عازمین حج کے جذبے کو سلام

محمد شاہنواز ندوی

دنیا کے مختلف ممالک سے عازمین حج باری باری حرمین شریفین کی جانب روانہ ہوچکے ہیں، کچھ لوگ مکہ المکرمہ پہنچ کر طواف کر رہے ہیں کچھ لوگ راستہ میں ہیں اور کچھ لوگ ابھی اپنے جانے کی تاریخ کے منتظر ہیں۔ علی کل حا ل اپنے وقت مقررہ پر سبھی لوگ مکہ روانہ ہو جائیں گے، اور فریضہ حج میں مشغول و منہمک ہو جائیں گے۔ حرمین شریفین کی زیارت سے مستفیض ہوں گے۔ روضہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے حب نبوی میں تازگی لائیں گے۔

حج ارکان اسلام میں سے پانچواں اور سب سے آخری رکن ہے، جس کی ادائیگی صاحب نصاب پر ضروری ہے۔ حج کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرنے پر سزا کا اعلان ہے۔ حج کرنے والوں کے بے شمار فضائل ہیں۔ صدق دل سے حج کرنے والے اسی طرح اپنے گناہ سے پاک ہوجاتے ہیں جیسا کہ ایک نومولود بچہ گناہ سے پاک و صاف ہوتا ہے۔ حج کرنے والے تنگی اور محتاجگی کے شکار نہیں ہوتے ہیں۔مال و دولت میں برکت ہوتی ہے۔ لوگوں کی نگاہ میں عزت و شرف کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ گناہ سے بچنے کے لئے بھی حج انسان کو متنبہ کرتا رہتا ہے۔

حج کی ادائگی در اصل سنت ابراہیمی کو تازہ کرنا ہے۔ دوران حج انجام دئے جانے والے اعمال سیدنا ابراہیم سیدنا اسماعیل اور بی بی ہاجرہ کے وہ پاکیزہ اعمال ہیں جو اللہ تعالی کو بے حد پسند آئے تھے۔ اعمال میں ان کی نیک نیتی اور خلوص کے پیش نظر اللہ تعالی نے انہیں پوری امت کے لئے لازم قرار دیا۔ بالخصوص امت محمدیہ کے اوپر اللہ کے برگزیدے بندے ان تینوں باپ،بیٹے اور ماں کی للہیت و صدق و وفا کے اعمال کو تا قیامت لازم قرار دیے دیا۔ جس طرح اس کی عظمت اللہ کی نگاہوں میں ہے اسی طرح اللہ کے نیک بندے بھی ادائے حج کے لئے لاکھوں میل کا سفر کر کے اللہ تعالی کو خوش کرنے کے لئے ہر طرح کی صعوبتیں جھیل کر بلاد حرم تشریف لے جاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے مخلص بندے عمل حج کو رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انجام دیتے ہیں۔ اپنے ساعت اور لمحات کی قدر کرتے ہیں، راحت و آرام ور بے جا خرید و فروخت سے گریز کرتے ہیں، بار بار طواف کرتے ہیں، حجر اسود کا بوسہ لیتے ہیں، حطیم کے پاس بیٹھ کر دعائیں مانگتے ہیں۔ روضہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس درود و سلام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، تاریخی مقامت کا دورہ کرتے ہیں۔ وہ تمام باتیں جنہیں اب تک کتابوں میں پڑھتے تھے یا تقاریر میں سنتے تھے۔ انہیں اپنی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ کس پہاڑ پر کونسی جنگ لڑی گئی تھی، کس پہاڑ پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی تھی۔ کہاں پر زمزم کا چشمہ جاری ہوا تھا۔ کس مقام پر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے، دار ارقم کس جگہ پر واقع تھا۔ امہات المومنین کے حجرہ مبارک کہاں کہاں پر واقع تھے۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا کا گھر کہاں تھا، الغرض ایک ایک چیز پر غائرانہ نظر ڈالتے ہوئے اپنے ایمان و یقین کو تازہ کرنے لگتے ہیں۔ اور چراغ حب نبوی کے لو کو تیز تر کرتے جاتے ہیں۔ خدا سے وابستگی گہری ہوتی جاتی ہے۔ قرآن کریم سے عقیدت بڑھتی جاتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں محو و مگن ہوتے جاتے ہیں۔ اطاعت الہی اور پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ پروان چڑھتا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک ایک قربانی اور دین کی حمایت میں ان کی جانسپاری کے نشانات کو دیکھ کر قلب و جگر میں اسلام کی تئیں سچا جذبہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح مچل اٹھتا ہے۔

جب ایک حاجی جبل احد پر چڑھتا ہے تو وہ جنگ احد کی کیفیت کا استحضار کرکے تڑپ اٹھتا ہے۔ دل میں خیال آتا ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی بقا کی خاطر اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی تھی۔یہی وہ جگہ ہے جہاں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو بڑی بے بے دردی سیشہید کیا گیا تھا۔یہی وہ تاریخ ساز پہاڑ ہے جہاں ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی دل میں بار بار کچوکہ لگاتی ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم عدولی کی وجہ سے جیتی ہوئی بازی ہارنی پڑی تھی۔

