ربیع بن خیثم ؒ 

افتخارالحسن مظہری
عبد اللہ بن مسعودؓ کے شاگرد ، شاگردوں میں سب سے زیادہ تقویٰ شعار و پاکباز، عبد اللہ بن مسعودؓ نے ان سے فرمایا کہ اگر رسول اکرم ﷺ تم کو دیکھتے تو تم سے محبت کرتے، میں نے جب بھی تم کو دیکھا اللہ والوں کی یاد آگئی۔ (سیر اعلام النبلاء: 4-258)
اعضاء کی حفاظت
انسان کے اعضاء اس کے دل کے تابع ہوتے ہیں۔ اس لئے تابعین کرام اعضاء کی حفاظت کا بڑا خیال رکھتے تھے اور نفس کی تربیت میں اس کی دیکھ بھال کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ تاکہ اس کے اثرات دل پر نہ منعکس ہوں۔ اسی لئے حضرت ربیع ؒ اپنے اعضاء کی حفاظت سے کبھی غافل نہ ہوتے۔ ایک بار کچھ خواتین مسجد میں آگئیں۔ جب تک وہ مسجد میں رہیں، آپ نے اپنی نگاہ نہ اٹھائی، مسلسل سر جھکائے بیٹھے رہے تاکہ نفس کی تہذیب و تربیت کے نتیجہ میں جو ایمانی کیفیت حاصل ہوئی ہے وہ نگاہ کی لغزش سے ضائع نہ ہوجائے اور ذہن و دماغ میں آخرت کی جو تصویر جمی ہوئی ہے، اس پر کوئی دوسری تصویر جمال غالب نہ آجائے۔
انسان کسی کی معیت میں چنددن رہے تو اس کی کمزوریوں ، خامیوں اور عیوب سے واقف ہو جاتا ہے۔ اگر یہ معیت سفر کے دوران ہو تو ہفتہ عشرہ میں انسان کے تمام عیوب اس کی نگاہ کے سامنے بے پردہ ہوجاتے ہیں۔ ورنہ عام حالات میں زیادہ سے زیادہ دو ماہ میں اس کے تمام عیوب آشکارا ہوجاتے ہیں۔ لیکن کتنی عظمت کی بات ہے کہ تابعین کے ساتھ سفر و حضر میں بیسیوں سال رہنے کے بعد بھی ان کا کوئی عیب نظر نہ آیا۔ حضرت ابراہیم تیمی سے منقول ہے کہ ربیع بن خیثم کاایک شاگرد ان کے ساتھ بیس سال تک سفر و حضر میں رہا۔ اس نے بتایا کہ آج تک کوئی معیوب بات میں نے ان کے منھ سے نہ سنی۔ (طبقات ابن سعد: 6؍185)
یہ کس تربیت کا نتیجہ تھا کہ زبان پر ایسا کنٹرول قائم ہوا کہ بیس سال کی طویل مدت میں ایک لفظ بھی زبان سے ایسا نہ نکلا جو معیوب ہو۔ صرف یہی نہیں کہ دوسروں پر ان کا کوئی عیب ظاہر ہوا بلکہ خود اپنی نگاہ میں وہ بالکل بے عیب تھے کیونکہ ان کا ظاہر و باطن دونوں یکساں شفاف تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ باطن کے عیوب لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتے لیکن اللہ پر عیاں ہوتے ہیں۔
(طبقات ابن سعد: 6؍186)
تزکیہ نفس کا اہتمام 
ربیع بن خیثم اپنے نفس کے تزکیہ کا اس قدر اہتمام کرتے کہ ان کو اس بات کا موقع ہی نہ ملتا کہ دوسروں کے عیب پر نظر ڈالیں۔ سچ کہا گیا ہے کہ اگر اپنے عیوب پر لوگوں کی نگاہیں رہیں تو دوسروں کا کوئی عیب انھیں نظر نہ آئے۔ ان سے ایک بار کہا گیا کہ آپ لوگوں کی کبھی کوئی برائی نہیں کرتے۔ انھوں نے فرمایا: بخدا میں خود کو ہی اچھا نہیں سمجھتا تو دوسروں کی کیا برائی کروں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ انسان دوسروں کے گناہ پر اللہ سے ڈرتا ہے لیکن اپنے گناہ پر اللہ سے خوف نہیں کھاتا۔ (طبقات ابن سعد: 6؍186)
تدبر کی تربیت
