لڑکیوں کی حفاظت سے متعلق مسائل آج بھی سنگین ہیں

ظفر مدنی

(دہلی)

ملک کی دارالسلطنت اور ہندوستان کا دل کہی جانی والی دہلی کی ایک اپنی ہی تاریخ ہے، اسی دہلی کیلئے مشہور ہے یہ کئی بار اُجڑی اور کئی بار آباد ہوئی۔ سابقہ حکومتوں، راجاؤں، مہاراجاؤں نے بھی دہلی سے ہی تقریباً اپنا راج کیا ہے۔ یہاں پر ہندوستانی تاریخ کے مطابق کئی فسادات ہوئے اور چھوٹی بڑی بیٹل ہوئیں، لیکن با وجود ا س کہ دل والوں کا یہ شہر دہلی آج بھی تقریبا 32,066,000کی آبادی کے ساتھ آباد ہے۔ راجدھانی دہلی ایک ایسا مقام ہے جہاں پر مختلف ریاستوں سے لوگ پڑھائی یا روزگار کے لئے بڑی تعداد میں یہاں پر آتے ہیں لیکن باوجود اس کہ انتظامیہ کے سخت احکامات کے باوجودآج بھی خواتین دہلی میں اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں، جبکہ جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی جرائم پیشہ لوگوں کے حوصلے بلند ہیں۔ وہیں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی خواتین کے لئے ایک غیر محفوظ مقام ہے۔ نئی رپورٹ کے مطابق 2021 میں خواتین کے خلاف 13892 زیادتی کے معاملے درج کیے گئے، جس کی تعداد2020 میں 9782 تھی۔ تاہم اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انتظامیہ ان جرائم پیشہ لوگوں پرلگام لگانے میں شاید ناکام ہے۔ جس کی وجہ سے یہ گراف روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جبکہ حق تو یہ ہے کہ ان سب معاملات کو ہم اپنی آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں اور ایسا ہی کچھ حال دہلی کی بسوں میں سفر کرنے والی خواتین کے ساتھ ہے، جنہیں ہر روز کسی نا کسی طرح کی حراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں پاتی ہیں۔ جبکہ بسوں میں چند سیٹس خواتین کے لئے مخصوص ہوتی ہیں اور پہچان کے لئے ان کے اوپر لکھا ہوا بھی ہوتا ہے کہ یہ سیٹس خواتین کے لئے مخصوص ہیں۔

لیکن آئے دن ہم دیکھتے ہیں ان سیٹوں پر مرد حضرات بیٹھ جاتے ہیں اور جب انہیں اٹھنے کا کہا جائے تو آگے سے بحث شروع کر لیتے ہیں اور یہ سب سکیورٹی اہلکاروں کے سامنے ہوتا ہے اور وہ اسے نظر انداز کرتے دیتے ہیں۔ وہیں اس کے متعلق جب راقم نے شروتی راٹھور جو دہلی یونیورسٹی کے طالبہ ہیں سے بات کی توانہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بتائے کہ وہ روزانہ گھر سے کالج بس سے آیا جایا کرتی ہیں اور جب کبھی بس بھری ہوتی ہے تو کچھ لوگ پیچھے نہیں ہٹتے اور جان بوجھ کر چھونے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان سے پوچھا جائے ایسا کیوں کیا تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے غلطی سے ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ سب لوگ ایسے نہیں ہوتے مگر اکثریت انہی لوگوں کی ہوتی ہے کبھی کھبی غلطی سے بھی کسی سے ہو جاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ چند ہفتے پہلے وہ اور ان کی ایک دوست بس سے سفر کر رہی تھی کہ بس میں چڑھنے کے ساتھ ہی ایک آدمی نے گھورنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے پہلے تو وہ ڈر گئی بعد میں جب اس نے مجھے یہ بتایا کہ یہ آدمی مجھے گھورے جا رہا ہے اور جب میں نے اس آدمی کو کہا کہ ایسا کیوں کر رہے ہواس کا یہی جواب تھا کہ میں نے کچھ نہیں کیا، پھر وہ اگلے اسٹاپ پر اتر گیا۔ دہلی کی بسوں میں سفر کرنے والے مسافر ہی نہیں بلکہ خود ملازمین بھی ہراسمنٹ کا شکار ہوئے ہیں اور اسی طرح کا ایک معاملہ چند مہینے پہلے دیکھنے کو ملاجب ایک ڈی ٹی سی مارشل خاتون نے خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب اس کی وجہ منظر عام پر آئی تو پتہ چلا کہ اس کو اسی بس کا کنڈکٹڑ ہراس کیا کرتا تھا اور جب اس نے اس کی شکایت محکمہ کے اعلی افسران سے کی تو، انہوں نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ محکمہ مینیجر اور دیگرا سٹاف کی طرف سے بھی اسے ہراساں کیا جانے لگا۔ اس نے دیگر بتایا کہ جب اس نے اسٹاف کی شکایت پولیس سے کی تو محکمہ مینیجر اور اسٹاف کی طرف سے کمپرومائز کرنے کا دباؤ بنایا جانے لگا اور اسے نوکری سے نکال دیا گیا اور بعد میں ایس ڈی ایم کے آرڈر پر اسے واپس جوائاین کرنے دیا گیا۔

حالانکہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس نارتھ ویسٹ دہلی اوشا رنگنانی نے اس معاملہ میں انتظامیہ کی طرف سے کاروائی کا بھروسہ دیا۔ وہیں اس سلسلہ میں ایک خاتون مارشل 26 سالہ سمی جوشی کہتی ہیں کہ 2019 سے وہ اتم نگرسے بدرپور روٹ پر اپنے آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران ہر خواتین سواری پر نظر بنائے رکھتی ہیں اور جب بھی تھوڑی سی بھی پریشانی کسی کو ہوتی ہے تو میں جانچ لیتی ہوں اور انہیں سیٹ بدلنے کو کہتی ہوں۔ لیکن اس کے باوجود وہ خود کو بس میں غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ کچھ لوگ ان پر کمنٹ پاس کرتے ہیں۔ لیکن وہ بہت ہی نرمی سے اس کا جواب دیتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی اسٹاف کی طرف سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ اسی طرح ایک اور خاتون بس مارشل نشا دیوی کہتی ہیں کہ میں رات کی بجائے صبح کی شفٹ کو ترجیح دیتی ہوں کیونکہ وہ رات کو خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ اس متعلق پائل ٹھاکر، جو دہلی یونیورسٹی کی طالبہ ہیں، کہتی ہیں کہ اسے بھی روزانہ گھر سے کالج بس میں ہی آنا پڑتا ہے۔ بس میں چڑھتے وقت جان بوجھ کر دھکامارنا اور چھونے کی کوشش کرنا ان سب کا انہیں آئے دن سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ اگر کسی کو کچھ بولے بھی تو آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ غلطی سے ہو گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ہے۔ کئی بار ان کا پیچھا کرتے ہوئے کچھ لوگ گھر تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایکطرف خواتین کی حفاظت کے لیے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں اور دوسری طرف جب یہ سب دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے تو ان جھوٹے دعوؤں کی حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔

وہیں ایک خبرکے مطابق دہلی کمیشن فار وومن کا کہنا تھا کہ آٹھ سال کی بچی سے لے کر 80سال کی بزرگ بھی محفوظ نہیں ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال اس میں 40فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دہلی کمیشن فار وومن 24 گھنٹے کام کر رہی ہے تاکہ کسی کو ہراساں نہ کیا جائے۔ گذشتہ سال 30 آگست کو کمشن نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ خواتین کی حفاظت کے لیے سخت اقدام اٹھائے جائیں۔ اسلئے جہاں حکومت کو اس کیلئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے وہیں، سماج کو بھی چاہئے کہ وہ خواتین کے ساتھ بہتر سلوک کریں اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ (چرخہ فیچرس)

تبصرے بند ہیں۔