انسان اور زمین کی حکومت (قسط 32)

رستم علی خان

جیسا کہ پیچھے بیان ہوا کہ حضرت اسحاق کے دو بیٹے تھے حضرت یعقوب اور حضرت عیص علیہم السلام حضرت یعقوب اور آل یعقوب کے بارے پیچھے محتصر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے- حضرت اسحق کے دوسرے بیٹے عیص نے حضرت یعقوب کی وطن واپسی کے بعد وہاں سے ہجرت فرمائی اور روم میں جا کر رہنے لگے آپ کی شادی حضرت اسماعیل کی بیٹی سے ہوئی- آپ کی اولاد میں سے حضرت ایوب علیہ السلام نبی مرسل ہوئے-

علمائے تفسیر اور مورخین بیان کرتے ہیں کہ حضرت ایوب ایک صاحب ثروت انسان تھے- اللہ نے آپ کو ہر قسم کے مال سے نوازا تھا مثلا جانور، مویشی، غلام، حوران، اولاد کی کثرت غرض اللہ نے آپ کو کر چیز کثرت سے عطا کر رکھی تھی- حضرت ایوب بھی اللہ کے حکم کی بجا آوری میں کوئی کوتاہی نہ کرتے آپ اس قدر مہمان نواز تھے کہ جب تک دس غریب، مسکین، مسافروں کو کھانا نا کھلاتے خود نہ کھاتے- اور اس کے علاوہ ہمیشہ اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے-

آپ کی شادی کے بارے کئی اقوال موجود ہیں کہ آپ کی کئی بیویاں تھیں اور کچھ کے مطابق آپ کی شادی حضفت یعقوب کی بیٹی سے ہوئی تھی جن کا نام "لیا” تھا- بعض مفسرین کے مطابق آپ کی شادی حضرت یوسف کے بیٹے افرائیم کی بیٹی سے ہوئی اور اسی طرح چند ایک اقوال اور بھی ہیں اس ضمن میں- واللہ اعلم بالصواب

روایات میں ہے کہ آپ کی عبادت و ریاضت اور بندگی کو دیکھ کر فرشتے بھی تعجب کیا کرتے تھے- ایک دن ملائکہ نے بارگاہ ربویت میں عرض کی کہ یا باری تعالی تیرا جو بندہ ایوب تیری اس قدر عبادت کرتا ہے اور تیری بندگی میں لگا رہتا ہے یہ سب اس لئیے کہ اللہ نے اسے بہت کثیر مال مویشی اور اولاد عطا کی ہے اور دنیا میں ہر قسم کے آرام سے رکھا ہوا ہے اور انہیں کوئی غم پریشانی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فکر ہی ہے کسی طرح کی تو اس کے باعث وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں کہ ان سے یہ سب چھین نہ لیا جائے-

چنانچہ اللہ تعالی نے فرشتوں سے کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ ایوب کی عبادت و بندگی محض میری رضا اور خوشنودی کے لئیے ہے نا کہ مال اولاد کی ہمیشگی کے لئیے- اگر میں اسے رنج و مصیبت اور افلاس و تنگدستی میں ڈالوں گا تو بھی وہ کوئی شکایت زبان پر نہ لائے گا اور اس سے بھی بڑھ کر صبر و شکر کا مظاہرہ کرے گا اور میرئ رضا میں راضی رہے گا-

چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کی طرف وحی نازل کی اور پوچھا کہ کیا یہ حال اچھا ہے کہ لذت دنیا کے ساتھ عبادت و ریاضت کرو اور شکر ادا کرو میری عطا کرو میری نعمتوں کا- یا پھر تنگدستی اور رنج و آلام اور بیماری والی حالت عطا کروں کہ صبر کرو اس پر اور شکر ادا کرو میرا اس حال میں بھی تو بیشک مصیبتوں اور پریشانیوں پر صبر کرنے اور ہر حال میں شکر کرنے والوں کا اجر زیادہ ہے-
تب حضرت ایوب نے جواب دیا کہ الہی میں ہر حال میں صبر و شکر کا دامن نہ چھوڑوں گا اور تیری ہی عبادت کروں گا اور تجھی سے مدد مانگوں گا- چنانچہ مجھے وہ عطا کر جس سے میں تیرے اور قریب ہو جاوں اور تجھے پسند آ جاوں- الغرض آپ نے اپنے لئیے مصیبتوں، پریشانیوں، تنگدستی اور بیماریوں کا انتخاب فرمایا کہ صبر کرنے والوں میں شمار کئیے جائیں-  اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی نے حضرت ایوب سے کہا کہ اللہ نے آپ کو بہت سے مال مویشی اور غلام، زمینیں اور اولاد و فرزند کی کثرت سے نوازا ہوا ہے-