وہ قرآن پڑھتے تو سمجھتے کہ قرآن ان کے قلب پر نازل ہو رہا ہے اور وہی اس کے براہِ راست مخاطب ہیں۔ رات میں ایک دفعہ تہجد کی نماز کے دوران یہ آیت آئی ’’ أَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوْا السَّیِّءَاتِ أَنْ نَجْعَلَھُمْ کَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ سَوَاءَ مَحْیَاھُمْ وَ مَمَاتُھُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ‘‘ تو ان پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ صبح تک نماز میں اسی آیت کودہراتے رہ گئے۔ (طبقات ابن سعد: 6؍186)
اس آیت پر پہنچے تو شدید گریہ کی وجہ سے اس سے آگے نہ بڑھ سکے۔ (الزھد لأحمد: 329)
عدم انتقام کی تربیت
تربیت کے اس اصول پر بھی تابعین ہمیشہ کاربند رہے اور اس کی بڑی سختی سے پابندی کرتے رہے کہ غصہ نہ کیا جائے اور کیا جائے تو صرف اللہ واسطے کیا جائے۔ کیونکہ ان کے سینوں میں جو دل تھا انھوں نے اسے بالکل صاف و شفاف بنا لیا تھا۔ اس میں ما سوا اللہ جو کچھ بھی تھا اسے باہر نکال پھینکا تھا۔ اس لئے ذاتی طور پر کچھ بھی ہوجائے یا کتنی ہی تذلیل ہوجائے، غصہ ان پر سوار نہیں ہوتا تھا۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ ربیع بن خیثم مسجد میں بیٹھے تھے ، لوگ نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک آدمی نے پیچھے سے کہا کہ آگے بڑھیے، وہاں آگے بڑھنے کی گنجائش تھی نہیں، آدمی نے ان کی گردن پکڑ کے اینٹھ دی۔ حضرت ربیع نے دیکھا تو کہا اللہ تجھ پر رحم فرمائے، اللہ تجھ پر رحم فرمائے۔ پھر آدمی نے ان کو پہچانا تو رونے لگا۔ (طبقات ابن سعد: 6؍187)
جو انسان لوگوں میں شہرت و عزت کا مقام رکھتا ہو اس کی اس طرح توہین ہو تو انتقام کے لئے بھڑک اٹھتا ہے۔ فطری امر ہے۔ لیکن ربیع بن خیثم نے اس کے برعکس زیادتی کرنے والے کو رحمت کی دعا دی،دو مرتبہ ۔ اخلاق کی اس عظمت کا زیادتی کرنے والے کو احساس ہوا تو روپڑا۔
ایک بار ان کا گھوڑا چوری ہوگیا۔ جو اس وقت کی انتہائی بڑی قیمتی سواری تھا۔ اہل مجلس نے کہا چور کے لئے بد دعا کر دیجئے۔ آپ نے فرمایا: نہیں، میں اس کے لئے دعا کروں گا۔ اگر وہ مالدار ہو تو اللہ اس کے دل کو راستبازی عطا کرے، اور اگر محتاج و ضرورت مند ہو تو اس کو مالدار کردے۔ (الزھد لاحمد: 332)
آخرت کا تابعین پر ایسا غلبہ تھا کہ دنیاوی امور کے لئے ان کے دلوں میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ ان کو کوئی غم تھا تو آخرت کا، کوئی خوشی تھی تو آخرت کی، دنیا کی ان کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں تھی۔ ایک بار کسی نے ان سے پوچھا: رات کیسی گزری، صبح کس حال میں ہوئی؟ فرمایا: ناتوانی و گنہگاری کے حال میں اپنا رزق کھاتے ہیں۔ اپنی موت کا انتظار کرتے ہیں۔ غرض تابعین کے نزدیک کسی چیز کی اہمیت تھی تو آخرت کی۔ اس لئے دنیاوی معاملات و امور میں انہماک کو وہ وقت کاضیاع سمجھتے تھے۔ ان کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ ربیع بن خیثم جب بھی دنیاوی معاملات کی کوئی بات کرتے تو آخرت کی بھی کوئی بات ضرور کرتے۔
اللہ کا ڈر
