حضرت خدیجہؓ بنت خویلد
ترتیب: عبدالعزیز
شیخ ابوالحسین احمد بن محمد بن نقور البزار نے ابو طاہر محمد بن عبدالرحمن المخلص کی وساطت سے ابوالحسین رضوان بن احمد کی روایت نقل کی۔ ابوالحسین رضوان نے کہاکہ ابو عمر احمد بن عبدالجبار عطار دی نے یونس بن بکیر کی وساطت سے ابن اسحاق کی روایت بیان کی۔ ابن اسحاق نے کہا پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد اور جناب ابو طالب ایک ہی سال میں وفات پاگئے۔ حضرت خدیجہؓ اور ابو طالب کے انتقال کے صدمے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت جلدی پے در پے برداشت کرنے پڑے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسلام کے معاملہ میں آپؐ کی حقیقی مددگار اور تکالیف میں آپؐ کی غمگسار تھیں۔
جنت میں خدیجہؓ کا گھر: یونس نے فائد بن عبدالرحمن عبدی کے حوالہ سے عبداللہ بن ابی اوفی کی یہ روایت بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس اللہ کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے خدیجہؓ کے بارے میں یہ بشارت دی کہ ان کیلئے جنت میں ایک جو فدار موتی کا محل ہوگا۔ اس محل میں نہ تو شور و شغب ہوگا اور نہ رنج و افسردگی۔
حضرت خدیجہؓ و عائشہؓ: یونس نے ہشام بن عروہ سے اور اس نے اپنے باپ کی وساطت سے حضرت عائشہؓ کی روایت نقل کی ہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے مجھ کو جس قدر رَشک حضرت خدیجہؓ پر ہوتا تھا اتنا کسی دوسری بیوی پر نہیں ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اکثر یاد فرمایا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے تین سال بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا۔ آنحضرتؐ کے پروردگار نے آپؐ کو حکم دیا تھا کہ آپؐ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بشارت دیں کہ ان کیلئے جنت میں ایک جو فدار موتی کا محل ہوگا، اس میں نہ تو شور و شغب ہوگا اور نہ رنج و افسردگی۔
حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کے ساتھ نبیؐ کا حسنِ سلوک: یونس بن عبدالواحد بن ایمن مخزومی کے حوالہ سے ابو نجیح ابو عبداللہ بن ابو نجیح کی روایت نقل کی۔ ابو نجیح نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مذبوحہ بکری یا گوشت بطور ہدیہ پیش کیا گیا، آپؐ نے اس میں سے ایک ہڈی لے لی اور اس ہدیہ کو اپنے دست مبارک میں لے کر فرمایا کہ ’’اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے آپؐ سے کہا ’’آپؐ نے اپنے ہاتھ میں گوشت کی بساند اور چکنائی کیوں لگالی ہے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مجھے اس عورت کے بارے میں خدیجہؓ نے وصیت کی تھی‘‘۔ حضرت عائشہؓ کو اس پر غیرت آئی اور کہاکہ: ’’گویا روئے زمین پر خدیجہؓ کے سوا کوئی عورت ہی نہیں ہے!‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں اٹھ کر چلے گئے اور جب تک اللہ نے چاہا اسی حالت میں رہے پھر واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ ام رومانؓ (حضرت عائشہؓ کی والدہ) آئی ہوئی ہے۔ ام رومانؓ نے عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ! آپؐ کا عائشہؓ کا کیا معاملہ ہے؟ وہ ابھی کمسن ہے اور آپؐ اسے معاف فرما دینے کے زیادہ حقدار ہیں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کے جبڑے کو پکڑا اور کہا: ’’کیا تم نے یہ نہیں کہا کہ گویا خدیجہؓ کے سوا روئے زمین پر کوئی دیگر عورت ہی نہیں ہے؟ بخدا! وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب تمہاری قوم نے کفر کی روِش اختیار کی اور اس کے بطن سے میرے ہاں اولاد ہوئی جو کسی دوسری بیوی سے نہیں ہوئی‘‘۔
دنیا و آخرت کی برگزیدہ عورتیں: یونس نے ہشام بن عروہ کی وساطت سے اس کے باپ عروہ نے عبداللہ بن جعفر کے حوالہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کی روایت نقل کی۔ حضرت علیؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ’’ زمانۂ قدیم کی تمام عورتوں پر مریم علیہا السلام بنت عمران کو فضیلت حاصل ہے اور دورِ جدید کی تمام عورتوں سے افضل خدیجہؓ بنت خویلد ہیں‘‘۔
