حضرت امام حسینؓ کا بچپن
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے لیکر شہادت عظمیٰ تک آپ کے فضائل میں بہت سی حدیثیں مو جود ہیں۔ پھر جو دو نوں شہزادوں حضرت امام حسن وحضرت امام حسین رضی اللہ عنھما کے فضائل میں احادیث کریمہ کے ذخیرہ میں موجود ہیں وہ الگ ہیں، جب سے دنیا قائم ہے اس وقت سے لیکر آج کی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں، لیکن جس طرح کر بلا کی سر زمین میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اپنے جانثاروں کے ساتھ ہوئی اس طرح کی مثال پوری تاریخ (History ) میں نہیں ملتی۔آپ کی ولادت سے لیکر شہادت تک کے واقعات کو پڑھ کرانسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ کے بچپن کے واقعات بھی بہت ہی پیارے ہیں جن کو احا دیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
آپ کی ولادت
ابن علی(حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ) نبی رحمت ﷺ کے چھوٹے نواسے اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چھوٹے بیٹے تھے آپ کی ولا دت مبار کہ5شعبان4ھجری،بمطابق8جنوری626ء کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔(10محرم 61ھجری بمطابق10اکتوبر680ء کر بلا، عراق میں شہید ہوئے) حضور ﷺ نے آپ کے کان میںاذان دی منہ میں لعاب دہن ڈالا اور آپ کے لیے دعا فر مائی پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا، حضرت مفضل سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک حضور ﷺ نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا، کنیت، ابوعبداللہ ولقب’’سبط رسول‘‘ وریحا نۃ الرسول ہے حدیث شریف میں ہے آپ ﷺ نے نے فر مایا کہ ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبیر وشبر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کانام انھیں کے نام پر حسن اور حسین رکھا(صواعق محرقہ ص 118 ) ایک حدیث میں ہے کہ اَلْحَسَنُ وَا لْحُسَیْنُ اِسْمَانِ مِنْ اَھْلِ الجَنَّۃِ۔حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دونام ہیں۔ عرب کے زمانہ جاہلیت میں یہ دو نوں نام نہیں تھے(صواعق محرقہ،ص118) آپ کا عقیقہ ساتویں دن کیا،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے خودامام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنھما کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا۔
حضرت امام حسن و حسین کی پر ورش: آقائے نعمت ﷺ کی گود میں آپ کی پر ورش ہوئی ظاہر سی بات ہے وہ ہستی جس کو اللہ نے دنیا کو راہ راست پر لانے کے لیے رسول بنا کر بھیجا آپ کی نگہداشت میں جو بچہ پلے گا بڑھے گا اس کی تر بیت کے کیا کہنے۔ علامہ ڈاکٹر اقبال عرض کرتے ہیں۔
؎ نور چشم رحمۃً الِّلْعا لمین ٭ آں امامِ اوَّ لیں وآخریں
بانوئے آں تا جدار ہل اَ تٰی ٭ مرتضٰی مشکل کشا شیر خدا
ما در آں قافلہ سالار عشق ٭ ما در آں مر کزِ پر کار عشق
رحمت عالم ﷺ شہید کربلا امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بہت محبت فر ماتے،اور آپ ﷺ نے معر کہ عظیم حق وباطل میں فرق کر نے والی جنگ کربلا کے دن کے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خود تر بیت فر مائی تھی اور آپ کے بارے میں صراحۃ فر ماتے تھے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے اوباش حا کم شہید کریں گے۔اور کبھی فر ماتے اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو یقین کر لینا کہ میرا لخت جگر شہید کیا گیا۔( معجم الکبیر عربی) پیغمبر اسلام ﷺ دونوں بچوں کی پر ورش میں لگے رہتے آپ ہی کے گہوارہ میں آپ دونوں پر وان چڑھ رہے تھے۔ ایک طرف نبی آ خر الز ماں ﷺ جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی جیسا کہ حدیث میں ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ، کہا: رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اخلاق کے مالک تھے۔