ایام طفولیت میں ربیع بن خیثم کی عبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ قیام لیل کی کثرت سے ان کی ماں کو تشویش ہونے لگتی۔ وہ کہتیں کہ : اے ربیع! کیا رات بھر جاگتے ہی رہوگے؟ اب سوجاؤ۔ وہ کہتے: ماں! جس کو اپنی برائیوں کا ڈر ہو اور گناہوں کا خوف ہو رات کے اندھیرے میں وہ کیسے سو سکتاہے؟ پھر جب بالغ ہوئے اور ماں ان کی شب بیداری اور گریہ ہائے نیم شبی کی کیفیت دیکھتیں تو ان کو بڑا ترس آتا۔ کہتیں کہ بیٹے! تم پوری پوری رات رو رو کے گزارتے ہو،کسی کا قتل کیا ہے کیا؟ وہ بولتے؛ ہاں، میں ایک مقتول کا قاتل ہوں۔ وہ پوچھتیں ؛ بیٹا! وہ کون ہے؟ بتاؤ ، ہم اس کے گھر والوں کے پاس جاکر تمہاری معافی کی التجا کریں گے۔ اگر ان کو تمہارے رات بھر نہ سونے اور مسلسل روتے رہنے کی بات سنائیں گے تو وہ ضرور تم پر رحم کریں گے۔ وہ کہتے؛ ماں! میں اپنے نفس کا قاتل ہوں۔ (الزھد لأحمد: 340)
تابعین ہمیشہ اسی طرح نفس سے برسرپیکار رہتے،نفس ان کو برائی کی طرف بزور کھینچنا چاہتا ، وہ بزور اس کو نیکی کی طرف کھینچتے۔ نفس سے مسلسل کشمکش جاری رہتی تاکہ نفس پورے طور پر خیر و صلاح کا مشتاق و خوگر ہوجائے۔
ربیع بن خیثم کے گریہ شب اور رات بھر جاگنے کا حال ان کے سارے گھر والے جانتے تھے۔ ان کی بیٹی بھی ان کی ریاضت دیکھ کر تڑپ جاتی۔ کہتی؛ ابو! سبھی لوگ سوتے ہیں، آپ کیوں نہیں سوتے؟ وہ کہتے: بیٹی! مجھے اپنے گناہوں کا خوف ہے، کیسے سوؤں ؟ (الزھد لأحمد: 337)
محاسبۂ نفس کی نادر مثال
جب انسان عبادت و ریاضت کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کر لیتا اور تعلق باللہ کی ایمانی کیفیت و لذت پالیتا ہے تو عموماً خود پسندی اور ناز میں مبتلا ہوجاتاہے۔ ربیع بن خیثم نفس کی یہ چوری بھی پکڑ لیتے تھے اور اس کی اصلاح کے لئے کہتے کہ:
جن پاکبازوں کی صحبت میں تو رہا ہے ان کو دیکھ اور خود کو دیکھ۔ ان کے سامنے تو چورکٹ معلوم ہوتا ہے۔ (الزھد لاحمد: 337)
نفس کا اتنی باریک بینی سے محاسبہ صرف خوف الٰہی کا نتیجہ ہے۔ ایک ایک بات، ایک ایک فعل میں یہ دھیان کہ کہیں اخلاص و للٰہیت سے اس کا رشتہ ٹوٹنے نہ پائے۔ اسی بات کی تلقین وہ اپنے شاگردوں کو بھی کیا کرتے تھے۔
تم یہ مت کہو کہ اللہ میں توبہ کرتا ہوں بلکہ یوں کہا کرو کہ اے اللہ میری توبہ قبول فرما کیونکہ اگر تم کہو کہ اے اللہ میں نے توبہ کی اور یہ کہنے کے بعد خدانخواستہ پھر گناہ ہوگیا تو تم اپنی توبہ میں جھوٹے ہوگے۔ (الزھد لاحمد: 337)
ایک بار کا واقعہ ہے کہ اپنے شاگردوں میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان کی بچی آئی اور ان سے کھیلنے کی اجازت مانگنے لگی۔ انھوں نے کہا؛ بیٹی ! جاؤ کلمۂ خیر کہو، بچی نے زیادہ اصرار کیا تو کچھ لوگوں نے کہا اسے تھوڑا کھیل لینے دیجئے۔ انھوں نے کہا؛ میں ہرگز یہ پسند نہیں کرتا کہ آج مرے نامہ اعمال میں یہ بات لکھی جائے کہ میں نے کھیل کا حکم دیا۔ (الزھد لاحمد: 337)
رخصت کے بجائے عزیمت پر عمل
رخصت پر عمل کرنے کا موقع و محل ملا تب بھی وہ رخصت پر عمل کرنے کے بجائے عزیمت پر ہی عمل کرتے تھے تاکہ رخصت پر عمل کرتے رہنے سے دوسرے اوامر الٰہی سے بھی بے اعتنائی کا رجحان نفس میں جگہ نہ پاجائے۔ آخری عمر میں ان پر فالج کا حملہ ہوگیا۔ ان کو مسجد لے جایا جاتا رہا۔ لیکن اس میں کچھ دشواری ہوتی تھی۔ کہا گیا کہ رخصت پر عمل کرتے ہوئے گھر ہی میں نماز ادا کرلیں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ آپ بیمار ہیں۔ انھوں نے کہا حی علیٰ الفلاح کی آواز میرے کانوں میں آتی ہے تو کیسے اس پر لبیک نہ کہوں۔ ( الزھد: 339)

تبصرے بند ہیں۔