اگر میں سچ کہوں تو صبر ہی کی آزمائش ہے
ڈاکٹر سلیم خان
قرآن مجید کے خیرو برکت کا قائل ہر کوئی ہے۔ کچھ لوگ اسے غوروفکر اور درس و تدریس کی کتاب بھی سمجھتے ہیں لیکن جب برتنے کا موقع آتا ہے تو حیلے بہانے یاد آتے ہیں۔ اس آیات کے درس میں کہ ’’ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ "ہم ایمان لائے ” اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچّے کون ہیں اور جھوٹے کون؟ ‘‘۔ہم ابتلاء و آزمائش کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مصائب میں ثابت قدم رہنے والوں کواللہ اپنا برگزیدہ بندہ اور منتخب دوست بنا لیتا ہے۔ اسے عزت و اکرام کی خلعت عطا فرماتا ہے، خاتمہ بالخیر کرتا ہے۔ ہم نبی پاک ؐ کی حدیث بھی سناتے ہیں کہ ’’کسی شخص کو صبر سے زیادہ وسیع تر اور بہتر عطا اور انعام و اکرام نہیں دیا گیا ‘‘۔
ہم اپنے سامعین کو بتاتے ہیں کہ امتحان میں ثابت قدمی سے بندے میں عبودیت و بندگی کی صفت پیدا ہوتی ہے اور شرف عبودیت سے نوازے جانے والوں کے لیے بہترین انجام کا وعدہ ہے ـ ابتلاء و آزمائش میں دلوں کی چمک ، ایمان کی کسوٹی، اخلاص کی نشانی، جذبہ و تسلیم و رضاء کی دلیل اور اطاعت و فرمانبرداری کی شاہد ہے۔ یہ ہمیں ناپسند ہے مگر ارشادِ ربانی ہے ’’ عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائیاں پیدا کر دے‘‘ ـ صبر واستقامت کا بیان ہو اورحصول ثبات کے ذرائع نہ بتائے جائیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم بتاتے ہیں کہ اس کا اولین ذریعہ رجوع الی اللہ ہے یعنی سچے دل سے اللہ کی طرف رجوع کرنا، جھکنا اور اسی سے التجاء کرنا، اسی پر بھرپور توکل و اعتماد کرنا، انتہائی فروتنی و انکساری بلکہ خاکساری اختیار کرنا، گناہوں کو ترک کرکے خطاؤں سے دور ہو کر توبہ و استغفار کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔
پہلے والے لوگوں کی آزمائشوں کا ذکرنے سے قبل یہ واضح کیا جاتا ہے کہ آزمائش و امتحان اللہ تعالی کی عام سنت و طریقہ ہے۔ نبیٔ کریم ؐ کی حدیث ہے کہ ’’سب سے زیادہ آزمائش و امتحان سے انبیاء کرام کو دوچار کیا گیا، پھر انبیاء سے فضیلت میں کمتر درجہ کے لوگ اور ان سے کمتر درجہ کے لوگ پھر ہر شخص کو اس کے دین ( سے تمسک ) کی مقدار سے آزمایا جاتا ہے ـ اگر وہ دینداری میں بڑا سخت ہو تو اسے بہت سخت آزمائش میں ڈالا جاتا ہے، اور اگر اس کے دین میں رقت و کمزوری ہو گی تو دین کے معیار کے مطابق اسے آزمایا جائے گا ـ اور بندہ مسلسل آزمائشوں سے دوچار رہتا ہے حتی کہ وہ بندے کو ایسے کر دیتی ہیں کہ وہ اس حال میں زمین پر چل رہا ہوتا ہے کہ اس کے ذمے کسی خطا و گناہ کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا‘‘ ـ
غیروں کو صبرو ثبات کی نصیحت کرنا جتنا آسان ہے خود اس پر کاربند ہونا اتنا ہی مشکل ہے۔ جب ہم خود آزمائش سے دوچار ہوتے ہیں تو اپنا درس ہمارے ذہن سے نکل جاتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں ابتلاء و آزمائش ہمارا بھی مقدر ہے۔ قضاء و قدر کے فیصلے ہم پر بھی نافذ ہوتے ہیں۔ تلاوتِ قرآن کے دوران پڑھی جانے والی یہ حقیقت ہمارے قلب و ذہن سے محو ہوجاتی ہے کہ ’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ : "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے” یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی مہربانی اور رحمت اور یہی سیدھے راستے پر ہیں ‘‘۔ ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ سورہ بقرہ کی اس آیت کے دھواں دھار درس میں ہم نے کیادلائل پیش کیے تھےاور سیرت کے کون سے ایمان افروز واقعات سنائے تھے۔ سچ تو یہ ہے عزیمت کی شاہراہ سے رخصت کی پگڈنڈیوں کا راستہ اسی غفلت کےموڑ سےکھلتاہے ورنہ تو غالب کو بھی پتہ تھا ؎
جان دی، دی ہوئی اسی کی ہے
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
تبصرے بند ہیں۔