تُو رزم گاہ ِ تجسس میں دُو بدُو بھی نہیں

ادریس آزاد

 تُو رزم گاہ ِ تجسس میں دُو بدُو بھی نہیں
شکست خوردہ نہیں میں تو سرخرو بھی نہیں

اُسے تو عالم ِ لاھوت کہہ کے ٹال دیا
وہاں سے خاک ملے گی وہاں تو ’’ھُو‘‘ بھی نہیں

تجھے جہاں کے پس و پیش میں تلاش کیا
تو جابہ جا بھی نہیں ہے، تو رُو بَرُو بھی نہیں

خیال و خواب میں بستے ہیں تُو بھی، میں بھی مگر
جہاں میں، میں بھی نہیں ہوں، جہاں میں تُو بھی نہیں

سِرے سے کچھ بھی نہیں ہے کہ جو حقیقت ہو
یہ سنگ و خشت خیالی ہیں ان کو چھُو بھی نہیں

کہیں ثبوت نہیں ہے وجود کا کوئی
جو میرے دِل میں نہیں ہے وہ چارسُو بھی نہیں

یہ سوزو ساز، یہ درد و الم، یہ رقص و سرود
یہ دل بھی، آنکھ بھی، طوفان بھی، لہوبھی نہیں

میرا یہ غم کہ کبھی کامیاب ہونہ سکا
تری خوشی کے ترے رُو برو عدو بھی نہیں

نہیں نہیں کوئی باطل نہیں، کوئی بھی نہیں
کسی شریر میں جب سرکشی کی خُو بھی نہیں

تمام لفظ ہمیشہ سے بے معانی ہیں
یہ اتنا سچ ہے کہ اب اس پہ گفتگو بھی نہیں

مجھے یقیں ہے کہ میں ہی نہیں کہیں موجود
تو اس کے بعد مجھے تیری جستجو بھی نہیں

میں خود کو سارے زمانے میں دیکھ آیا ہوں
میں در بدر بھی نہیں ہوں ، میں کُو بہ کُو بھی نہیں

تبصرے بند ہیں۔