مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
ہر شخص رمضان کی فضیلت واہمیت کو جانتاہے ، رمضان کا مہینہ، رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کامہینہ ہے ، اس لئے ہر مسلمان رمضان کے لئے تیاری کرتا ہے ، مطیع اور اللہ کے فرماں بردار اس ماہ میں پوری جستجو اور تندہی کے ساتھ تزکیہ نفس کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ، دل کی طہارت اور پاکیزگی کا سامان کرتے ہیں ، منصوبہ بندی، مقصد کی تعیین ، قرآن ، روزے، سخاوت والے مہینے کے مطالبات کو سامنے رکھ اس کے شایانِ شان اس کا استقبال کرتے ہیں ۔
معاصی کے خوگر اور شیدا بھی بغیر کسی پروا کے اپنی پرانی ڈگر اورروش ، معصیتوں پر اصرار، شہوات ولذات میں انہماک کے ساتھ رمضان کااستقبال کرتے ہیں ؛ بلکہ ان کی گناہوں کی خودماہِ رمضان میں اور بڑھ جاتی ہے ، نہ صرف یہ کہ خود عبادت وریاضت اور طاعات سے رکتے ہیں ؛ بلکہ دوسروں کو بھی اللہ کے ذکر اور اس کی یاد سے غافل کرنے کاسامان کرتے ہیں ، فلموں ، گانے بجانے اور لہو ولعب میں مصروف رہ کر دوسروں کو بھی ان شہوات ولذات کی دعوت دیتے ہیں ۔
بلکہ بہت سارے روزے دار وں – غیر روزے داروں کو تو رہنے دیجئے – ان کی حالت بھی ماہِ رمضان میں نہایت ابتر ہوتی ہے، ان سے کچھ امور اور رمضان کے شان کے خلاف کچھ منفی ایسے پہلوؤں کا ظہور ہوتا ہے جو رمضان جس کو ’’ماہِ تقوی‘‘’’ماہِ ایمان واحتساب‘‘ ’’ماہِ قرآن‘‘ اور شہوات ولذات پر قابو پانے کا مہینہ کہا گیا ہے ، اس کے شایانِ شان نہیں ہوتے۔
خود روزہ داروں کی جانب سے ماہِ رمضان میں فضولیات اور اسراف کا طومار ہوتا ہے ، کھانے پینے میں فضول خرچی کی حدنہیں ہوتی ہے ، دن کی رہی سہی کسر رات میں پوری کرلیتے ہیں ، دن میں سونے میں بھی مبالغہ سے کام لیا جاتاہے ، بعضے لوگ تو سحری کے بعد سوتے ہیں تو مغرب سے قبل بیدار ہوتے ہیں ، ہمارے اسلاف ضبط اوقات اور نظم اوقات کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے، خصوصا رمضان المبارک کے عظیم مہینے میں تو ان کاسارا دن واقعہ حالتِ روزہ ، محرمات سے اجتناب، زبان واعضاء وجوارح کی طاعات : تلاوت قرآن، ذکر، دعاء، صدقات ، کھانا کھلانے اور روزہ داروں کو افطار کروانے میں گذرتاتھااور ان کی رمضان کی راتیں تہجد واستغفار میں صرف ہوتی تھیں ’’تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا ‘‘(السجدۃ: ۱۶)’’اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں ‘‘پھر اس کے بعد ان کے دلوں کو اطمینان نہیں ہوتا کہ عند اللہ ان کے اعمال مقبول ہوئے کہ نہیں ۔
علامہ ابن رجب لطائف المعارف میں فرماتے ہیں :
’’بعض اسلاف رمضان کی تہجد میں ہر تین رات میں قرآن کا ختم فرمایا کرتے، بعض ہر ہفتے میں ایک ختم کرتے، جن میں حضرت قتادہ شامل ہیں ، بعض ہر دس دن میں ختم فرماتے ، جن میں ابو رجاء العطاردی ہیں ، اسلاف کا ماہِ رمضان میں نماز اور غیر نماز میں تلاوت قرآن کا خوب معمول ہوا کرتا، اسود ہر دو رات میں ایک قرآن کا ختم فرماتے، ابراہیم نخعی کا رمضان کے آخری عشرے میں ہر دو رات میں ختم قرآن کا معمول تھا،اور غیر رمضان میں تین رات میں ختم قرآن کا معمول تھا، قتادۃ ہرسات رات میں ختم قرآن فرماتے اور رمضان میں تین رات ختم میں ہوتا، آخری عشرے میں تو ہر رات ایک ختم قرآن فرماتے، حضرت امام شافعی رحمہ اللہ ماہ رمضان میں زبانی ساٹھ قرآن کریم کا ختم فرماتے، حضرت ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی یہی معمول تھا،حضرت قتادہ کا ماہ رمضان میں درس قرآن کا معمول تھا، امام زہری رمضان کا مہینہ آتا تو فرماتے : یہ تلاوت قرآن اور اطعام طعام (کھانا کھلانے) کامہینہ ہے ۔