حضرت ایوب نے جواب دیا کہ اس کے عوض تو ہم شکر اور عبادت و ریاضت کرتے ہیں- پس آپ کا یہ قول بارگاہ ربی میں ناگوار گزرا اور آپ کی آزمائش ہوئی کہ بھلا مال و اولاد کے جانے کے بعد بھی آپ صابر و شاکر رہتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں_ تب آپ کا مال و اسباب اور اولاد سب جاتے رہے اور آپ کو بھی بیماریوں نے گھیر لیا۔

چنانچہ آپ کی آزمائش کا دور شروع ہوا- خبر ہے کہ پہلے نقصان مال و اسباب میں ہوا بعد اس کے یکایک ساری چیزیں جاتی رہیں- اولاد ان کی چھت کے تلے دب کے مر گئی- اور چالیس ہزار مویشی بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ، گھوڑے، ہاتھی جتنے تھے سب کے سب مر گئے-

پاسبانوں نے آ کے حضرت کو خبر دی آپ عبادت میں مشغول تھے- بعد فراغت وہ بولے حضرت آپ کی بھیڑ بکریاں میدانوں میں جتنی تھیں غیب سے آتش آئی اور ان سب کو جلا گئی- آپ نے فرمایا تو میں کیا کروں جس کی تھیں سو لے گیا- اور پھر عبادت میں مشغول ہو گئے-

بعد اس کے چرواہے نے آ کے خبر کی کہ حضور ایک آگ آپ کی سب گائے بیلوں کو جلا گئی- آپ اسی طرح عبادت میں مشغول رہے- الغرض باری باری ہر چیز گئی شتر بانوں نے اونٹوں کے مرنے کی خبر دی تو سائیسوں نے گھوڑوں کے جل جانے کا واقعہ بیان کیا- آپ نے یہی کہا کہ میں کیا کر سکتا ہوں رضا الہی اگر یہی ہے تو یہی سہی سب مال و اسباب اور جانور مویشی اسی کی عطا تھی اگر وہ دے سکتا ہے تو اپنی چیز لے بھی سکتا ہے کہ وہی ہر چیز کا مالک و مختار ہے میں تو خود اس کے آگے ایک بندہ عاجز کے سوا کچھ نہیں سو اگر وہ لے گیا تو لے جانے دو آخر اسی کی امانت تھی اس نے لے لی- اور خود دوبارہ سے عبادت میں مشغول ہو گئے-
دوسرے دن ایک آگ آپ کے گھر پر گری اور گھر کی ہر چیز سامان، چھت، دروازے، کھڑکیاں اور جو کچھ گھر میں تھا سب جل کر راکھ ہو گیا- تب بھی آپ عبادت میں مشغول تھے آگ کے شعلے ان پر گرنے کو ہوئے- تب لوگوں نے کہا کہ حضرت اب تو کچھ نہیں بچا اب تو کچھ کیجئے کہ ہر چیز ختم ہو گئی کل اثاثے جاتے فصلیں برباد ہو گئیں مال و اسباب جاتا رہا گھر بار آل اولاد سب ختم ہو گیا ابھی تو کچھ باقی نہیں بچا-

تب حضرت ایوب نے کہا ابھی جان باقی ہے سو جو ہے بہتر ہے اسی میں اللہ کی رضا ہے تو یہی سہی میں کیسے اس سے شکوہ کروں کہ میں تو اپنی جان کا بھی مالک نہیں ہوں یہ بھی اسی کی امانت ہے سو اگر وہ یہ بھی واپس مانگ لے تو میں راضی برضا اس کے حوالے کر دوں گا ورنہ جب تک ہے میں اس کا شکر کرتا رہوں گا اور اس کی عبادت و فرمانبرداری میں کوتاہی نہ کروں گا-

