حج: عالمگیر اجتماعیت کا مظہر

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

جب عالم کی فضاء موسم بہار حج سے پرکیف و معطر ہوجاتی ہے تو ان دو عظیم المرتبت انبیاء کرام (یعنی حضرت سیدنا ابراہیمؑ اور حضرت سیدنا اسماعیلؑ ) کے جذبہ ایثار و قرانی کی یاد شدت سے آنے لگتی ہے جن کو بنی نوع انسانی بالترتیب ’’خلیل اللہ‘‘ اور ’’ذبیح اللہ‘‘ جیسے جلیل القدر القاب سے یاد کرتی ہے۔ اگر ہم بہ نظر غائر دیکھیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ کائنات کی نشو و نما میں قربانی کو بڑا دخل ہے۔ قربانی کا دستور قدیم ہے، ایران، ہندوستان، یونان، روم، عرب، افریقہ اور امریکہ وغیرہ میں قربانی کا رواج عام تھا لوگ کفارہ معاصی اور ازالہ غضب اصنام کے لیے قربانیاں دیا کرتے تھے۔

 لغت عربی میں قربانی ہر اس عمل کو کہتے ہیں جس سے کسی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش و سعی کی جائے اور اصطلاح شریعت میں اس ذبیحہ کو کہتے ہیں، جو اللہ تعالی کی خوشنودی اور تقرب کی نیت سے قربان کیا جائے۔ قربانی حج کا اہم رکن ہے اور حج کے لفظی معنی قصد و ارادہ کرنے کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں مکرہ مکرمہ جاکر بیت اللہ شریف، عرفات، مزدلفہ، منی وغیرہ کا قصد کرنے ،طواف و دیگر مناسک حج ادا کرنے اور مقررہ آداب و اعمال بجالانے کا نام حج بیت اللہ ہے۔ حج کی فرضیت نص قرآنی سے ثابت ہے جس کے منکر کی تکفیر کی جائے گی اور جو بلا عذر شرعی حج نہ کرے وہ گنہگار و فاسق کہلائے گا۔جس طرح رب کائنات ہر نقص و عیب سے پاک ہے اسی طرح ہمارا رب ہماری عبادتوں سے بھی بے نیاز ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رب نے ہم پر مختلف اقسام کی عبادات فرض کیوں کیں؟ صوفیائے کرام اس کا جواب یہ دعنایت فرماتے ہیں کہ رب نے ہم پر عبادتیں اس لیے فرض کیں ہیں تاکہ ان کی برکات سے ہمارا کردار میں بندگی کا رنگ چڑھ جائے۔ لہٰذا حج میں بھی ہمارے لیے اتحاد و محبت کا پیغام ہے۔

حج مساواتِ اسلامی کا وہ حسین پیکر ہے جس میں عربی وعجمی، متمول و مفلس، معززو رذیل، سفیدو سیاہ، عالم و جاہل، اعلی و ادنی جیسے تمام فرق اور امتیازات کو بالائے طاق رکھ کر تمام بندگان الٰہی ایک لباس، ایک صورت، ایک کیفیت، ایک صداکے ساتھ ایک میدان یعنی عرفات میں بارگاہ ربوبیت میں حاضری دینے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ انسان اجتماعی زندگی کا خوگر ہے، انسان معاشرے سے علاحدہ ہوکر جانور کی طرح جنگل و بیابان میں زندگی گزار نہیں سکتا۔ جب انسان دوسروں سے روابط و تعلقات اور دیگر مقاصد کی تکمیل کے لیے معاشرہ کی تشکیل دیتا ہے تو ایسے اصول کی اشد ضرورت لاحق ہوتی ہے جو باہمی محبت و اخوت اور امن وامان کے ضامن ہوں۔