ابن عبد الحکیم کہتے ہیں : حضرت امام مالک کارمضان المبارک میں یہ معمول تھا کہ حدیث اور اہل علم کی مجالست اور مصاحبت سے کنارہ کش ہو کر تلاوت قرآن میں مصروف ومنہمک ہوجاتے ، عبد الرزاق کہتے ہیں : حضرت سفیان ثوری کا یہ معمول تھا وہ رمضان المبار ک میں تمام عبادتوں سے یکسو ہو کر تلاوت قرآن میں لگ جاتے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا معمول تھا کہ ابتدائے دن میں تلاوت قرآن فرماتی پھر سورج کے طلوع ہونے کے بعد آرام فرماتیں ‘‘ اور سفیان فرماتے ہیں : زبید الیامی جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو قرآن اکٹھے کرتے اور تلاوت قرآن کے لئے لوگوں کو مدعو کرتے ‘‘(لطائف المعارف: المجلس الثانی: فی فضل الجود فی رمضان،:1؍171، دار ابن حزم بیروت)
اسی طرح رمضان میں فضول گوئی سے بھی احتراز کی ضرورت ہے ، لایعنی اور بیکار کی باتوں میں مصروفیت یہ مومن کے شایان شان نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’ آدمی کی اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی اور فضول گوئی کو ترک کردے‘‘ (ترمذی: باب، حدیث: 2317)لا یعنی اور فضول گوئی کی ویسے ہی سزا نہایت بھیانک ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دور رسالت میں ایک شخص کا انتقال ہوگیا تو اس پر ایک عورت ہائے شہادت کے نعرہ لگا کر رونے لگی، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: رک جاؤ ، تمہیں کیا معلوم کہ یہ شہید ہے ، شاید کہ یہ شخص لا یعنی اور فضول گوئی کاعادی تھا اور کم نہ ہونے والی چیز میں بخل کیا کرتا تھا‘‘ (مسند أبی یعلی: شہر بن حوشب عن أبی ہریرۃ، حدیث: 6646)
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ کے اعراض کی نشانی یہ ہے کہ بندہ لا یعنی اور فضولیات میں مشغول ہوجائے، سہل بن عبد اللہ تستری فرماتے ہیں : جو لا یعنی میں مصروف ہوتا ہے وہ سچائی اور صداقت سے محروم ہوجاتا ہے ، معروف کرخی کہتے ہیں : بند ہ کا لا یعنی کا شغل یہ اس کی اللہ کی جانب سے ذلت ہے ، ابن عجلان کہتے ہیں : کلام اور گفتگو چار قسم کی ہوتی ہے : اللہ کاذکر، تلاوت قرآن، علم کے متعلق سوال اوراس کا جواب، دنیا کی ضروری گفتگو، ایک شخص نے حضرت سلمان فارسی سے فرمایا : مجھے وصیت کیجئے ، فرمایا: بات نہ کرو، اس نے کہا: جو شخص لوگوں میں رہتا ہو وہ کیوں کر بات نہ کرے ؟ تو فرمایا: اگر تمہیں بات کرنا ہی ہے تو یا تو حق کہو یا خاموش رہو۔‘‘۔
رمضان المبارک میں صرف فضول گوئی پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا؛ بلکہ غیبت، چغلی، گالی گلوچ ، جھوٹ اور لڑائی بھڑائی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، اس قسم کے لوگوں کا رمضان المبارک کے مہینے میں کچھ حصہ نہیں ، ان کو رمضان میں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہ کیا تو اللہ تعالی کو اس کے کھانا پینا چھوڑ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ‘‘( بخاری: باب من لم یدع قول الزور، حدیث: 91804
