حکیم شکیل احمد شمسی: حیات و خدمات

حکیم شمیم ارشاد اعظمی

حکیم شکیل احمد شمسی رام پور میں 20جولائی 1912 کو پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسبی خواجہ بہاء الدین زکریا ملتانی سے ملتا ہے۔ طب سے آپ کے خاندان کا تعلق کافی قدیم ہے۔ آپ کے دادا حکیم نبی احمد طبیب تھے۔ آپ کے بزرگوں میں حکیم عبد الکریم ، مولوی حکیم عبد الرحیم کا شماررام پور کے مشاہیر اطبا میں ہوتا تھا۔ آپ کے ناناشمس العلما ء حکیم حاجی منور علی محدث(وفات11اپریل 1933) حاذق الملک حکیم عبد المجید خاں دہلوی اور حکیم محمد ابراہیم لکھنؤی کے شاگرد تھے۔

حکیم شکیل احمد شمسی کی شخصیت طب یونانی میں ’مہر وماہ‘ کی تھی۔ ما ہر تعلیم طب، مشہورمعالج، باکمال مصنف، صاحب طرزادیب، کامیاب طبی صحافی ، صاحب ذوق شاعر اور ایک اچھے منتظم تھے۔ وجیہ و شکیل، سنجیدگی فکر، شگفتہ مزاجی، عالی ظرف ، کشادہ ذہنی جیسی خوبیاں ایک ساتھ ان کے اندر موجو دتھیں۔ حکیم شکیل احمد شمسی آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے سینئر نائب صدر اورحکیم عبد الحمید صاحب کے دست راست تھے۔ آزادی کے بعد طبی تحریک کو آگے بڑھانے میں آپ کا خاص حصہ تھا۔

حکیم شکیل احمد شمسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ گلستاں اور بوستاں اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھیں۔ فارسی کی مزید کتابیں مولوی عبد الحکیم خاں جو فارسی علوم کے عبقری تھے، سے حاصل کی۔ گھر میں عربی ، فارسی اور اردو کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے معلومات میں وسعت ، زبان پر عبور، ذہنی ذکاوت، ادبی چاشنی، خیال آفرینی اور مذاق پیدا ہوا۔ 1928 میں عربی درسیات کی تکمیل رام پور کے مشہور ومعروف دینی وعلمی ادارہ ’مدرسہ عالیہ‘ سے فرمائی۔ مدرسہ عالیہ میں مولانا فضل حق رام پوری کے تبحر علمی سے بہت متاثر تھے۔ پنجاب یو نیورسٹی سے عالم، فاضل اور عربی سے بی۔اے کے امتحانات پاس کیے۔ اس کے بعداپنے نانا شمس العلما ء حکیم حاجی منور علی محدث کے ساتھ ڈھاکہ میں دو سال آپ کا قیام رہا۔ یہیں نانا سے آپ نے طب و حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ 1931میں طب کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر نے کے لیے لکھنؤ کاسفر کیا اور تکمیل الطب کالج میں داخلہ لیا۔ یہاں آپ کو شفاء الملک عبد الحمید ، شفاء الملک عبد المعید، اور حکیم حافظ عبد المجید سے استفادہ کا موقع ملا۔

1934میں طب کی فراغت کے بعد رام پور میں مطب شرو ع کیا۔ حکیم وسیم احمداعظمی نے حبیبیہ طبیہ کالج ڈھاکہ میں بھی تدریسی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ مگر1941میں اپنے استاد شفا ء الملک حکیم عبد المعیدکی دعوت پر تکمیل الطب کالج میں استاد کی حیثیت سے آگئے ساتھ ہی آپ کو کالج کے وائس پرنسپل کی بھی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ شفاء الملک حکیم عبد المعید صاحب حکیم شکیل احمدشمسی کو ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’تم فورا ً چلے آؤ، میں (شمسی) حاضر خدمت ہوا تو فر مایا کہ تم کو کالج کی خدمت کر نا ہے اور میرا ہاتھ بٹانا ہے، میں اس کام کے لیے وائس پرنسپل کے فرائض تمہارے سپرد کرتا ہوں، حکم کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ‘‘حکیم شکیل احمد شمسی ایک بلند پایہ معلم اور ایک منجھے ہوئے منتظم تھے۔ کالج کے دفتری امور یا کوئی ٹیکنیکل پریشانی ہوتی تو اپنی فہم و فراست سے اسے حل کرلیتے تھے۔ 1957میں آپ اس کالج کے پرنسپل بنائے گئے۔ 1965میں پرنسپل کے فرائض سے سبکدوش ہوئے۔ پرنسپل شپ سے سبکدوشی کے بعد اسی کالج کے سکریٹری بنائے گئے اور 1974 تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ لکھنؤ کی آب و ہوا اور یہاں کا ماحول اس قدر راس آیا کہ دوسرے مقامات سے کئی اہم پوسٹوں کے لیے دعوت نامے موصول ہوئے مگرذمہ داری قبول نہیں کی۔ ڈاکٹر عبد العلیم صاحب جب علیگڈھ مسلم یو نیورسٹی کے وائس چانسلر تھے تو آپ کو پرنسپل کی حیثیت سے اجمل خاں طبیہ کالج میں بلا نا چاہا مگر آپ نے قبول نہ کیا۔ اسی طرح دہلی میں جب1955 میں کرنل بشیر حسین زیدی جب طبیہ کالج بورڈ ، نئی دہلی کے چیر مین تھے ، آپ کا پرنسپل کے عہدہ پر انتخاب ہو چکا تھا مگر لکھنؤ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔

حکیم شکیل احمد شمسی کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ طبی ذخائر پر آپ کی بڑی گہری نگاہ تھی۔ طب کے ساتھ ساتھ معقولات پر بھی زبر دست قدرت حا صل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کلیاتی مباحث جس کی اصل و اساس فلسفہ پر ہے اس قدر معلوماتی اور نکتہ آفریں لکچر دیتے تھے کہ طلبا مسحور ہو جایا کرتے تھے۔ عربی زبان ہی نہیں بلکہ عربی زبان کی فصاحت و بلاغت اور جاہلی دور کے عربی شعرا کے دواوین پر بھی آپ کی گہری نظر تھی۔ کلیاتی مباحث میں انہی عرب شعرا کے کلام سے استشہاد کیا کرتے تھے۔ وسعت مطالعہ نے آپ کی فکری سطح کو کافی بلند کر دیاتھا۔ آپ کا شمار طبی درسیات کے ماہرین میں سے تھا۔ پیچیدہ سے پیچیدہ عبارات اور مشکل مسائل کو بہت دلنشیں انداز میں بیان کرتے تھے۔ حکیم صاحب کا طریقہ درس بالکل جدا گانہ تھا۔ علم الولادت ، حمیات اور بحران جیسے اہم طبی مضامین آپ سے متعلق تھے۔ علم الولادت آپ کا خاص مضمون تھا۔ آپ کی تصنیف ’کتاب الولادت ‘ کوئی طالب علم پڑھتا جاتا اور آپ بلیک بورڈپر ضروری خاکے بنانے کے ساتھ لکچر دیتے جاتے تھے۔

لکھنے پڑھنے کا شوق آپ کو زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ طبی مضامین اور کبھی کبھی ادبی مضامین بھی سپرد قلم کرتے تھے۔ رسالہ تکمیل الطب برسوں آپ کی زیر ادارت شائع ہوتا رہا۔ اس رسالہ کا شمار طب کے معیاری رسائل میں ہوتا تھا۔ آج بھی اس رسالہ کو مآخذ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ کی طبع زاد ومرتبہ کتابوں میں ’حمیات ‘ ، ’بحران ، ’کتاب الولادت ‘  اور ’طبی کیمیا‘ ہیں۔ آپ نے اپنے سفرنامہ حج کو ’’ ارض حرم ‘‘ کے نام سے لکھاتھا جوشائع ہو چکاہے۔ آپ کا شعری مذاق بہت پاکیزہ اور صاف ستھرا تھا۔ حکیم صاحب کے اشعار نہایت پاکیزہ جذبات کے آئینہ دار ہوا کرتے تھے۔ آپ کا مجموعہ کلام ’ قید حیات و بند غم‘ ادبی سر مایہ میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اعتراف کے نام سے حکیم شکیل احمد شمسی صاحب نے جو مقدمہ لکھا ہے اس کا ایک ایک حرف ادبی شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مجموعہ جنوری 1985 میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔

آپ کا مطب بہت شاندار تھا۔ مطب کا وقت عام روایت سے ہٹ کر تھا۔ آپ کا دولت کدہ لکھنؤ میں حکیم عبد العزیز روڈ ، جھوائی ٹولہ کی نکڑپر ’ شفا محلـ‘ کے نام سے تھا۔ اس مکان میں نیچے مطب قائم کر رکھا تھا۔ تمام ضرریات سے فارغ ہو کر جس میں اخبار بینی حکیم صاحب کاایک اہم شغل تھا۔ ایک ایک خبر پڑھتے اس کے بعد مطب میں حاضر ہوتے۔ امیر و غریب مریض کی حد تک یکساں تھے۔ حکیم شکیل احمد شمسی وقت کے بہت پابند تھے۔ نہ وقت سے پہلے مطب میں آتے اور نہ وقت کے بعد کسی مریض کا معائینہ کرتے گو کوئی منسٹر صاحب ہی کیوں نہ تشریف لائے ہوں۔ علاج ومعالجہ میں زیادہ تر لکھنوی مکتب فکر کی پیروی کرتے لیکن دہلوی مکتب فکر کے اصولوں پر بھی ان کے نسخے ہوتے تھے۔ آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے اجلاس میں کئی کئی روز باہر ہوتے لیکن مریض حکیم صاحب کی حذاقت سے اس قدر متاثر تھے کہ کسی اور حکیم و طبیب کے پاس نہیں جاتے تھے۔ بڑا ٹھسا ہوا مطب کرتے تھے۔ آپ کے معالجاتی فتوحات کو آج بھی لوگ بڑے دل نشین انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک مریض جسے مری ( Oesophagus) کا کینسر تھا ، ٹاٹامیموریل کینسر انسٹی ٹیوٹ ممبئی سے نا امید ہوکر حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حکیم صاحب نے مریض کے اصرار پر چند مصفیات اور کچی ہڑتال2رتی صبح و شام کھلانے کو دیا۔ چند دن پہلے جو مریض پانی تک نہیں پی پاتا تھا، حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اب پانی پی سکتا ہوں۔ چنانچہ حکیم صاحب نے دوا جاری رکھنے کو کہا پھر مریض آیا اور کہنے لگا کہ دلیا کھا سکتا ہوں اسی طرح کچھ دنوں کے بعد مریض روٹی بھی کھانے لگا اور مرض جاتا رہا۔

حکیم شکیل احمد شمسی ایک فعّال اور متحرک قسم کے آدمی تھے۔ جمود و تعطل آپ کے نزدیک کفر میں داخل تھا۔ شروع سے ہی طبی تحریکات سے وابستہ تھے۔ لکھنؤ میں انجمن طبیہ قائم ہوئی تو اس سے وابستہ ہوئے اور جب چھوٹی چھوٹی طبی انجمنوں کو ختم کر کے اطبا ایک متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس سے وابستہ ہوئے تو حکیم شکیل احمد شمسی اس کے نہایت ہی سر گرم رکن ثا بت ہوئے۔ آپ نے یونانی طبی کانفرنس، اتر پردیش کے صدر اور آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس دہلی کی مرکزی باڈی میں نائب صدر رہتے ہوئے طب کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ اگر یہ کہاجائے کہ آپ آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے اہم ستون تھے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ خرابی صحت (عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے باوصف )اورمطب کی شدید مصروفیات کے باوجود کانفرنس کی میٹنگ اور اجلاس میں ضرور شریک ہوتے تھے۔ طب یو نانی کے بے لوث خادم تھے۔ طب یو نانی کے مسائل اور گتھیوں کوسلجھانے میں صدق دلی اور پوری دل جمعی کا مظاہرہ فر ماتے تھے۔ 1970 میں سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن(CCIM) کے قیام کے بعد آپ اس کی پہلی کونسل کے ممبر ہوئے۔ سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یو نانی میڈیسن کی مختلف کمیٹیوں کے ممبر اور اہم رکن کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ اور آپ کی آرا ء اور خیالات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ کونسل ہی کے تحت جاری لٹریری ریسرچ یونٹ لکھنؤ کے پروجکٹ آفیسر کی حیثیت سے بھی آپ کی خدمات کافی اہم ہیں۔ اس اہم کام کی ذمہ داری آپ نے 1971سے 1985 تک انجام دی ہے۔

11نومبر1985 کو دل کادورہ پڑنے پرفوراً لکھنؤ ہی میں ’لاری‘ کارڈیولوجی سنٹر میں داخل کرایا گیا ، لیکن کسے معلوم تھا کہ وقت پورا ہو چکا ہے۔ 12؍نومبر کو3بجے سہ پہر کو اللہ کو پیارے ہوگئے۔ 13؍نومبر کوشفا محل کے قریب نماز جنازہ اداکی گئی اور قبرستان عیش باغ میں سپرد خاک کیے گئے۔

تبصرے بند ہیں۔