پھر دوسرے دن آپ کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں معلم کے پاس پڑھتے تھے اتفاقا معلم کسی کام سے گھر سے باہر گیا تھوڑی دیر بعد آ کر دیکھتا کیا ہے کہ گھر کی چھت گری پڑی ہے اور لڑکے بالے سب اس کے نیچے آ کر مر گئے ہیں- چنانچہ وہ دوڑا ہوا حضرت ایوب کے پاس پنہچا اور خبر دی کہ حضور غضب ہو گیا آپ کی اولاد مکتب کی چھت گرنے سے نیچے دب کر مر گئے- آپ نے کہا غم نہ کرو وہ سب شہید ہوئے اور اپنے ہمیشگی کے ٹھکانے پر پنہچ گئے اور وہ بہت بہتر ہے یہاں کی نسبت- غرض زن و فرزند، مال و متاع، گھر بار، مال مویشی سب جاتا رہا- غم فرزندان سے صبر کرتے اور اپنی بیوی کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتے "صبر کنجی ہے کشادگی کی”

پھر ایک ہفتہ بعد نماز پڑھتے ہوئے ایک پھپھولا پڑا اور زخم ہوا پھر کچھ ہی دنوں میں سارے جسم پر اسی طرح کے پھپھولے پڑے اور زخم ہوئے اور جسم کا گوشت بھی گل کر پیپ کی طرح بہنے لگا- (بعض روایات میں ہے کہ چیچک کا مرض تھا جو شدت اختیار کر گیا اور اس سے پورا جسم گلنے سڑنے لگا یہاں تک کہ اس میں سے گوشت نکل کر پیپ کی طرح بہنے لگا) آپ کی آزمائش یہیں پر نہ رکی بلکہ ان زخموں میں کھلا رہنے کی وجہ سے کیڑے پڑ گئے جو گوشت کو چاٹ چاٹ کر کھانے لگے- باوجود اس قدر شدید بیماری اور تکلیف کے بھی آپ اللہ کی عبادت میں کوتاہی نہ کرتے- بلکہ اور بھی زیادہ اللہ کی عبادت کرتے اور اس حال میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکتے-

لوگ کہتے کہ اے ایوب تو اب بھی اللہ کا شکر کرتا ہے کہ جس نے تجھے اس حال میں پنہچا دیا کہ تیرا سب کچھ جاتا رہا بیماری نے تجھے تنہا کر دیا کہ کوئی تیرے قریب بیٹھنے سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں یہ بیماری اسے نہ لگ جائے اور جسم میں کیڑوں اور گوشت کے گلنے کی وجہ سے بدبو پیدا ہو گئی ہے- تو اب کس بات کا شکر کرنا اور اگر اللہ چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا آپ ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں تو آپ اس سے دعا کریں کہ وہ آپ کو پہلے جیسا کر دے پھر لگے رہنا عبادت کرنے اور شکر کرنے-

تب آپ کہتے کہ جس اللہ نے اتنے سالوں تک خوشحال رکھا صحت و قوت گھر بار مال و اولاد دئیے رکھا اب اگر وہ مجھے اس حال میں رکھ رہا ہے تو کیا میں اس سے شکوہ کروں- کیا یہ ان تمام نعمتوں کی نا شکری نہ ہو گی جو اس نے مجھے عطا کئیے رکھیں تھیں- اگر اتنا عرصہ وہ مجھے خوشحال رکھ سکتا ہے تو اسے قدرت ہے کہ وہ مجھے کچھ عرصہ بدحال بھی کئیے رکھے اور میں ہر حال میں اس سے راضی ہوں اور اسے راضی کرنے کے لئیے ہمیشہ اس کی عبادت و فرمانبرداری میں لگا رہوں گا- اور ایک جگہ پڑے اللہ کی عبادت اور زکر و تسبیحات میں مشغول رہتے۔