(مسلم،حدیث 1500) عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حکم’’خُذِا لْعَفْوَ) کو اختیار کرو کہ تفسیر کے سلسلے میں روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں :نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ لو گوں کے بد اخلاقی میں عفو کو اختیار کریں۔ مسلم،(باب عفو در گزر انتقام نہ لینے کا بیان) حدیث 4787 (آپ کے اخلاق کریمانہ کے سایہ میں اور دوسری طرف امیر المومنین علی ابن ابوطالب جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی پر جانثار تھے تیسری طرف فاطمۃالزہرا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر اسلام کی دعوت کو عملی طور پر پہنچا نے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں اس پاک اور نورانی ماحول میں آپ حسین رضی اللہ عنہ کی پر ورش ہوئی ، اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فر ماتے ہیں۔
؎ کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی
زہرا ہیں کلی جس میں حسین وحسن پھول
نواسوں سے رسول اللہ ﷺ کی محبت۔حضرت محمد مصطفٰے ﷺ اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ بہت محبت فر ماتے۔ سینہ مبا رک پر بٹھاتے، کا ندھوں پر چڑھا تے اور مسلمانوں کو تاکید فر ماتے کہ ان سے محبت رکھو۔لیکن چھوٹے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کی محبت کا کچھ خاص امتیاز تھا۔آپ ﷺ نماز میں سجدہ کی حالت میں تھے کہ حسین رضی اللہ عنہ پشت(پیٹھ) مبارک پر آگئے یہاں تک کہ(بچہ) امام حسین رضی اللہ عنہ خود سے بخوشی پشت پر سے اتر گئے توآپ نے سر سجدے سے اٹھایا۔ نبی کریم ارشاد فر ماتے ہیںاَحَبَّ ا للّٰہُ مَنْ اَحَبَّ حُسَیْنًا۔ جس نے حسین سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی(مشکوٰۃ،ص571) اسی لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا حضور ﷺ سے محبت کر ناہے اور حضور سے محبت کر نا اللہ تعا لیٰ سے محبت کر نا ہے ( مرقاۃ شرح مشکوٰۃ،ص05 6)حضرت امام حسین سے آقا ﷺ کی محبت کی بہت سی مثا لیں ہیں اور حدیثیں ہیں،ایک دلپزیر حدیث مطا لعہ فر مائیں اور اپنے دل کو محبت حسین سے بھر لیں حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لا ئے اور فر مایا چھوٹا بچہ کہاں ہے؟ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور حضور کی گود میں بیٹھ گئے اور اپنی انگلیاں داڑھی مبارک میں داخل کر دیں حضور نے ان کا منھ کھو ل کر بوسہ لیا پھر فر ما یااَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُحِبُّہٗ فَاَ حِبَّہٗ وَ اَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہٗ۔تر جمہ: اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فر ما اور اس سے بھی محبت فرما جو اس سے محبت کرے۔(نو را لا بصارص،114،خطبات محرم ص،33)
نبی کریم ﷺ کی تر بیت کا نتیجہ ہی تھا کہ آپ انتہاہی عابد و زاہد اور بہت فضیلت کے مالک تھے۔ کثرت سے نماز، روزہ،حج، صدقہ اور دیگر امور خیر ادا فر ماتے تھے،آپ نے پیدل چل کر 25حج کئے۔اللہ،اللہ! نماز کی پابندی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی شہادت بھی سجدے میں ہوئی آپ کی چاہت و محبت کا دم بھر نے والوں کو نماز سے بھی محبت ہو نی چاہیے تبھی سچے حسینی کہلانے کے حق دار ہوں گے ور نہ دعویٰ بے دلیل صحیح نہیںہوتا۔ آپ کے محاسن و کمالات احادیث سے لیکر بزر گان دین کی بیاض وتاریخ کی کتا بوں میں بھرے پڑے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ آپ کے بچپن سے لیکر شہادت تک کے واقعات اپنے بچوں اور نئی نسلوں کو بتائیں تاکہ ان کے دلوں میں ایمانی حرارت پیدا ہو اور سچ وحق پر چلنے کی تر غیب ملے اللہ ہمیں شہیدان کر بلا کی طرح سچ اور حق پر چلنے اور حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی سے سبق لینے کی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین
تبصرے بند ہیں۔