یونس نے حسن بن دینار کے حوالہ سے حسن کی یہ روایت بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان چار عورتوں کو دنیا کی تمام عورتوں پر فضیلت حاصل ہے:
(1) مریم علیہا السلام بنت عمران۔ (2) آسیہ رضی اللہ عنہ زوجہ فرعون۔ (3) خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد ۔ (4) فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ۔
یونس نے کہاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ کے بارے میں جملہ معلومات حرف بحرف ابن اسحاق کی روایت کے مطابق ہیں۔
حضرت خدیجہؓ کی اولاد: یونس نے ابن اسحاق سے یہ روایت نقل کی کہ سب سے پہلی خاتون جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا وہ خدیجہؓ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح سے قبل جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا باکرہ تھیں تو ان کا پہلا نکاح عتیق بن عائذ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم سے ہوا اور ان کے ہاں ایک بچی کی پیدائش ہوئی پھر عتیق فوت ہوگیا۔ اس کے بعد بنی عمرو بن تمیم کے ایک شخص نے (جو بنی عبدالدار کا حلیف تھا) جس کا نام ابو ہالہ نباش بن زرارہ تھا، حضرت خدیجہؓ سے نکاح کیا۔ اس کے ہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ پھر وہ بھی فوت ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ کو اپنی زوجیت سے نوازا۔ حضرت خدیجہؓ کے بطن سے آپؐ کے ہاں چار بیٹیاں: زینبؓ، رقیہؓ، ام کلثومؓ اور فاطمہؓ پیدا ہوئیں۔ ان کے بعد یہ صاحبزادے :قاسم اور طاہر اور طیبؓ پیدا ہوئے۔(نبیؐ کے صاحبزادگان کا نام قاسمؓ اور عبداللہ ہے۔ طاہر اور طیب حضرت عبدؓاللہ کے القاب ہیں)۔ سب صاحبزادے شیرخوارگی میں ہی فوت ہوئے۔
یونس نے ابراہیم بن عثمان بن حکم سے اور اس نے مقسم کی وساطت سے ابن عباسؓ کی یہ روایت بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے دو صاحبزادے : قاسم اور عبداللہ اور چار صاحبزادیاں : فاطمہؓ ،اُم کلثوم،زینبؓ اور رقیہؓ پیدا ہوئیں۔
یونس نے ابی عبداللہ جعفی سے اور اس نے جابر کے حوالہ سے محمد بن علی کی یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ’’قاسم‘‘ چوپائے کی سواری اور اچھی نسل کی اونٹنی پر سیر کرنے کے قابل ہوچکے تھے۔ جب وہ اللہ کو پیارے ہوگئے تو عمرو بن عاصی نے کہاکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسل ختم ہوچکی ہے، اب وہ ابتر ہیں۔ اس پر اللہ عز و جل نے آیات نازل فرمائیں:
اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرo اِنَّ شَانِءَکَ ہُوَ الْاَبْتَرo
’’(اے نبیؐ!) ہم نے تمھیں کوثر عطا کردیا (یعنی قاسم کی وفات کی مصیبت کے عوض ہم نے تمہیں خیر اور بھلائی اور نعمتوں کی کثرت عطا کر دی ہے)، پس تم اپنے رب ہی کیلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو، تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے‘‘ (الکوثر:1۔3)۔
احمد نے یونس کی وساطت سے ابن اسحاق کی یہ روایت نقل کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت رقیہؓ سے نکاح کیا۔ جب حضرت رقیہؓ فوت ہوگئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کا نکاح حضرت ام کلثومؓ سے کر دیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت عثمانؓ کے ہاں حضرت رقیہؓ کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ تھا۔ یہ لڑکا صغر سنی میں شیر خوارگی کے عالم میں فوت ہوگیا اور عبد اللہ ہی کے نام سے حضرت عثمان غنیؓ کی کنیت ’’ابو عبداللہ‘‘ تھی۔
