مظالم کا سد باب کیسے ہو؟

عبدالعزیز

 اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے اندھیروں کی بات بہت لوگ نہ سہی کچھ لوگ ضرور بغیر خوف و خطر کے کر رہے ہیں جو روز و شب ہندستان کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک بڑھتا اور پھیلتا چلا جارہا ہے مگر تاریک پسند حکمراں یا طبقہ پر نہ لکھنے کا اثر ہورہا ہے اور نہ کہنے پر کوئی فرق ہورہا ہے۔ جو لوگ طبقۂ حکمراں میں شامل ہیں ان میں بھی کچھ لوگ طوفان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ اس کی تباہی و بربادی کا بھی ذکر دبے لفظوں میں سہی مگر کر رہے ہیں ۔ وہ حالات کے پیش نظر جلوت میں نہ سہی خلوت میں کہہ رہے ہیں کہ طوفان جب ساری حدوں کو پار کر جائے گا تو کوئی نہ کوئی حل ضرور سامنے آئے گا اور جو لوگ حکمراں طبقہ سے باہر ہیں زیادہ تر لوگوں پر سراسیمگی کی کیفیت طاری ہے۔ وہ حالات کے دباؤ میں آچکے ہیں ۔ ان کو نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ وہ اندھیرے ہی کو شاید اپنی قسمت سمجھ رہے ہیں ۔ ایک چھوٹا سا طبقہ ہے جو حالات سے نبرد آزما ضرور ہونا چاہتا ہے مگر اس کے پاس بھی کوئی طے شدہ راستہ نہیں ہے وہ راستہ طے کرنے میں مصروف عمل ہے۔

 اپوزیشن پارٹیوں کی حالت بھی دگرگوں ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی اپنے بنائے ہوئے قید خانے (Selfimposed prison) میں بند ہیں اور بے بس ہیں ۔ اپنے قید خانے کی آہنی زنجیروں کو توڑنے سے قاصر ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس عمل غائب (Missing Actoin) ہے ۔ وہ گفتگوؤں ، بحثوں اور مناظروں اور مجادلوں کے شکار ہوگئے ہیں ۔ سڑک پر اترنے کیلئے تیار نہیں ۔ عوام سے روبرو گفتگو کرکے حالات کو سمجھانے سے قاصر ہیں ۔ انتخاب کے وقت ان میں ہلچل سی ہوتی ہے پھر وہ ہلچل ختم ہوجاتی ہے۔ ابھی صدارتی انتخاب کا معاملہ درپیش ہے تو تھوڑی سی ہلچل آئی ہے۔ دیکھئے بعد میں یہ باقی رہتی ہے یا نہیں ؟

مسلم جماعتوں میں جمعیۃ علماء کے دو گروپوں میں آپس میں مقابلہ آرائی ہے۔ ایک گروپ کچھ عمل کرتا ہے تو دوسرا گروپ بے عملی کے ذریعہ میدان مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند مہموں میں لگی ہوئی ہے۔ پہلے انسانیت کی مہم ملک بھر میں چلائی گئی، اس کے بعد مسلم پرسنل لا بیداری کی مہم چلائی گئی۔ انسانیت مہم کا جو اثر پڑنا تھا وہ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ بیداری مہم جو علماء میں چلائی جانے کی ضرورت تھی وہ عوام میں چلائی گئی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو جو ایک مسلک کی تنگی سے باہر نکالنے کی ضرورت تھی اسے عوام میں پیش کیا گیا، مگر سپریم کورٹ میں ایک مسلک کا ذکر وہ بھی پورے طور پرنہیں ۔ جو چیز قابل دفاع نہیں ہے اسے دفاع کرنے کی ضرورت پیش آگئی اور جو دوسرے مسلکوں کا نقطہ نظر پیش کرنے کا معاملہ تھا اس سے آنکھیں بند کرلی گئیں ۔ اگر اہل حدیث اور شیعہ فرقہ کے نقطہ نظر کو پیش کیا جاتا تو پھر بحث و مباحثہ کی ضرورت کہاں ہوتی؟ ایک زمانے کے بعد تین طلاق کے مجرموں کے سماجی بائیکاٹ کی نوبت کہاں آتی؟ حنفی علماء آج بھی اس تین طلاق کو اتنا ہی زور دے رہے ہیں جسے رسول اکرمؐ نے قرآن مجید کے ساتھ کھلواڑ کہا تھا اور جس کیلئے تین طلاق کے مجرموں کو کوڑے لگائے جاتے تھے۔ بورڈ کے وکیل کپل سبل نے تین طلاق کو آستھا کہہ کر اور بورڈ کے علماء کو بے نقاب کر دیا۔ کپل سبل کو یہ نہیں بتایا گیا کہ مسلمانوں کا ایک مکتبہ فکر اسے عقیدہ ہی نہیں بلکہ قانون سمجھتا ہے۔ بہت سے مکتبہ فکر اس قانون کو ہی مانتے نہیں وہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ہی سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں ۔

  یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ مسلم ممالک جہاں حنفی فقہ رائج ہے وہاں بھی تین طلاق کو ایک ہی مانا جاتا ہے۔ مثلاً ترکی، مصر اور کچھ دیگر ممالک بھی اسی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں ۔ ان سب پر غور و خوض کئے بغیر بورڈ بلا وجہ اس بحث کا حصہ بن گیا مگر جس کی اسے قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ بہر حال یہ تو وہ چیزیں ہیں جو ہماری کمزوریوں کو اجاگر کر رہی ہیں اور ظالموں کے حوصلے کو بڑھا رہی ہیں ۔ اسے کس کو سمجھایا جائے اور کیسے سمجھایا جائے؟ غور و فکر کی گہرائی کب آئے گی اور کیسے آئے گی؟ اللہ ہی جانتا ہے۔

  سدباب کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ گفتگو ہو، بحث ہو، لائحہ عمل تیار ہو، اس پر عمل آوری ہو۔ گفتگو ہورہی ہے، بحث ہورہی ہے،مہم چلائی جارہی ہے مگر صاحب عمل کی تلاش اور صاحب عمل کی ضرورت کا خیال نہیں ہے بلکہ اس کا فقدان ہر قریہ، ہر محلہ اور ہر شہر میں ہے۔ نہ ریاست کی سطح پر کسی ایسی مجلس عمل کی تشکیل ہے اور نہ محلہ اور بستی کے پیمانے پر اس کی ضرورت کا احساس ہے۔ ظالم سے روبرو ہوکر حق گوئی کی بھی ضرورت ہے۔ صوفیا پہلے نریندر مودی کے سامنے حاضر ہوئے۔ پھر روایتی مشائخ اور علماء تشریف لے گئے۔ اب حب الوطنی اور سیکولرزم کے حوالے سے اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے کچھ علماء اور دانشور مودی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ دانشوروں کا حال تو یہ ہے کہ وہ مودی، مودی چیخ کر دو چار جملے کہہ کر اپنی نوکری بچانے اور اپنی تعریف کا ڈنکا پیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

علماء دیگر علماء کے مقابلے میں دوری کے بجائے حکومت کی قربت کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔ جب تک ایسے لوگ جو غیر درباری اور غیر خوشامدی ہیں مودی سے روبرونہیں ہوتے مودی اور ان کے رفقاء کو ان کے ظالمانہ اقدام کا احساس مشکل سے ہوگا ۔ ہمارے درمیان ملک کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک یقینا کچھ لوگ ہیں جو سر جوڑ کر بیٹھ سکتے ہیں ، لائحہ عمل طے کرسکتے ہیں ۔ فساد زدہ علاقوں کا دورہ کر کے حرکت عمل کا بھی فیصلہ کرسکتے ہیں جو جمہوری اور پر امن ہو جس میں توڑ جوڑ بھی نہ ہو، توڑ پھوڑ بھی نہ ہو۔ اصلاح حال ہو مگر سب کچھ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ انتقامی جذبہ کا کوئی نام و نشان نہ ہو۔ انشاء اللہ اگلے مضمون میں ملک کے کچھ دانشوروں سے بات چیت کرکے چند نام پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور ان سے التجا کروں گا :

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے … پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

  نریندر مودی سے تو ہندو اور مسلم دانشوروں کو صاف صاف کہنے کی بیحد ضرورت ہے:

رحم کر ظالم! کہ کیا بودِ چراغ کُشتہ ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