میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟
حسینہ بیگم/سندرکماری
دیانگر کے مہاراجہ ان چند والیان ریاست میں سے تھے جو وضع داری اور تعلیم کے بظاہر متضاداوصاف کے حامل تھے، ان کے مذہب کو علوم جدیدہ کی روشنی نے کوئی صدمہ نہیں پہنچایاتھا ، لہٰذاان کے لئے نہایت آسان تھاکہ شیلے اور کیٹس کی نظموں کا مطالعہ کرنے کے بعد مندر میں جاکر بت پرستی کریں۔
وہ ویدانت کے عمیق فلسفہ کو اوہام پرستی کے منافی خیال نہیں کرتے تھے اور اسپنسر اور براٹس کے مقالات پڑھ کر بھی چانرک کے حامی تھے، ان کی اکلوتی بیٹی سندر کماری تھی ، جو اپنے نام کی تفسیر تھی حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت بھی شامل تھا، مجسمہ حسن و معصومیت ، جہاں پہنچتی تھی اپنی شعلہ افروز نگاہوں سے لوگوں کے خرمن دل کو جلادیتی تھی۔
یہ مجسمہ حسن ایک باہوش راج کمار کے قلب کی تسکین کا سامان ہوئی اور شادی کی مقدس زنجیرکی بدولت اس سے وابستہ ہوگئی، شہزادہ بھی قسمت سے ویساہی ملاجیسا ملنا چاہئے تھا، حسین، شریف، سمجھ دار اور مخلص ، اس کا دل محبت سے لبریز تھااور سندرکماری کے دل کے جذبات کو بھی سمجھتا تھا، دونوں کو ایک دوسرے کی بدولت جنت حاصل تھی، ان کی چھوٹی سی دنیا میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔
مگریہ کب ہوا ہے کہ دونوں کو راحت نصیب ہوئی ہو اور تفرقہ پرداز فلک چین سے بیٹھا ہو؟ راج کمار اور سندر کماری اسی دنیا کے فانی انسان تھے، یہ بھی ان قوانین ابدی کے ماتحت تھے جن سے کسی کو چارہ نہیں، غرض سندر کماری کو راج کمار کی فرقت کا صدمہ سہنا پڑا اور قدرت نے اس کے محبوب شوہر کو اس سے ہمیشہ ہمیش کے لئے جداکردیا۔
سولہ برس کی سن میں ایک پیکر حسن و جمال کی بیوگی اور پھر ہندوقانون کے مطابق اس کا مدت العمر ایک زہرہ گداز سانحہ کے رنج و الم کے لئے وقف ہوجانا۔ اب حالت یہ ہے کہ سندرکماری کو دنیا کی کسی چیز سے رغبت نہیں ہے ، وہ زیب و زینت جو نسوانی حسن کا تتمہ ہے اس کے جسم سے ناآشنا ہے، وہ راحتیں جو جوانی کے لئے پیدا ہوتی ہیں وہ اس سے کوسوں دور ہیں ، اس کے دل کی روشنی تاریکی سے تبدیلی ہوگئی اور اب تمام دنیا اس کی نظرمیں اندھیری ہے ، وہ اکثرکہتی ہے اور سچ کہتی ہے کہ کاش میں مرجاتی مگرموت کی آرزو کا پورا ہونا آسان نہیں، آرزو جس چیز کی بھی ہو ، مدعا کے حصول کو دشوار بنادیتی ہے۔
وہ غم جو گلاگھونٹتاہے اور دل میں دھوا ں پیدا کرتاہے ، اکثرانسان کو دنیا کی طرف سے مایوس کرکے ان ابدی حقیقتوں کی طرف متوجہ کردیتاہے، جن کو ہم روحانیت یا مذہب کہتے ہیں، روح دنیا کی مسرتوں سے بیزارہوکر ان مسرتوں کے اکتساب کی تلاش میں گم ہوجاتی ہے جن کو فنا نہیں۔ سندرکماری نے بھی دنیا کی طرف سے بیزار ہوکر مذہب کی طرف رجوع کیا اور رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر بنارس روانہ ہوگئی ، اس کے ضعیف باپ نے ہرچند کوشش کی کہ اسے کچھ دولت دیدے کہ وقت پر کام آئے یا کچھ اور ایسا بندوبست کردے کہ اسے تکلیف نہ ہو، لیکن اس نے قبول نہ کیا اور کہا’’میں دھرم کے لئے باہر نکلی ہوں بھکتی میں مایا کا کیا کام؟‘‘
