عمران کی تاج پوشی سے پہلے ہی مخالف میدان میں

حفیظ نعمانی

ہندوستان اور پاکستان میں 71  سال کے بعد بھی بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ ہندوستان میں بھی ہر الیکشن کے بعد حکمراں پارٹی پر بے ایمانی کرنے اور الیکشن کمیشن پر نظر انداز کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے بلکہ الیکشن کمیشن پر حکمراں پارٹی کی مدد کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ اور یہی پاکستان میں ہوتا ہے۔ پانچ سال پہلے جب الیکشن ہوئے تھے تو نواز شریف پر الزام تھا کہ انہوں نے ووٹ ڈلوانے میں بھی بے ایمانی کرائی اور ووٹ شماری میں بھی۔ اب نواز شریف اور زرداری کی پارٹی عمران خان پر الزام لگا رہی ہے کہ فوج نے ان کے لئے بے ایمانی کرائی اور عمران خان جو پانچوں سیٹوں پر جیتے ہیں ان کے بارے میں مخالفوں کا کہنا ہے کہ ان کے ووٹوں کی ہی گنتی دوبارہ کرالی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آجائے گا۔

عمران خان کی اور ان کے حمایتیوں کی اگر ان سیٹوں کو نکال دیا جائے جن پر دوبارہ الیکشن ہوگا تو ان کے پاس صرف 109  ممبر رہ جاتے ہیں۔ اگر نواز شریف کے 64  اور زرداری کے 43  جوڑے جائیں تو 109  وہ بھی ہوجاتے ہیں اب مسئلہ ان آزاد ممبروں کا اور چھوٹی پارٹیوں کا رہ جاتا ہے جو ہوا کا رُخ دیکھ کر یا سودا کرکے فیصلہ کریں گی۔ عمران خان اور ان کے ساتھی جو ایک سے زیادہ سیٹوں پر جیتے ہیں ان 7  کا جب الیکشن ہوگا تو ضروری نہیں کہ وہ پھر عمران خان یا ان کے دوستوں کو ہی ووٹ دیں۔ حاصل یہ ہے کہ اگر عمران خان حکومت بنا لیتے ہیں تو ہر وقت عدم اعتماد کی تلوار ان کے اوپر لٹکی رہے گی۔ اور حزب مخالف میں منجھے ہوئے دشمن ہوں گے جو عمران خان کو من مانی نہیں کرنے دیں گے۔

پاکستان کی پارلیمنٹ میں اب تک صرف ایک عالم دین شرعی پوشاک عمامہ لمبا کرتہ اور پوری داڑھی والے جو نظر آتے تھے وہ جمعیۃ علماء اسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن ہوتے تھے اس بار وہ ہار گئے ہیں۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو اور دیندار ممبروں کو ملاکر ایک دینی حلقہ بنا لیا تھا ان سب کا فیصلہ ہے کہ کامیاب امیدواروں کو حلف نہیں اٹھانا چاہئے۔

بلاول زرداری کی پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے الزام لگایا ہے کہ عمران خان کو جتانے کے لئے حلقوں میں صرف پنکچر ہی نہیں کئے گئے بلکہ ٹائر ہی پھاڑ ڈالے گئے وہ بھی الزام لگا رہے ہیں کہ ہر حلقہ میں ووٹ شماری میں بدعنوانی کی گئی ہے۔ عمران خان اس سے پہلے ایک الیکشن میں سات حلقوں سے الیکشن لڑچکے ہیں۔ ہندوستان میں جب کبھی ذکر آتا ہے تو زیادہ سے زیادہ دو سیٹوں پر لڑنے کا آتا ہے جس کے بارے میں ہم نے ہی لکھا تھا کہ الیکشن کمیشن کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ جب دونوں حلقوں سے جیتنے والا ایک حلقے سے استعفیٰ دے تو دوبارہ وہاں ہونے والے الیکشن کا پورا خرچ اس سے لیا جائے۔ حیرت ہے کہ پاکستان میں کوئی سات یا پانچ حلقوں سے بیک وقت الیکشن لڑے؟

