چین، امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی !

نہال صغیر

دنیا اس وقت تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر ہے ۔کسی بھی وقت کسی بھی ملک کی ذرا سی انانیت کی وجہ سے جنگ کا مہیب دیو عالم انسانیت کیلئے بھیانک تباہی لاسکتا ہے ۔جن لوگوں کے دماغوں میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے مناظر محفوظ ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ موجودہ جنگ کیا تباہی لاسکتی ہے ۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم جس نے لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں کو نگل لیا تھا ۔دوسری جنگ عظیم جس میں امریکہ نے اپنی درندگی تاریخ میں رقم کروالی اس نے جاپان کے دو شہروں کو موت کی وادی میں بدل دیا تھا ۔جبکہ آج اس سے بھی کئی گنا زیادہ طاقتور ایٹم بم تیار ہو چکے ہیں ۔چین اور شمالی کوریا کا تنازعہ جس میں امریکہ کے غروراور توسیع پسندانہ عزائم کو بڑا دخل ہے ،علاقے میں کشیدگی کا سب سے بڑا سبب ہے ۔دوسرا چین امریکہ کے درمیان نئے سوپر پاور بننے کی دوڑ نے بھی جنگ کے امکانات میں اضافہ کیا ہے ۔

اس کے علاوہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر ہندوستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے ۔ہندوستان کے کئی حصوں پر چین کی نیت خراب ہے وہ آئے دن ہندوستانی علاقوں میں دخل اندازی و در اندازی کرتا رہتا ہے ۔لیکن ہمارے سیاست داں ہیں کہ بس پاکستان میں الجھے ہوئے ہیں جس کا ہندوستان کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔ بین الاقوامی طور پر اس ہفتے کچھ اہم واقعات ہوئے ہیں جس سے تیسری جنگ عظیم کے نقارے بجتے دکھائی دیتے ہیں ۔ہندوستان اور پاکستان کے بیچ خدا واسطے کا بیر ہے ۔اس دشمنی میں جہاں سرحدی اور سیاسی کشیدگی کو دخل ہے وہیں کہیں نہ کہیں اس میں مذہبی و تہذیبی تفاخر کا بھی کچھ نہ کچھ اثر ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان کوئی معمولی سا واقعہ بھی بڑے تنازعے کا سبب بن جاتا ہے ۔دونوں ملکوں میں جاسوس پکڑے جاتے ہیں اور انہیں سزائیں بھی سنائی جاتی ہیں یا پھر ان کے معاملات کو التوا میں رکھا جاتا ہے ۔

کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے جب عام اور بے گناہ شہری انجانے میں کسی قانون شکنی کا مرتکب ہوجاتا ہے تو اسے سخت مشکلات اور زندگی و موت کے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ایسے ایک معاملہ میں ہندوستانی شہری کلبھوشن یادو کو پاکستانی فوجی عدالت کے ذریعہ پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد ہندوستان نے اسے عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیا جہاں سے کلبھوشن کی پھانسی پر چالیس دن کے امتناع کا حکم آیا ہے ۔اب یہ معاملہ دونوں ملکوں میں نزاع کا نیا سبب بن کر سامنے آیا ہے ۔ہندوستان کا کہنا ہے کہ وہ ایک عام شہری ہے جسے ایران سے پاکستانی ایجنسیوں نے اغوا کیا ہے جبکہ پاکستان کہتا ہے عام شہری کے دو پاسپورٹ دو مختلف ناموں سے نہیں ہوتے ۔ہندوستان کا الزام ہے کہ سارے الزامات فرضی اور من گھڑت ہیں ۔ویسے اتنی جلدی میں عالمی عدالت برائے انصاف میں جانا سمجھ سے بالاتر ہے ۔کیوں کہ کلبھوشن کو اپیل کے لئے دو ماہ کا وقت تھا ۔

ہندوستان نے شاید اس لئے جلد بازی میں عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ اس کو خدشہ تھا کہ پاکستان کبھی بھی اچانک اسے پھانسی دے سکتا ہے ۔تو کیا پاکستان اتنا جری اور وعدہ فراموش اور ناقابل اعتبار ہے کہ ہمیں یہ خدشہ ہو کہ وہ اپنی ہی قانون کی دھجیاں محض اس لئے اڑائے گا کیوں کہ اسے ہمیں تکلیف پہنچا کر سکون ملتا ہے ؟بہر حال اس لفظی جنگ کے درمیان کلبھوشن کی سزا پر وزیر خارجہ سشما سوراج کا یہ قول بھی سامنے آیا کہ کلبھوش کی پھانسی کو جنگی جرائم میں شمار کیا جائے گا ۔شاید یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ محض ایک شخص کی پھانسی کو جنگی جرم سمجھا جائے گا ،اگر کلبھوش کو پاکستان پھانسی دے دیتا ہے ۔حالانکہ نہیں لگتا کہ پاکستان بغیر کسی قانونی پیش بندیوں کے کلبھوشن کی پھانسی کی سزا پر عمل در آمد کرنے کی جرات کرے ۔اب تو یہ پاکستان کیلئے اور بھی مشکل ہو گیا ہے جبکہ معاملہ بین الاقوامی عدالت میں پہنچ گیا ہے ۔