راجہ صاحب کو مجبورہونا پڑا، اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ ان کی بیٹی کا ارادہ کس قدر مضبوط ہے، اس کے علاوہ اس کے مذہبی ارادوں میں خلل ڈال کر اپنی عاقبت خراب کرنا نہیں چاہتے تھے۔
دنیا کی وہ مقدس چیزیں جو ہمیں دور سے بہت دل فریب نظرآتی ہیں ، مکروہ اور خراب ہوتی ہیں، کتنے راہب ایسے ہیں جو فی الحقیقت راہب ہوں اور کتنے ہادی واقعی ہدایت کاکام کرتے ہیں؟ جب سندر کماری بنارس پہنچی تو اسے بھی ان تلخ حقیقتوں کا احساس ہوا، اس کے رنج و الم نے اس کی فطری کشش کو کم نہ کیاتھا، اس کا ظاہر فریب حسن اب بھی تارک الدنیا راہبوں تک کو اپنا گرویدہ بنالیتاتھا، وہ بنارس جاتے ہی ایک عجیب کشمکش میں مبتلاہوگئی، اس دنیائے تقدس میں جہاں گناہ کا نام لینا بھی گناہ تھا سندر کماری کو ہر درودیوار سے گناہ کی آواز آنے لگی، وہ حیران تھی کہ میں کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں، اس زمین میں جہاں دنیاوی کثافتوں سے بالاترہونے کی آرزو مند ہوں، میرا امتحان اس قدر شدید کیوں لیاجاتاہے، کیا دنیا نیکوں سے خالی ہے؟ کیا تقدس و رہبانیت کا خاتمہ ہوگیا؟ کیا کوئی متنفس ایسا نہیں جواسے صحیح صحیح ہدایت کرے اور مجھے وہ راستہ دکھاسکے جہاں میں پہنچ کرتمام دنیا کو فراموش کردوں؟
ایک روزاسی خیال میں مستغرق گنگا کے کنارے ایک تنہا مقام پر بیٹھی تھی ، اس کی آنکھوں میں کاشی میں آنے کے بعد سے اس وقت کے تمام نظارے پھرآگئے، اکثرپنڈتوں کی بداخلاقی اور اس کی عصمت کے شدیدخطرہ میں پڑجانے کے وہ تمام واقعات اس کی نظرکے سامنے آگئے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ان پجاریوں کے مقدمہ کی بھیانک تصویر بھی آگئی جو معصوم عورتوں کو تہ خانہ میں رکھنے اور ان کی عصمت پر ڈاکہ ڈالنے اور ناجائز بچوں کے مار پھینکنے کے ہولناک جرائم میں ۱۹۰۳ء میں گرفتار ہوئے تھے، اس مقدمہ میں بنارس کے ایک تہ خانہ میں سے تقریباً ستربچوں کی کھوپڑیاں نکلی تھیں جن کو چھپانے کے لئے مار کر وہاں ڈال دیاگیاتھا، اس نے اپنے قلب کی حالت کو دیکھا اور اس پر یہ حقیقت اور بھی واضح ہوگئی۔ اس نے سوچا کہ اسے بہت اچھی طرح عبادت کرنی چاہئے، شاید اس سے مجھے اپنے نفس پر قابو حاصل ہوجائے اور میں فطرت کے مقابلہ میں کامیاب ہوسکوں، لہٰذا وہ تمام مندروں میں گئی اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں مانگیں کہ دیوتا اسے قدرت پر نہ سہی کم از کم اس کے نفس پر اسے فتح دلادیں۔ یہ عمل ایک عرصہ تک جاری رہا، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا اور سندر کماری کے شکوک و شبہات ترقی ہی کرتے رہے ، ایک دن وہ مندر سے نکل رہی تھی ، اس نے دیکھا کہ ایک غریب آدمی مندر میں جاناچاہتاہے لیکن کوئی اسے گھسنے نہیں دیتا، جب اس نے دریافت کیا تو معلوم ہواکہ وہ اچھوت ہے اور اگر وہ اندر گھس آیا تو مندر ناپاک ہوجائے گا، اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہواکہ یہ بے چارہ انسان کیا ان دیوتاؤں کو ماننے والانہیں، پھر دیوتا کے پجاری اسے اپنے معبود تک کیوں نہیں جانے دیتے؟
اس نے قریب جاکر اس شخص سے پوچھا:’’توکون ہے؟‘‘ اس نے کہا:’’میں ایک غریب آدمی ہوں ، میں دیوتا کے درشن کرناچاہتاہوں ، لیکن مجھے گھسنے نہیں دیاجاتاکہ میرے جانے سے مندر ناپاک ہوجائے گا۔‘‘