یہاں تک کہ آپ ایک ہی جگہ پڑے رہتے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے یہاں تک کہ ہلنے جلنے کی طاقت بھی نہ رہی- اسی طرح چار برس تک فرش رہے یہاں تک کہ کیڑے آنکھوں میں بھی پڑ گئے تھے- خویش و اقرباء، اپنے بیگانے محلے والے آپ سے نفرت کا اظہار کرنے لگے تھے- سب سے رشتہ چھوٹ گیا یہاں تک کہ چار بیبیاں تھیں وہ بھی طلاق لے کر آپ سے اس بیماری کی وجہ سے دور ہو گئیں- صرف ایک بی بی ہی جو نیک بخت تھیں آپ کے ساتھ آپ کی خدمت کے لئیے رہ گئیں- جب آپ نے اس سے اس کی مرضی پوچھی کہ سب مجھے چھوڑ کر چلے گئے میری بیماری اور تنگدستی کی وجہ سے سو تم بھی چاہو تو جا سکتی ہو اور میری طرف سے تم پر کوئی پابندی نہ ہو گی- تب وہ بولیں، اے حضرت جیسا کہ میں آپ کی صحت و تندرستی اور دولت و نعمت میں شریک تھی اب اس بیماری اور مصیبت و پریشان حالی میں بھی آپ کی شریک رہوں گی- آپ کی خدمت کروں گی اور رنج و مصیبت جو بھی ہو ساتھ ہی جھیلوں گی- اور اگر اللہ نے چاہا تو میرے لئیے دونوں جہان میں یہی میری نجات کا زریعہ ہو گا- چنانچہ اسی حال میں سات برس کا عرصہ بیت گیا-

حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایوب اٹھارہ برس اس مرض میں گرفتار رہے- تمام بدن میں کیڑے پڑ گئے تھے- ان کی بدبو سے محلے والے تنفر کرتے اور کہتے کہ ہم ان کی بدبو سے محلے میں نہیں رہ سکتے- اور ہم ڈررتے ہیں کہ خدا نخواستہ ان کی بیماری اگر ہم میں سرایت کر گئی تو ہم مارے جائیں گے- اس لئیے لوگوں نے آپ کو اس گاوں میں رہنے نہ دیا اور خویش و اقرباء کسی نے حال نہ پوچھا- آپ کی خدمت میں صرف ایک بیوی رحیمہ اور دو شاگرد رہے-

چنانچہ جب لوگوں نے آپ کو وہاں رہنے نہ دیا تو آپ کے شاگردوں نے آپ کو ایک ٹاٹ میں لپیٹا اور دوسرے گاوں میں لا کر رکھا- پس آپ روتے تھے اور کہتے تھے کہ کہاں گئی ہماری سرداری اور میرے فرزند و عزیز سب کیا ہوئے آج کوئی نہیں جو میرا پرسان حال ہو اور اس بیماری میں میری حال پرسی کرے الٹا مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور میری بیماری کی وجہ سے مجھ سے کراہیت کا اظہار کرتے ہیں اور مجھے میرے علاقے سے نکال باہر کیا- مگر یا اللہ تو ہی ہے میرا مالک اور رحم کرنے والا مہربان کہ ہر حال میں تیرا ہی آسرا ہے اور میں صبر و شکر کرنے والا ہوں تیرا اس حال میں بھی- (آپ یہ باتیں اپنے نفس سے کہتے نہ کہ شکوہ کرتے- بلکہ اپنے نفس کو طعن کرتے کہ کہاں ہیں وہ سب جو اچھے وقتوں میں تمہارے بڑے قریب تھے اب سوائے اللہ کون ہے تمہارا پرسان حال سو وہی مالک برحق ہے اس کا شکر کرو ہر حال میں وہی رحم کرنے والا ہے).

الغرض آپ کو وہاں بھی نہ رہنے دیا اور ان لوگوں نے بھی آپ کی بیماری کی وجہ سے تنفر کا اظہار کیا تو تیسرے گاوں میں لے گئے وہاں بھی یہی حال پیش آیا تو بعد اس کے ان دونوں شاگردوں نے ناچار ہو کر آپ کو ایک میدان میں لے جا کر ایک درخت کی چھاوں تلے رکھ دیا- چند روز حضرت کی خدمت میں رہنے اور ان کے لئیے ایک جھونپڑی جو لکڑیوں اور گھاس پھونس سے بنائی تھی تیار کرنے کے بعد وہ دونوں بھی آپ کو چھوڑ کر واپس گاوں میں چلے آئے-