ہند و پاک میں کشیدگی میں اضافہ پچھلے دو برسوں سے کچھ زیادہ ہی ہے ۔گرچہ وزیر اعظم نریندر مودی غیر روایتی طور پر نواز شریف سے ملنے اچانک لاہور جاچکے ہیں اور دوستی کے ہاتھ بڑھا چکے ہیں ۔کشمیر وہ واحد سبب نزاع ہے جو حل ہو کر ہی نہیں دیتا ۔اس سے سیاست دانوں کو عملی سیاست کیلئے خوراک ملتی ہے ۔دو برسوں سے کشمیر میں عوامی تحریک میں اضافہ ہو گیا ہے ۔روایتی جنگجو ئوں ،مزاحمت پسند تنظیموں اور نام نہاد دہشت گردوں کے بجائے احتجاج کرتے کشمیری نوجوان اور ہتھیار بند ہندوستانی سلامتی دستوں کے سامنے چھوٹے بچے اور خواتین کا آنا ایک نئے سوال کھڑے کررہا ہے ۔وہ سوال یہ ہے کہ کیا علیحدگی پسندوں نے آزادی کشمیر کی حکمت عملی تبدیل کردی ہے ۔اس پر دو طرح کی رائے ہے ۔

ہندوستانی موقف کی حمایت کرنے والے کا الزام ہے کہ حزب المجاہدین جیسی تنظیموں نے نوجوانوں کو پیسے دے کر ان سے سلامتی دستوں پر سنگ باری کا کام لے رہے ہیں ۔جبکہ صحافیوں کا ایک دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ اب جن نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھر ہے وہ نسل مزاحمت ،تشد داور جبر کے سائے میں پروان چڑھی ہے ۔اس نے سب کچھ دیکھا ہے ۔اس نے ناانصافی اور ظلم کی سیاہی کو سمجھا ہے ۔یہ سنگ باری کا فیصلہ اس کا خود کا ہے ۔اس میں کسی تنظیم یا کسی غیر ملکی ہاتھ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ لیکن اتنا طے ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کو انسانی بنیادوں پر حل نہیں کیا گیا تو یہ دو نوں ملکوں کی کشیدگی کو کسی دن تباہ کن جنگ میں تبدیل کردے گا۔

 ہندوستان کے شمال مشرق میں شمالی کوریا اور امریکہ کی بڑھتی کشیدگی ہمارے لئے اچھی خبر نہیں ہے ۔امریکہ نے شمالی کوریا کی جانب اپنا دوسرا بحری بیڑہ یو ایس ایس رونالڈ ریگن روانہ کیا ہے ۔اس سے علاقے میں کشیدگی میں اضافہ ہونا منطقی ہے ۔ امریکہ کے پاس بہانہ ہے کہ شمالی کوریا کو عالمی برادری کی تشویش سے آگاہ کرنے کے باوجود وہ اپنے ایٹمی تجربات کو نہیں روک رہا حال ہی میں اس نے ایک نئے میزائل کا تجربہ کیا ۔امریکہ کے نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی شمالی کوریا کو سبق سکھانے کی دھمکی دی تھی ۔شمالی کوریا کئی بار یہ بات کہہ چکا ہے کہ اگر امریکہ نے اسے اکسانے کی کوشش کی تو وہ امریکہ پر ایٹم بم سے حملہ کردے گا ۔اگر شمالی کوریا کی یہ بات محض پروپگنڈہ نہیں کہ وہ امریکہ تک میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو تاریخ میں پہلی بار امریکہ کو اس کی خود کی ہی زمین تنگ نظر آنا یقینی ہے ۔