پاکستان کے الیکشن کو پانچ دن ہوچکے ہیں مہاجروں کی پارٹی ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ حزب مخالف کے لیڈر چھوٹی چھوٹی پارٹیوں اور عمران خان کے مخالفوں سے مل کر اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کیوں نہ وہ حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کریں؟ یہ حزب مخالف کی بدقسمتی ہے کہ نواز شریف نہ صرف جیل میں ہیں بلکہ اسپتال میں ہیں اور دل کا مسئلہ ہے۔ ان کی دلاری بیٹی مریم بھی جیل میں ہیں۔ اور بیگم نواز شریف لندن میں ہیں گویا ذہنی طور پر وہ مفلوج ہیں اور آصف زرداری نے اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اپنے کو اتنا چھوٹا کرلیا ہے کہ وہ یا تو بے نظیر کے شوہر کی حیثیت پر سمٹ کر رہ گئے ہیں یا بلاول بھٹو زرداری کے باپ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اگر نواز شریف، مریم نواز اور بلاول زرداری ایک جگہ ہوتے تو نتیجہ بھی ہوسکتا ہے یہ نہ ہوتا اور حکومت بھی عمران خان اتنی آسانی سے نہ بنا پاتے۔

عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں اعلان کیا تھا کہ مجھے وزیراعظم ہائوس کے شاہانہ ماحول میںجاتے شرم آئے گی۔ میں منسٹر انکلیو کے کسی بنگلہ میں جس میں ان کے وزیر رائے دیں گے اپنی رہائش رکھوں گا۔ پاکستان کے وزیراعظم ہائوس کا سالانہ خرچ ساٹھ کروڑ اٹھانوے لاکھ ہے۔ ایک ایسے ملک کا سربراہ جس کی آدھی سے زیادہ آبادی آج بھی جاہل ہو اور وہ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہی ہو اس کے وزیراعظم کی صرف رہائش پر 61  کروڑ روپئے سال خرچ ہوں اور وہ ملک اپنے کو مملکت اسلام خداداد کہے تو کیوں نہ اس کا وہ حشر ہوگا جو دنیا کی نظر میں ہورہا ہے۔

یاد ہوگا کہ نواز شریف نے بھی وزیراعظم ہائوس کو ایک بار یونیورسٹی بنانے اور خود چھوٹے مکان میں رہنے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کی سکیورٹی کا مسئلہ کھڑا کردیا گیا اور 61  کروڑ میں سے زیادہ حصہ خود کھانے والوں نے انہیں ایسا ڈرایا کہ انہوں نے فیصلہ بدل دیا۔ عمران خان کو بھی سکیورٹی کا ہو ّا دکھایا جائے گا اگر وہ بھی باتوں میں آگئے تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا جو نواز شریف کا یا زرداری کا ہوا۔

ہمارا ایمان ہے کہ چھپی ہوئی بات دیر سویر وہاں پہونچ جاتی ہے جہاں کے لئے لکھی جاتی ہے اور ہمارے مضمون تو کئی طرف سے پاکستان جاتے اور پڑھے جاتے ہیں۔ ہمیں عمران خان سے یہ کہنا ہے کہ ہندوستان سے اچھے تعلقات ان کے لئے بھی بہتر ہیں اور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی۔ وہ اگر تعلقات اپنی مرضی کے مطابق ناکام بھی ہوجائیں تو حافظ سعید، اظہر مسعود اور صلاح الدین سے یہ ضرور کہہ دیں کہ پاکستان کے نوجوانوں کو جنت میں بھیجنے کے نام پر جہنم میں بھیجنا بند کردو۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ کشمیر پولیس میں جو مسلمان نوکر ہوجاتا ہے وہ جب چھٹی میں اپنے گھر آتا ہے تو اسے کسی بہانے سے بلاکر بھون دیا جاتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فوج اور پولیس میں ان کی بھرتی بند تھی اب ایک کھڑکی کھلی ہے تو مسلمان جانے سے کتراتے ہیں۔ ان بہروپیوں نے مولویوں کا حلیہ بنا لیا ہے اور نام کے مدرسے قائم کرلئے ہیں جس میں صرف جنت میں جانے اور حوروں کا خواب دکھایا جاتا ہے اور بیکار جاہل رائفل لے کر سرحد پر آجاتے ہیں اور کتے کی موت مرجاتے ہیں۔ اس سلسلے کو بند کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