پھونکوں سے اس کو بجھانے کی کوشش کریں یا اس ایک  چراغ سے دوسرے مدھم چراغوں کو جلا بخشیں….

تبصرے بند ہیں۔