حج ایک ایسی عبادت ہے جس کے اندر خالق کائنات نے انسانی زندگی کا فلسفہ بیان کر دیا ہے۔ اس عظیم عبادت میں حاجی حد سیزیادہ تذلل و عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرتا ہے۔ طواف و سعی اور رمی الجمار کے ذریعہ اپنی دیوانگی اور مستانی کی مثال پیش کرتے ہیں۔ بار بار باآواز بلند تسبیح و تہلیل اور تکبیر کی صدا بلند کر کے اپنے خاسکتری اور درماندگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ سب کے سب ایک جیسے سفید دو کپڑوں میں ننگے پیر اور ننگے سر تپتی ہوئی دھوپ میں دیوانہ وار خانہ کعبہ کا چکر کاٹنے میں اپنی خاکساری کا اظہار کرتے ہیں۔ کیا ہی خوب منظر ہے۔ کیسا نرالہ طریقہ ہے۔ جہاں سب کے سب ایک ہی مالک بزرگ و برتر کی یاد میں محو ہیں۔

پوری دنیا کے لوگ ایک ہی جگہ جمع ہوکر اس بات کی دلیل دیتے ہیں کہ بیت اللہ کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ جہاں دنیا بھر کے لوگ جوق در جوق تشریف لا کر اللہ تعالی کے سامنے اپنی غلامی کا اقرار کرتے ہیں۔ اس نظارہ کو دیکھ کر کیوں نہ اللہ تعالی اپنے مقرب فرشتے کے سامنے کہے گا کہ دیکھو یہی وہ ابن آدم ہے جس کے بارے میں تم نے فتنہ پرور ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا، آج کس طرح میرے ایک حکم کے سامنے سر بسجود حاضر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں ہے، جن کے پاس تن پروری اور عیش و عشرت کی تمام سہولیات مہیا ہیں لیکن پھر بھی یہ اپنے ایمان و عقیدے میں اتنے پکے ہیں کہ حکم خداوندی کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ بہت سے عازمین حج خلوص و للہیت کو بالائے طاق رکھ کر ریا و نمود کی خاطر سامان حج تیار کرتے ہیں۔ ان کے یہاں حج کرنے کا مقصد اور مطلب یہی ہے کہ لوگ انہیں حاجی کہہ کر پکاریں، لوگ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں، مجلسوں میں ان کی جگہ سے افضل اور اعلی ہو۔ ایسے لوگ اپنے حج کو بہت زیادہ رنگین بنا کر دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف جہاں وہ دیدار بیت اللہ کا شوق ظاہر کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف اپنی دولت و ثروت کا بے جا استعمال اور فضول خرچی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ روانگی کے موقع پر بلا حساب و کتاب کے خرچہ پر دوعت طعام کا اہتمام کرتے ہیں۔ ائر پورٹ روانہ ہونے سے قبل دولہا کی طرح حاجی کو سجایا جاتا ہے۔ بلکہ کچھ لوگ اس قدر اوچھی قسم کی حرکت کرنے لگتے ہیں کہ ڈھول،تاشہ اور بینڈ باجا کے ساتھ عازم حج کو روانہ کرتے ہیں۔ جن کے ظاہری اعمال سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ان کی نیتیں صاف نہیں ہیں۔ انہیں رب کی رضا کی جگہ لوگوں کی واہ واہی مطلوب ہے۔ انہیں اپنی تعریف و توصیف کی چاہت ہے۔ اس طرح کے بے ہودہ اعمال نہ صرف غلط ہیں بلکہ دین میں ایک طرح کی بدعت کو ایجاد کرنا ہے۔ جو حاجی کے لئے بجائے حصول ثواب کے گناہ کے وسائل بن سکتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حج جیسی عظیم عبادت کے اندر خشوع و خضوع پیدا کیا جائے، اسے اپنی دنیا وآخرت میں سکون و اطمینان کا ذریعہ بنا یا جائے، حج کے تمام ارکان ادا کئے جائیں۔ راحت طلبی سے دور رہ کر اپنے قیمتی اوقات کو یاد خدا میں لگا یا جائے۔ اپنی تمام نمازیں امام حرم کی اقداء میں ادا کی جائے۔ نوافل کی زیادہ سے زيادہ پابندی ہو۔ کثرت سے طواف کیا جائے۔ ہر لمحہ اس بات کی کوشش ہو کہ کسی طرح کی کوئی معمولی سی غلطی سرزد نہ ہوسکے۔ بار بار بیت اللہ کی زیارت کی جائے، حجر اسود کو بوسہ دیا جائے۔ صدقہ و خیرات کا خیال رکھا جائے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ حج پرجانے والوں کے سفر کو قبول فرما، انہیں صحت و تندرستی عطا فرما۔ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما۔ خیر و عافیت کے ساتھ وطن واپسی کی توفیق فرما۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