دستار کسی قوم کی معیار نہیں ہے
جمال ؔکاکوی
دستار کسی قوم کی معیار نہیں ہے
دھوکاہے اگر صاحبِ کردار نہیں ہے
…
انساں اگر انسان کا غمخوارنہیں ہے
انسان وہ کہلانے کاحق دار نہیں ہے
…
میرے لئے اب مصر کا بازارنہیں ہے
کوئی بھی میرے دل کا خریدار نہیں ہے
…
الفاظ کا جادو بھی بے سود ہے اے دوست
حاصل اگر شیرینیۓ گفتارنہیں ہے
…
دیکھا ہے وہاں ٹوٹتے ہانڈی کو شب وروز
آنگن میں جہاں بیچ کی دیوارنہیں ہے
…
اک سر کے جھکانے کو عبادت نہیں کہتے
اللہ کے بندوں سے اگر پیار نہیں ہے
…
جینے سے ہیں بیزارجو،ایسے تو ہیں لاکھوں
مرنے کوکوئی فرد بھی تیار نہیں ہے
…
ہم رہ کے وہاں لوٹ کے آئے ہیں وہاں سے
صحراہے جہاں سایہئ اشجار نہیں ہے
…
کل عید نہ ہوگی مری عید نہ ہوگی
افسوس میرے چاند کا دیدارنہیں ہے
…
ممکن نہیں دن آج کا ہم ساتھ گزاریں
یہ میراجمعہ ہے تیرا اتوارنہیں ہے
…
بزمِ سخن سے کہوجمالؔ رہے دور
آواز بھی بھونڈی ہے اداکارنہیں ہے
تبصرے بند ہیں۔