مسلم آبادی16فیصد، پھر 5 فیصد ریزرویشن کی مانگ کیوں؟

شہاب مرزا

ان دنوں مہاراشٹر میں ریزرویشن کا جنون سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ پچھلے سال امن وامان سے جلوس نکالنے والے مراٹھا سماج اب تشددپر آمادہ ہے۔ مراٹھا کرانتی مورچے کے نام سے مراٹھوں نے مہاراشٹر میں ۵۴ پر امن جلوس کئے جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شامل ہوئے تھے۔ تعلیم وروزگار میں تحفظات کے مطالبے کے لئے شروع ہوا جلوس اب تک ۶ لوگوں کی جان لے کر بھی ختم نہی ں ہوا۔ ۱۱؍کروڑ آبادی میں ۳۱فیصد مراٹھے مہاراشٹر میں مقیم ہے۔ پر امن جلوس سے تشدد تک کا سفر کافی لمبار ہا۔ لیکن اس دور ان حکومت نے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا۔ جس کی وجہ کسئی لوگوں نے اپنے سماج کے لئے اپنی جانیں دیدیں۔ آپ کو بتاتے چلے مسلم اور مراٹھا ریزرویشن کی مانگ ساتھ اٹھی تھی شروعات میں مسلم او رمراٹھا سماج ساتھ چل پڑے تھے اور مراٹھا۔ مسلم دونوں سماج کے لئے ساتھ ریزرویشن کی مانگ کی تھی مراٹھا سماج مہاراشٹر میں کافی مضبوط مانا جاتا ہے۔

۱۹۶۰ ؁ء میں مہاراشٹر بنا جب سے اب تک کوئی بھی سیاسی جماعت مراٹھوں کو ساتھ لئے بغیر سرکار نہیں بناسکی۔ اب بات کرتے ہیں مسلم ریزرویشن کی۔ مہاراشٹر میں مسلمان او رمراٹھا دونوں کے ریزرویشن کی آواز اٹھی تھی پھر بیچ میں مسلم قائدین کی بے حسی اور الگ الگ سیاسی جماعتوں میں تقسیم سے وہ مسلمانو ں کی آواز نہیں بن سکے۔ آدھے قابض جماعت میں اور آدھے مخالف پارٹی مسلمانو ں کی بدحالی کی اہم وجہ بنی۔ مراٹھا بھی سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہے لیکن اپنے حق کے لئے سڑکوں پر اترتے ہیں۔ اور ان کے قائدین ان کی سیاسی جماعت سے زیادہ ان کے سماج کے لئے متحرک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر حکومت نے مراٹھوں کو ریزرویشن دینے کے مطالبے کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ لیکن اس میں مسلم ریزرویشن کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ اب انتخابات قریب ہے اس لئے ہر سیاسی جماعت مراٹھوں کے ساتھ مسلم ریزرویشن کے لئے بھی اپنی دکانیں کھولنے کا سلسلہ شروع کرنے والے ہیں یا شروع ہوچکی ہیں۔ حالانکہ سچر کمیٹی رنگناتھ مشرا کمیٹی او رمحمود الرحمن کمیٹی کی رپورٹوں میں مسلمانوں کی حالت زار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رپورٹ کے حوالے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسکولوں کالجس اور یونیورسٹیوں میں بھی مسلمانوں کی تعداد انگلیوں پر گننے کے لائق ہے۔ رپورٹ میں بحیثیت مجموعی مسلمان اس ملک میں سب سے پسماندہ ہے۔ نہ تو معاشی طور پر مضبوط ہے اور نہ سماجی طور پر پھر مسلمانوں کو مراٹھوں سے کم ۵ فیصد ریزوریشن کا لالی پاپ کہاں سے آگیا۔ ۔ ۔ ۔ ! کانگریس حکومت نے ۲۰۱۴ میں جاتے وقت مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی کوشش کی تھی۔ وہ بھی صرف تعلیم اور ملازمت میں معاملہ کورٹ میں پہنچا لیکن اب تک وہ ریزرویشن مسلمانوں سے پرایا ہے۔ ۱۹۵۰ کے آرڈر کے پیرا۳ میں مسٹرنہرو کی قیادت والی حکومت نے ترمیم کرکے ریزرویشن کی سہولت پانے ہندو یا سکھ ہونا لازم کردیا تھا۔ لیکن افسوس خود کو سیکولرازم کی پجاری کہنے والی ملک کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی سیاسی پارٹی نے آئین ہند کے خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانو ں دلتوں اور عیسائیوں کو ریزرویشن سے محروم رکھا۔ ہم آئین میں اس بات کو پڑھتے ہیں کہ مذہب وملت علاقہ ذات پات رنگ ونسل میں تفریق نہیں کرینگے پھر ہمیں اسطرح مذہب کے نام پر اور آبادی کے لحاظ سے بانٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ اب پھر یہ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کا مطالبہ کرینگی لیکن وہ بھی پانچ۵ فیصد کا۔

۵ فیصد ریزرویشن کا ہندسہ ہمارا نہیں ہے۔ جس طرح سچر کمیٹی کی رپورٹ نے مسلمانوں کو پسماندہ قرار دیا اسی لحاظ سے مسلمانوں کے نام پر ریزرویشن ملنا چاہئے سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہیں بھی اس طرح نہیں لکھا گیا ہے کہ مسلمانو ں میں یہ ذات پسماندہ ہے۔ یا یہ فرقہ پسماندہ ہے۔ سچر کمیٹی کے لحاظ سے مسلمانوں کو ۸ سے ۱۴فیصد تک ریزرویشن ملنا چاہئے سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق ملک کے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر بتایا گیا۔ اگر یہی عوامی نمائندے یا سیاسی جماعتوں کے قائدین مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں میں نمائندگی کرتے تو مسلمانو ں کا سرکاری نوکریوں  میں فیصددیڑھ فیصد نہیں رہا ہے یہ تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے اس کی ذمہ داری ان سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جو کوئی مرتبہ مسلمانوں کے ووٹوں سے اقتدار کا مزہ لوٹ چکے ہیں اور یہ لوگ چاہتے تو مسلمانوں کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرسکتے تھے لیکن نہیں کیا گیا اور اب تو موقع بن کر آیا ہوا ہے بھاجپا سے ڈرائو اور مسلم ووٹ حاصل کرو۔

مسلمان ملک کے کئی حلقوں میں مضبوط ہے۔ لیکن پھر بھی وہاں اپنی نمائندگی قائم نہیں کرپاتے۔ اور نمائندگی قائم بھی کردے تو اپنے سیاسی آقائوں کی اجازت کے بنا مسلمانوں کی آواز نہیں بن سکتے۔ لیکن مسلمانوں میں اب مطالباتی مظاہروں میں بیداری ہوئی ہے لیکن حکومتیں کوئی خاص اسکا نوٹ نہیں لیتی ہے اور نا کوئی قوی اعلان کرتی ہے بات یہ کہنی تھی دلاسہ تسلی سے قوم میں سدھار نہیں آئینگے صرف سیاسی فائدے کے لئے آپ کا استعمال ہورہا ہے تبدیلی آپ ہی سے آئینگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