 چونکہ خالق کائنات نے انسان میں دو ایسی قوتیں یعنی ’’قوتِ بہیمیہ‘‘ اور ’’قوتِ غضبیہ‘‘ ودیعت فرمائی ہیں جس پر قابو نہ پانے پر انسان اپنے ہی ہم جنس کو اپنی درندگی کا شکار بنالیتا ہے، جس سے معاشرہ کا نظام درہم برہم ، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا چلن عام ہوجاتا ہے۔ ان حالات کے اسباب و علل میں سب سے زیادہ تباہ کن سبب و علت انسان کے درمیان رنگ و نسل کا امتیاز ہے۔ بنی نوع انسانی کے اس نظام کی درستگی کے لیے باہمی محبت، حسن سلوک اور وحدت انسانی کی اہمیت و ضرورت محتاج بیان نہیں ہے، جو حیات انسانی کے ارتقاء کے لیے اساسی و بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ان صفات جلیلہ کے بغیر انسان کی عبادت بھی قابل قبول نہیں ہے جس کی تائید و نصرت قرآن پاک کی ان آیات کریمہ سے ہوتی ہے۔

ارشاد ربانی ہورہا ہے ’’پس خرابی ہے ایسے نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز (کی ادائیگی) سے غافل ہیں۔ وہ جو ریاکاری کرتے ہیں اور (مانگے بھی) نہیں دیتے روز مرہ استعمال کی چیز‘‘۔ (سورۃ الماعون آیات 4-7)۔ تعلیمات اسلامی نے رنگ و نسل کے باطل امتیازات پر ضرب کاری لگائی، جس کے باعث انسانیت اعلیٰ و ادنیٰ کے خانوں میں بٹ چکی تھی۔ مذہب اسلام نے وحدت انسانی اور مساوات کا ایسا عملی تصور پیش کیا جس کو دیکھنے کے لیے عالم انسانیت برسہابرس سے ترس و تڑپ رہی تھی۔ چنانچہ تاریخ اسلام مہاجرین و انصار کے رشتہ اخوت کا قابل تقلید عملی نمونہ رکھتی ہے۔ خالق کونین تمام افراد کا اصل الاصول بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے جس نے پیدا فرمایا تمہیں ایک جان سے‘‘ (سورۃ النساء آیت 1)۔

 اس آیت پاک کی عملی تفسیر اور مساوات انسانی کی عملی مظاہرہ اس وقت نمایاں طور پر سامنے آتا ہے جب دوران حج حجاج کرام نویں ذی الحجہ کو میدان عرفات میں ٹہرتے ہیں۔ حضور ختمی المرتبت ﷺ اس مبارک دن کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ شیطان کسی دن اتنا ذلیل ، خوار اور رسوا نہیں ہوتا جتنا عرفہ کے دن ہوتا ہے چونکہ وہ اس دن رحمت الٰہی کو برستے ہوئے اور بڑے بڑے گناہوں کی معافی کا فیصلہ ہوتے دیکھتا ہے‘‘۔ (موطا امام مالکؒ)۔

گویا اس فرمان اقدس سے یہ بات بھی اشارۃً ثابت ہوتی ہے کہ جب بندگان خدا اتحاد و محبت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں تو رب کائنات ان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا ہے اور جب اتحاد ٹوٹتا ہے تو پھر لوگ رحمت کردگار سے محروم ہوجاتے ہیںاور زحمتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حج کی فرضیت سے قبل بھی عربوں میں حج کا اجتماع رائج تھا لیکن شعائر و مناسک حج مشرکانہ ، فاسقانہ اور جاہلانہ رسوم میں تبدیل ہوچکے تھے جو تصور مساوات انسانی کو نیست و نابود اور یکسر فراموش کرنے کے مترادف تھا۔ جب عرب کے باشندے حج سے فارغ ہوتے، تو بیت اللہ شریف کے پاس مجلس منعقد کرتے اور اپنے آباء و اجداد کے محاسن و فضائل کا تذکرہ کرتے، تاکہ ان کی فوقیت و عظمت دوسروں پر نمایاں ہوجائے۔ خالق کائنات نے اس عمل کا بطلان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے  ’’ پھر جب تم پورے کرچکو حج کے ارکان تو اللہ کو یاد کرو جس طرح اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ذکر الٰہی کرو‘‘ (سورۃ البقرہ آیت200)