اب تک امریکہ دوسروں کے لئے ان کی زمین تنگ کرتا آیا ہے ۔اس سے قبل ٹوئن ٹاور اور دیگر جگہوں پر خودکش طیارہ حملوں سے امریکہ کو عدم تحفظ کا احساس ہوا تھا ۔چین بھی امریکہ کو مسلسل اس کی اوقات یاد لاتا رہتا ہے ۔چھوٹی چھوٹی ضروریات کی اشیاء سے چین نے پورری دنیا میں اپنی معاشی برتری حاصل کرلی ہے ۔پچھلے ہفتہ یہ خبر بھی آئی تھی کہ چین نے مسافر بردار طیارہ بھی بنالیا ہے جس نے کامیابی سے اڑان بھر کر طیارہ تیار کرنے والے ممالک فرانس اور امریکہ کیلئے چیلنج کھڑا کردیا ہے ۔چین نے اب ایک اور بڑی جرات کا کام کیا ہے کہ اس نے مشرقی چینی سمندر کے اوپر پرواز کرنے والے امریکی طیاروں کو گھیر کر اسے راستہ بدلنے پر مجبور کیا جس پر امریکہ نے اسے غیر ذمہ دارانہ اور غیر عملی قدم قرار دیا ہے ۔امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کا طیارہ بین الاقوامی ہوائی پٹی سے پرواز کررہا تھا۔

اس سے قبل بھی امریکی طیاروں کو جنوبی چین کے سمندر کے اوپر اس کے راستوں میں رخنہ اندازی کی گئی تھی ۔اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ امریکہ نے جہاں چاہا وہاں بمباری کی خواہ اس میں عام شہری ،معصوم بچے اور خواتین ہی ماری جائیں اور وہ جہاں چاہے پرواز کرے جس کے فضائی حدود کی چاہئے خلاف ورزی کرتا رہے کوئی اسے روکنے والا نہیں تھا لیکن چین نے اس کو یہ یاد دلادیا کہ اب اس کی سوپر پاور کی قوت محض قصے کہانیاں ہیں ۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ نے جیسا کہ شمالی کوریا کو دھمکی دی ہے کہ اسے سبق سکھایا جائے گا اور مسلم ملکوں اور امریکہ کو ہجرت کرنے والوں کے خلاف جس نفرت کا اظہار کیا تھا اگر انہوں نے ویسا عملی اقدام کیا تو پھر یقینا قدرت امریکہ کو چین اور شمالی کوریا کے ذریعہ سبق سکھا نے کا پختہ ارادہ کرچکی ہے !

اس دوران ہندوستان کو امریکہ سے ہووتزر توپیں دستیاب ہو گئی ہیں جس کاپوکھرن میں تجربہ کیا جائے گا اس کے بعد اسے چینی سرحد پر تعینات کئے جانے کی امید ہے ۔یعنی پہلی مرتبہ پاکستان کے بجائے ہندوستان نے جنگی نکتہ نظر اور اپنی سلامتی کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ ہلکے اور کارآمد توپوں کو ہند چین سرحد پر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔یعنی بین الاقوامی ہی نہیں قومی سطح پر بھی تبدیلی کا احساس ہو رہا ہے ۔یہ تبدیلی اچھی بھی ہے اور خطرناک بھی ۔جہاں کسی ملک کی آزادی و وقار کیلئے یہ ایک اچھی علامت ہے تو وہیں بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے جنگ کے خدشات سے عالم انسانیت کا وجود خطروں میں گھرا ہو محسوس ہوتا ہے ۔ہرلمحہ تباہ کن جنگ کی جانب بڑھتی دنیا کو اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ ہے نفرت کی فضا کو بدلا جائے ۔دوسرے کی آزادی اور وقار کا خیال رکھا جائے ۔کسی اقلیتی گروہ خواہ وہ مذہبی ،لسانی یا علاقائی ہو اس کے ساتھ انصاف اور برابری والا رویہ برتا جائے تاکہ اس گروہ کے اندر اپنی سلامتی کے تئیں خدشات گہرے نہ ہوں ۔

یہ عدم تحفظ کا احساس ہی انسانوں اور ان کے گروہوں کو اقدامات کی طرف لے جاتے ہیں ۔باہری جنگ سے ملکوں کا نکلنا تو پھر بھی آسان ہے لیکن خانہ جنگی سے کسی ملک کا نکلنا اور پھر ترقی کی شاہراہوں پر دوسری قوموں سے ہمقدم ہونا کار محال ہے ۔ہم دنیا میں ایسے کئی ممالک کے شاہد ہیں ۔بد قسمتی سے ہندوستان میں ایک گروہ کی تنگ دلی ،کوتاہ نظری اور دہشت پسندانہ عزائم سے خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہو نے کا خطرہ بڑھ گیا ہے!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