احمد نے یونس کی وساطت سے ابن اسحاق کی یہ روایت نقل کی کہ حضرت زینبؓ کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے ہوا۔ ان کے صلب سے حضرت زینبؓ کی دو اولادیں پیدا ہوئیں۔ ایک دختر ’’امامہ‘‘ اور ایک فرزند ’’علی‘‘۔ علی لڑکپن میں فوت ہوگئے۔ امامہ باقی رہ گئیں۔ حضرت فاطمہؓ کے انتقال کے بعد حضرت علیؓ کا عقد ثانی حضرت امامہؓ سے ہوا۔ حضرت علیؓ کے قتل کے بعد یہ مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کی زوجیت میں آگئیں اور حضرت امامہؓ کا انتقال مغیرہ کے ہاں ہی ہوا۔
جنت میں خدیجہؓ کا گھر: یونس نے فائد بن عبدالرحمن عبدی کے حوالہ سے عبداللہ بن ابی اوفی کی یہ روایت بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس اللہ کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے خدیجہؓ کے بارے میں یہ بشارت دی کہ ان کیلئے جنت میں ایک جو فدار موتی کا محل ہوگا۔ اس محل میں نہ تو شور و شغب ہوگا اور نہ رنج و افسردگی۔
حضرت خدیجہؓ و عائشہؓ: یونس نے ہشام بن عروہ سے اور اس نے اپنے باپ کی وساطت سے حضرت عائشہؓ کی روایت نقل کی ہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے مجھ کو جس قدر رَشک حضرت خدیجہؓ پر ہوتا تھا اتنا کسی دوسری بیوی پر نہیں ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اکثر یاد فرمایا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے تین سال بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا۔ آنحضرتؐ کے پروردگار نے آپؐ کو حکم دیا تھا کہ آپؐ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بشارت دیں کہ ان کیلئے جنت میں ایک جو فدار موتی کا محل ہوگا، اس میں نہ تو شور و شغب ہوگا اور نہ رنج و افسردگی۔
حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کے ساتھ نبیؐ کا حسنِ سلوک: یونس بن عبدالواحد بن ایمن مخزومی کے حوالہ سے ابو نجیح ابو عبداللہ بن ابو نجیح کی روایت نقل کی۔ ابو نجیح نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مذبوحہ بکری یا گوشت بطور ہدیہ پیش کیا گیا، آپؐ نے اس میں سے ایک ہڈی لے لی اور اس ہدیہ کو اپنے دست مبارک میں لے کر فرمایا کہ ’’اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے آپؐ سے کہا ’’آپؐ نے اپنے ہاتھ میں گوشت کی بساند اور چکنائی کیوں لگالی ہے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مجھے اس عورت کے بارے میں خدیجہؓ نے وصیت کی تھی‘‘۔ حضرت عائشہؓ کو اس پر غیرت آئی اور کہاکہ: ’’گویا روئے زمین پر خدیجہؓ کے سوا کوئی عورت ہی نہیں ہے!‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں اٹھ کر چلے گئے اور جب تک اللہ نے چاہا اسی حالت میں رہے پھر واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ ام رومانؓ (حضرت عائشہؓ کی والدہ) آئی ہوئی ہے۔ ام رومانؓ نے عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ! آپؐ کا عائشہؓ کا کیا معاملہ ہے؟ وہ ابھی کمسن ہے اور آپؐ اسے معاف فرما دینے کے زیادہ حقدار ہیں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کے جبڑے کو پکڑا اور کہا: ’’کیا تم نے یہ نہیں کہا کہ گویا خدیجہؓ کے سوا روئے زمین پر کوئی دیگر عورت ہی نہیں ہے؟ بخدا! وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب تمہاری قوم نے کفر کی روِش اختیار کی اور اس کے بطن سے میرے ہاں اولاد ہوئی جو کسی دوسری بیوی سے نہیں ہوئی‘‘۔
دنیا و آخرت کی برگزیدہ عورتیں: یونس نے ہشام بن عروہ کی وساطت سے اس کے باپ عروہ نے عبداللہ بن جعفر کے حوالہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کی روایت نقل کی۔ حضرت علیؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ’’ زمانۂ قدیم کی تمام عورتوں پر مریم علیہا السلام بنت عمران کو فضیلت حاصل ہے اور دورِ جدید کی تمام عورتوں سے افضل خدیجہؓ بنت خویلد ہیں‘‘۔
یونس نے حسن بن دینار کے حوالہ سے حسن کی یہ روایت بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان چار عورتوں کو دنیا کی تمام عورتوں پر فضیلت حاصل ہے:
(1) مریم علیہا السلام بنت عمران۔ (2) آسیہ رضی اللہ عنہ زوجہ فرعون۔ (3) خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد ۔ (4) فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ۔
یونس نے کہاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ کے بارے میں جملہ معلومات حرف بحرف ابن اسحاق کی روایت کے مطابق ہیں۔
حضرت خدیجہؓ کی اولاد: یونس نے ابن اسحاق سے یہ روایت نقل کی کہ سب سے پہلی خاتون جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا وہ خدیجہؓ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح سے قبل جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا باکرہ تھیں تو ان کا پہلا نکاح عتیق بن عائذ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم سے ہوا اور ان کے ہاں ایک بچی کی پیدائش ہوئی پھر عتیق فوت ہوگیا۔ اس کے بعد بنی عمرو بن تمیم کے ایک شخص نے (جو بنی عبدالدار کا حلیف تھا) جس کا نام ابو ہالہ نباش بن زرارہ تھا، حضرت خدیجہؓ سے نکاح کیا۔ اس کے ہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ پھر وہ بھی فوت ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ کو اپنی زوجیت سے نوازا۔ حضرت خدیجہؓ کے بطن سے آپؐ کے ہاں چار بیٹیاں: زینبؓ، رقیہؓ، ام کلثومؓ اور فاطمہؓ پیدا ہوئیں۔ ان کے بعد یہ صاحبزادے :قاسم اور طاہر اور طیبؓ پیدا ہوئے۔(نبیؐ کے صاحبزادگان کا نام قاسمؓ اور عبداللہ ہے۔ طاہر اور طیب حضرت عبدؓاللہ کے القاب ہیں)۔ سب صاحبزادے شیرخوارگی میں ہی فوت ہوئے۔
یونس نے ابراہیم بن عثمان بن حکم سے اور اس نے مقسم کی وساطت سے ابن عباسؓ کی یہ روایت بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے دو صاحبزادے : قاسم اور عبداللہ اور چار صاحبزادیاں : فاطمہؓ ،اُم کلثوم،زینبؓ اور رقیہؓ پیدا ہوئیں۔
یونس نے ابی عبداللہ جعفی سے اور اس نے جابر کے حوالہ سے محمد بن علی کی یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ’’قاسم‘‘ چوپائے کی سواری اور اچھی نسل کی اونٹنی پر سیر کرنے کے قابل ہوچکے تھے۔ جب وہ اللہ کو پیارے ہوگئے تو عمرو بن عاصی نے کہاکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسل ختم ہوچکی ہے، اب وہ ابتر ہیں۔ اس پر اللہ عز و جل نے آیات نازل فرمائیں:
اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرo اِنَّ شَانِءَکَ ہُوَ الْاَبْتَرo
’’(اے نبیؐ!) ہم نے تمھیں کوثر عطا کردیا (یعنی قاسم کی وفات کی مصیبت کے عوض ہم نے تمہیں خیر اور بھلائی اور نعمتوں کی کثرت عطا کر دی ہے)، پس تم اپنے رب ہی کیلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو، تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے‘‘ (الکوثر:1۔3)۔
احمد نے یونس کی وساطت سے ابن اسحاق کی یہ روایت نقل کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت رقیہؓ سے نکاح کیا۔ جب حضرت رقیہؓ فوت ہوگئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کا نکاح حضرت ام کلثومؓ سے کر دیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت عثمانؓ کے ہاں حضرت رقیہؓ کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ تھا۔ یہ لڑکا صغر سنی میں شیر خوارگی کے عالم میں فوت ہوگیا اور عبد اللہ ہی کے نام سے حضرت عثمان غنیؓ کی کنیت ’’ابو عبداللہ‘‘ تھی۔
احمد نے یونس کی وساطت سے ابن اسحاق کی یہ روایت نقل کی کہ حضرت زینبؓ کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے ہوا۔ ان کے صلب سے حضرت زینبؓ کی دو اولادیں پیدا ہوئیں۔ ایک دختر ’’امامہ‘‘ اور ایک فرزند ’’علی‘‘۔ علی لڑکپن میں فوت ہوگئے۔ امامہ باقی رہ گئیں۔ حضرت فاطمہؓ کے انتقال کے بعد حضرت علیؓ کا عقد ثانی حضرت امامہؓ سے ہوا۔ حضرت علیؓ کے قتل کے بعد یہ مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کی زوجیت میں آگئیں اور حضرت امامہؓ کا انتقال مغیرہ کے ہاں ہی ہوا۔
تبصرے بند ہیں۔