ہمیں چمکنے سے فرصت نہ اُن کو جلنے سے
افتخار راغبؔ
شگفتہ غزل
ہمیں چمکنے سے فرصت نہ اُن کو جلنے سے
پہ ہاتھ صاف ہیں یاروں کے ہاتھ ملنے سے
…
ہے اُن کا دعویٰ کہ لائیں گے اب وہ اچھے دن
وہ سارے پیڑ جو بھاگے ہوئے ہیں پھلنے سے
…
ہے مکُا یاد مگر ہر کسی سے کہتا ہوں
کہ دانت ٹوٹ گئے ہیں مرے پھسلنے سے
…
پکا پکا کے خیالی پلاو کھاتا ہوں
اگرچہ ہے بڑا پرہیز عمر ڈھلنے سے
…
نہ تھا جہاں میں موبائل تو دبلے تھے عاشق
گلی میں یار کی فرصت نہ تھی ٹہلنے سے
…
اچھل اچھل کے نہ تقریر کیجیے صاحب
"بلند ہوتا ہے انساں کہیں اچھلنے سے”
…
دوا بدل کے بھی حاصل نہ کچھ ہوا راغبؔ
بہت افاقہ ہے اب قافیہ بدلنے سے
تبصرے بند ہیں۔