اسی طرح رمضان المبارک میں روزے اور تراویح کے نام پر کام پردیر سے جایاجاتا اور جلد واپس آیاجاتاہے ، مقررہ وقت پر پہنچ کر ، مالک کے وقت کی تعیین کے ساتھ اور اس کے کام کی رعایت اور اپنے روزہ اور تراویح کے بھی اہتمام کے ساتھ کام کو اچھی طرح انجام دیں ۔کیوں کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ’’ اللہ عزوجل کام میں پختگی کو پسند کرتے ہیں ‘‘ (المعجم الاوسط، أول الکتاب، حدیث: 897)۔
رمضان المبارک میں جو کہ مودت ، محبت ،اہل ، خاندان، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ مروت اور سخاوت کا مہینہ ہے ، لڑائی جھگڑے اور کھینچ تان کی فضا نظر آتی ہے ، اللہ عزوجل کا ارشا د ہے : ’’ اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ بزدل ہو جا گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘(الانفال: 46)
اللہ عزوجل نے امت کو اتحاد واتفاق کا سبق دیا ہے ، عبادات کا مقصود بھی اتحاد واتفاق کا اظہار ہے ، جماعت سے نماز کا مقصود آپس میں تعارف اور قربت کا پیدا کرنا ہے ، زکاۃ کا مقصود معاشرہ کے افراد کے مابین تعلقات کو استوار کرنا ہے ، روزہ معاشرتی کا کفالت کا ضامن ہے ،روزہ میں امساک (کھانے سے رکنے کے ذریعے )امت کے مابین قلبی ، عملی اور شعوری یگانگت پیدا کرنا ہے ، اسی طرح حج آپس تعارف کی عالمی کانفرس ہے، تمام عبادات یہ اتحاد واتفاق کا پیغام دیتے ہیں ، کیوں کر ہم افتراق اور پھوٹ کو اختیار کرلیا؟آج اس وقت مسلمانوں کو اتحاد کی بہت ضرورت ہے ، سارے عالم میں خونِ مسلم کی ارزانی آنکھوں دیکھی چیز ہے ، ایسے میں یہ رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اعمال کے ذریعے سارے عالم کے مسلمانوں کے اتحاد ویکجائی کا شعور اور پیغام دیتا ہے ۔
رمضان کے عبادات کے ذریعے ہمارے اندر تقوی، تزکیہ نفس، اخلاقی پاکیزگی، عادات واطوار میں نرم خوئی، نفسانیت وشہوانیت کے خلاق کے عزمِ جہاد، دوسروں کے درد وکسک کا احساس وادراک پیدا ہو، ان امور میں اپنے اندر لانے کے لئے رمضان المبارک کا مہینہ نہایت موزوں ہے ، چونکہ اس مبارک ماہ میں شیاطین قیدکردیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند ہوتے ہیں ، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، رمضان المبارک کا مہینہ گویا یہ انسانیت کے از سر نو میلاد اور پیدائش ہے ، کیوں کہ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں اس مہینہ کا تعارف اس انداز میں فرمایا ہے : ’’رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے کو پالے تو اس کے روزے رکھے‘‘ (البقرۃ : 185)
بہر حال رمضان کامقصود یہ ہے کہ ہم اس کی رات ودن کی صحیح قدر دانی کریں ، تراویح ، روزے ، تلاوت قرآن کا اہتمام کریں ، حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کریں ، لڑائی جھگڑے ، گالی گلوچ ، جھوٹ، غیبت ، چغلی سے پرہیز کریں ، آپس میں اتحاد واتفاق کی فضا پیدا کریں ، روزے اور رمضان کی صحیح حقیقت کو سمجھ کر رمضان کی حقیقی قدردانی کرنے والے بنیں ۔
تبصرے بند ہیں۔