سندرکماری نے پوچھا: کیا تم انسان نہیں ہو؟
اس نے جواب دیا: میں انسان ضرور ہوں لیکن پنڈت کہتے ہیں کہ میرے چھونے سے ہرچیز خراب ہوجاتی ہے ، جس کھانے کو میں چھولیتاہوں اور جس پانی کو میں پی لیتا ہوں حتی کہ جس چیز پر میرا سایہ بھی پڑجاتاہے وہ بھی ناپاک ہوجاتی ہے۔
سندر کماری زیادہ نہ سن سکی، وہ خیالات میں ڈوب گئی اور وہاں سے چلی گئی ، چاندنی راتکی روشنی میں بنارس کی عالمگیری مسجد نے ایک خاص دلآویزی اختیار کرلی تھی ، اس کے بلند میناروں پر ایک سکوت کا عالم طاری تھا اور اس کے گنبدوں کا شکوہ اور بڑھ گیا، سندر کماری کھڑی ہوئی ، اس نظارہ کو دیکھ رہی تھی اور تعجب کررہی تھی کیا یہ عمارت بھی خود غرضیوں اور نفس پرستیوں کا ویسا ہی مرکز ہے جیسادوسرے معابدمیں دیکھ چکی ہوں، وہ جانتی تھی کہ دنیا کی آبادی کا ایک حصہ مندروں سے علاحدہ ہے اور مسجدوں میں جاکر عبادت کرتاہے، اب اس کے دل میں یکایک یہ خیال آیا کہ اس کے اندر عبادت کا کیا طریقہ ہے؟ اس کے اندر کس کی عبادت ہوتی ہے؟ کیا اس میں وہ لوگ جمع ہوتے ہیں جومیری طرح مندروں سے بیزار ہیںْ ان خیالات میں مستغرق اپنے وجود سے بے خبر اس جگہ کھڑی رہی اور سوچتی رہی کہ یکایک اس نے اذان کی آوازسنی، تھوڑی دیر کے بعد اس نے دیکھا ایک صفائی کرنے والا جھاڑورکھ کر زینہ پر چڑھا اور مسجدمیں داخل ہوگیا، سندر کماری کے دل میں خیال پیدا ہوا، اب لوگ اس کو روکیں گے، لیکن اسے کسی نے بھی اندر جانے سے منع نہ کیا، سندر کماری حیران ہوئی اور وہ بھی مسجدمیں داخل ہوگئی اور صحن کے گوشہ میں بیٹھ گئی۔ حلال خور نے مسجد میں وضو کیا اور نماز میں شریک ہوگیا، سندر کماری نے خیال کیاکہ لوگوں نے اسے پہنچانانہیں ہے ، اگر میں بتادوں تو یہ مسجد سے نکال دیاجائے گا، وہ ہمت کرکے اٹھی مسجد کے اندر گئی اور اس کا ہاتھ پکڑکر بلند آواز سے کہایہ اچھوت ہے اور میرے سامنے جھاڑو دے رہاتھا، اس نے مسجد کو خراب کردیا، حلال خور نے کہا میں مسلمان ہوں، مسلمانوں نے اس سے کچھ نہ کہا، بلکہ سندر کماری کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تو کون ہے جواس شخص کو روکتی ہے؟ وہ حلال خور ضرور ہے مگر ہمارا بھائی اور خدا کا پرستار ہے، وہ ہمارے ساتھ نمازپڑھتاہے، اس میں کسی قسم کا حرج نہیں کیونکہ اسلام ایک فطری مذہب ہے ، اس میں جو شخص داخل ہوتاہے وہ بھی پاک ہوجاتاہے۔ سندر کماری کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، اس نے دل میں سوچا کہ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جواچھوتوں کو برانہیں سمجھتے، لہٰذااس نے اور جرأت کی اور ایک سفیدی پوش بزر گ کے پاس گئی جو امام تھے وہ بولی:
’’مسجد کے پجاری مجھے اپنا دیوتادکھاؤ، جو سب آدمیوں کو برابرسمجھتاہے اور کسی سے نفرت نہیں کرتا۔‘‘
انھوں نے کہا: اس مسجد کے دیوتا کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ، وہ ہرشخص کے دل میں ہے، صرف عبادت سے نظرآتاہے ، وہ ہر چیز کا مالک ہے، دنیا کی کوئی چیز اس کے قبضہ سے باہرنہیں، وہ ایک ہے، نہ اس جیسا کوئی ہے ، نہ اس کا کوئی شریک ہے۔ تو کون ہے جوخدا کو دیکھنا چاہتی ہے؟
سندر کماری: بزرگ انسان کیا تم اسے پوجتے ہو جسے تم نے کبھی نہیں دیکھا؟