 اہل عرب اس بات کو معیوب گمان کرتے تھے کہ وہ میدان عرفات میں عوام الناس کے ساتھ وقوف کریں چونکہ ان کا یہ زعم تھا کہ ہم اہل اللہ ہیں اور اس کے حرم کے باشندے ہیں۔ اسی سبب وہ میدان عرفات کی بجائے مزدلفہ میں ہی ٹہر جاتے تھے اور اپنی بڑائی کا خوب اظہار کرتے۔ رب کریم نے اس باطل زعم کا قلعہ قمع کردیا اور حکم دیا کہ ’’ پھر تم بھی وہاں تک (جاکر ) واپس آئو جہاں جاکر دوسرے لوگ واپس آتے ہیں ‘‘ (سورۃ البقرۃ آیت 199)۔ یعنی مقیم و مسافر اور شہری و پردیسی کو ٹہرنے اور عبادت کرنے کے مساویانہ حقوق حاصل ہیں۔ ان احکامات خداوندی کے ذریعہ حجاج کرام کے قول و فعل ، سوچ و فکر ، عشق و محبت، رخ و جہت اور وضع و ہیئت یہاں تک کہ لباس (یعنی احرام) میں بھی یکسانیت پیدا کردی گئی۔ سن 9 ہجری کو اسلامی احکامات کے مطابق پہلا حج خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے زیرقیادت ادا کیا گیا۔ سن 10ہجری میں سرور کونینﷺ نے بہ نفس نفیس اس عظیم اجتماع میں شرکت فرمائی جسے ’’حجۃ الوداع‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دن کے خطبہ کی تاریخ اسلام ہی میں نہیں بلکہ تاریخ انسانیت میں بھی بڑی اہمیت ہے۔

 اس خطبہ بلیغ میں صاحب خلق عظیمﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’عرب و عجم کے درمیان کوئی ایسا امتیاز نہیں، جو ایک کو دوسرے سے زیادہ فضیلت عطا کرنے والا ہو، رنگوں اور نسلوں کا امتیاز بھی بے حقیقت ہے‘‘ آپﷺ نے اپنے اصحاب کو اس بات کا پابند بنادیا تھا کہ میرا پیغام اگلی نسل تک پہنچادینا۔ ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ بین الاقوامی اخوت و بھائی چارگی اور مساوات کا بے نظیر نمونہ حج ہی میں مضمر و مستتر ہے اور اسلام نے انسان کی تقسیم قومیت اور وطنیت کی بناء پر نہیں کی بلکہ نیکی اور بدی کو اساس پر کیا ہے۔ قرآن حکیم نے اعلان فرمایا کہ ’’تم میں سے زیادہ معزز و بارگاہ ربوبیت میں وہی شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو‘‘۔ چونکہ جو شخص تقوی کی بناء پر معزز ،محترم اور مکرم ہوگا وہ فخر و مباہات اور غرور و تکبر سے یکسر پاک ہوگا۔ ایسے شخص کا وجود اپنے ملک اور ملت کے لیے باعث افتخار ہوگا جس کی تاریخ انسانی میں کئی ایک مثالیں ملتی ہیں۔ حج کے عظیم اجتماع کا اہم مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ مومنین ایک دوسرے کے حالات، مشاکل اور مصائب سے واقف ہوں اور ان کے حل نکالنے کی کوشش کریں۔

 گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اجتماع حج کا بنیادی تعلق امت مرحومہ کے عظیم اتحاد اور معاشرے کی بھلائی، امن و سلامتی سے ہے۔اس مقصد کو مد نظر رکھنے کے بعد کیا کوئی یہ تصور بھی کرسکتا ہے کہ حج کا شرف حاصل کرنے والا شخص فروعی اختلافات کو اپنی انا کا مسئلہ بناتے ہوئے مساجد کو تک تقسیم کردے، لوگوں کو حقیر نظروں سے دیکھے، کفر و بدعتی کے فتوی صادر کرتا رہے اور انہیں نقصان پہنچانے کے لیے سازشیں رچتا رہے ؟ لیکن ہو یہی رہا ہے کہ ایک مکتب فکر اپنے آپ کو حق پر اور دیگر تمام کو باطل سمجھ کر دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کا مذاق اڑاتا ہے جو صرف فساد کو بڑھاوا دینے کا سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے اپنے ماننے والوں کو اس روش سے اجتناب کرنے کا حکم فرمایا ہے ارشاد ربانی ہے ’’کوئی جماعت دوسری جماعت کا مذاق نہ اڑائے‘‘ (سورۃ الحجرات آیت 11)۔

 یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایک مکتب فکر کے حامل حضرات اپنے ذاتی و دنیوی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے دوسرے مکتب فکر کے افراد کے خلاف انتہائی ناشائستہ اور نازیباء الفاظ و القاب استعمال کررہے ہیں جس کی وجہ سے نفرتوں اور رنجشوں میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور وحدت، یگانگی اور رواداری کے جذبہ کو ٹھیس پہنچ رہا ہے جو روح حج اور تعلیمات اسلام کے بالکل مغائر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے اس فعل قبیح سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ ایک دوسرے کے برے برے نام مت رکھا کرو‘‘ (سورۃ الحجرات آیت 11)۔

حج جیسی عظیم عبادت کا شرف حاصل کرنے کے باوجود قرآن کے زریں اصول کو فراموش کردینے ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم معاشرے میں انتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے جبکہ دین اسلام تمام نوع انسانی کو اخوت و بھائی چارگی کے رشتہ میں جوڑ کر ایک وسیع تر ملت اسلامیہ کے قیام کی دعوت دیتا ہے۔عبادت حج ادا کرنے کے باوجود اخوت و اتحاد کے جذبہ سے ہم اس لیے عاری ہوتے جارہے ہیں چونکہ ہم ہر عبادت کو عادتاً اور رسمی طور پر ادا کرنے کی عادی ہوگء ہیں۔ حضرت سیدنا خواجہ معین الدین چشتیؒ ارشاد فرماتے ہیں عادت پرستی حق پرستی نہیں ہوسکتی۔ عبادت حج سے ہر سال دنیا کو یہ عملی پیغام ملتا ہے کہ صنفی، ملکی، نسلی، قبائیلی، نسبی ،علمی، معاشی، اقتصادی، معاشرتی الغرض تمام امتیازات ثانوی درجہ کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ بزرگی و شرافت کا معیار اور اصل وجہ افتخار تو تقوی، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرادی ہے جس پر دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا مدار ہے۔اگر مسلمان حج کی حکمت اور روح کو سمجھنے میں کامیاب ہوجائیں تو امت مسلمہ کے تمام سماجی مسائل دیگر بحرانوں کا بہ آسانی حل نکل سکتا ہے۔ مسلمانوں میں کی صفوں میں اتحاد اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب مسلمان دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اپنی کوتاہیوں کا اصلاح کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کریں، دوسروں کے اعمال کا جائزہ لینے کے بجائے خود احتسابی کی فکر کریں تب ہی ہم اسلامی طبقات میں اتحاد پیدا کرکے حج کے عالمگیر پیغام اخوت، اتحاد، محبت اور وحدت کو دنیا بھر میں عملی طور پر عام کرنے، انسانی معاشرے کو مسائل سے پاک کرنے اور اسلامی ثقافت اور اتحاد کے نظریات کو رائج کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں اور یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب قوم متحد ہوجاتی ہے تو اسے دنیا کی کوئی طاقت ترقی سے نہیں روک ہوسکتی اور جب کوئی قوم انتشار و تفرقہ کا شکار ہوجاتی ہے تو اس قوم کو پستی و تنزل سے کوئی بچا بھی نہیں سکتا۔

بے انتہا وسائل رکھنے کے باوجود امت مسلمہ تنزل و انحطاط کا شکار ہے جس کی اہم وجہ ہمارا انتشار ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس کی باہمی یکجہتی اور ہمدردی میں پوشیدہ ہے۔ ہم تمام فرزندان اسلام پر لازم ہے کہ ہم اپنی توانائیاں حصول وحدت کی راہیں ہموار کرنے میں صرف کریں اور زندگی کا ہر لمحہ تعلیمات اسلام کے سانچے میں ڈھال کر ’’خیر امت‘‘ کا مصداق بننے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں برکاتِ حج کے صدقہ عالم اسلام کے موجودہ سنگین حالات میں اتحاد و اخوت کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