صرف ان کی بیوی ان کی خدمت میں رہ گئی- وہ ہر روز انہیں اکیلا وہاں چھوڑ کر گاوں میں آتیں لوگوں کے گھروں میں محنت مزدوری کرتیں اور اس سے جو کچھ ملتا کھانے کو کے آتیں اور پھر حضرت ایوب کی خدمت میں دست بستہ حاضر رہتیں- چونکہ آپ بیماری کی وجہ سے ہلنے جلنے کی اسطاعت بھی نہ رکھتے تھے سو قضائے حاجت سے لے کر آپ کے ہاتھ پیر دھلوانے اور آپ کو عبادت کے لئیے اٹھنے میں اور اسی طرح سارے کاموں میں مدد کرتیں اور خدمت میں کوتاہی نہ کرتیں اور نہ ہی بیزاری یا رنج کا اظہار کرتیں بلکہ صبر و شکر سے آپ کی خدمت میں لگی رہتیں-

ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت ایوب کی بیوی اپنی عادت کے موافق گاوں کی طرف نکل گئیں کہ کچھ محنت مزدوری کر کے اپنے اور اپنے شوہر کے کھانے کے لئیے کچھ لا سکیں- لیکن اس دن ایسا ہوا کہ انہیں کسی نے مزدوری کے لئیے نہ بلایا اور وہ انتظار کرتی رہیں اسی طرح شام ہو گئی- پھر وہ بی بی حیران و پریشان اور مایوسی کی حالت میں یہ سوچتی ہوئی واپس مڑیں کہ آج میں اپنے شوہر کو کیا کھلاوں گی اور خالی ہاتھ کس طرح ان کے پاس جاوں گی- پھر عرض کی کہ یا اللہ تو ہی اب میرا پرسان حال ہے تو ہی میری مدد فرما- اور وہاں سے ایک کافرہ عورت کے پاس گئیں اور اس سے کہا کہ اے بی بی میرا شوہر بیمار ہے اور وہ اکیلا ہے مجھے خوف ہے کوئی موذی جانور یا درندہ اسے نقصان نہ پنہچا دے- میرے پاس کھانے پکانے کو کچھ نہیں ہے اور میں خالی ہاتھ بھی جا نہیں سکتی تم مجھے کچھ عنایت کر دو تو میں کھانے کے لئیے کچھ لے جا سکوں اور اس کے بدلے میں میں کل تمہارے یہاں مزدوری کر لوں گی- یا جو مزدوری ملی وہ کر کے اس میں سے تمہارا قرض ادا کر دوں گی-

تب وہ عورت بولی کہ میرا کچھ کام نہیں ہے- اور میں تمہارا اعتبار کیوں کروں کیا خبر تم کل آو ہی نہ تو میں واپس کس سے لوں گی- ہاں مگر مجھے تمہارے سر کے بال بہت پسند آئے ہیں- سو اگر ان میں سے کچھ حصہ مجھے کاٹ کر دے دو تو میں تمہیں کھانے کو کچھ دے سکتی ہوں یا ان کی قیمت ادا کر دوں گی تو کھانے کو کچھ کے لینا-

تب حضرت ایوب کی بیوی رو پڑیں اور عاجزی سے کہنے لگیں کہ اے بی بی اس بات سے مجھے معاف رکھو یہ بال میرے شوہر کو بڑے پسند رہے ہیں اور اب بیماری میں ان کے ہاتھ عصا پکڑنے کی ہمت نہیں رکھتے اور نہ اتنی طاقت ہی ہے کہ عصے کے سہارے ہی اٹھ سکیں- سو میرے بالوں کو پکڑ کر نماز اور عبادت کے لئیے اٹھتے ہیں- سو مجھے بطور قرض کچھ ادا کر دو میں لوٹا دوں گی- بہتیرا سمجھانے اور عجز و انکساری پر بھی وہ عورت نہ مانی اور یہی کہا کہ اگر کھانے کو کچھ لینا ہے تو میری یہی شرط ہے- حضرت ایوب کی بیوی کھانا لئیے بنا جانا بھی نہ چاہتیں تھیں کہ ان کو اپنے خاوند کا خیال تھا سو ناچار اس کی بات مان لی اور بالوں کے عوض کھانا خرید لیا اور واپس گھر کی طرف ہو لیں۔

تبصرے بند ہیں۔