امام صاحب: ہاں وہی ایک پرستش کے قابل ہے۔ جس کا ہر چیز پر قابو ہے اور وہ اپنے وجود کے لئے کسی کے دیکھنے کا محتاج نہیں۔
سندر کماری: کیا وہ میرے دل کو گناہ سے پاک کردے گا؟
امام صاحب: اس میں سب طاقت ہے۔
جس طرح کوئی تاریکی سے نکل کر روشنی میں آجاتاہے اور یکایک روشنی کو دیکھ کر اس کی نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہے، اسی طرح راج کماری نے اس مقدس انسان کی پاک نظروں میں کچھ دیکھا اور حیران رہ گئی لیکن تھوڑی دیر بعد اس نے کہا مجھے اپنے پاس رکھو اور اپنے خدا کی باتیں مجھے بتاؤ، مجھے تمہاری باتوں سے بہت اطمینان حاصل ہورہاہے، امام صاحب نے اس سے کہا تو اپنے عزیزوں سے اجازت لے لے ، اگر وہ اجازت دیں تو یہاں آکر مجھ سے پوچھ لیاکر، میں کسی اجنبی عورت کو بلااجازت اپنے گھرمیں نہیں رکھ سکتا، سندر کماری نے کہا: مجھ بدنصیب کا یہاں کوئی نہیں ہے، مجھے آپ کے چہرہ میں تقدس کی چمک معلوم ہوتی ہے؟ جوں جوں میں اس پر نظرڈالتی ہوں مجھے یقین ہورہاہے کہ آپ میں کوئی روحانی کشش ہے، اس لئے مجھے یقین ہے کہ تم مجھے اپنی بیٹیوں کی طرح رکھوگے اور میرے شکوک رفع کرکے مجھے اطمینان و نجات کا راستہ دکھاؤگے۔
سندرکماری اب امام صاحب کے ساتھ رہنے لگی، وہاں اس کے ساتھ عزیزوں کا سا برتاؤ ہوا، امام صاحب کی بہوبیٹیاں اسے بہن کہتی تھیں اور وہ یہ محسوس کرتی تھی کہ وہ ایک نئی دنیا میں آگئی ہے، آہستہ آہستہ اس نے توحید کا سبق سیکھا اور اس کے بعد اسلام کی مساوات اور مسلمانوں کے اخلاق کی گرویدہ ہوگئی، بالآخراس نے ایک دن قبول اسلام کی تمنا کی اور اپنی خوشی سے خدائے واحد کی پرستار ہوگئی، اس نے یہ اصول بھی معلوم کیاکہ اسلام دین فطرت ہے، وہ کسی مرد و عورت کے خلاف نبردآزمائی پر مجبور نہیں کرتا، چنانچہ ایک دن جب اسے امام صاحب کی بیوی نے نکاح کی تلقین کی تو وہ ان کے الفاظ سن کر حیرت میں رہ گئی، اس نے کہا:
ہمارے رسول ﷺ نے فرمایاکہ نکاح میری سنت ہے جو بھی اس سنت سے منھ پھیرے گا وہ ہم میں سے نہیں۔
سندر کماری کو ایک سادھو کے الفاظ یاد آئے کہ ’’فطرت کے خلاف جنگ ناممکن ہے۔‘‘ اور وہ عمیق خیالات میں کھوگئی، جب راجہ دیانگر کو بیٹی کی خبرملی تو وہ خودبنارس آئے اور انھوں نے بیٹی کوتلاش کیا، اس وقت تک وہ مسلمان ہوچکی تھی ، راجہ صاحب پر اس کا گہرا اثر ہوا لیکن شفقت پدری غالب آئی اور وہ اس سے محبت سے ملے، سندر کماری نے انھیں اس معقول طریقہ سے تمام باتیں سمجھائیں اور اس طرح آپ بیتی سنائی کہ وہ بھی مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
سندر کماری جواب حسینہ بیگم ہے، اسلامی شریعت کے مطابق اپنے باپ کی جائداد کی مالک ہوئی اور اس کا عقد باپ کی مرضی کے موافق ایک سید زادہ بیرسٹر سے کیاگیا، شادی کے موقع پر راجہ صاحب نے بہت سا روپیہ اسلامی تحریکات خصوصاً تبلیغ کی امداد کے لئے دیا اور خصوصی جائداد اس کے لئے وقف کردی کہ حضرت شہنشاہ عالمگیری کی روح کو ثواب پہنچانے کا اہتمام کیاجائے، ان کا یہ بھی خیال ہے کہ بنارس کی عالمگیری مسجدمیں نومسلموں کی تعلیم و تربیت کے لئے مدرسہ کھولاجائے نیز نومسلم عورتوں کے لئے ایک آشرم بنایاجائے جس کی نگرانی حسینہ بیگم (سابق سندرکماری) کریں گی۔ (بشکریہ : ضیائے حرم، لاہور)
تبصرے بند ہیں۔