قرآن کا اصل قاری کون: حافظ قرآن یا صاحب قرآن؟
مقبول احمد سلفی
سماج میں لوگوں کے درمیان ایک غلط تصور رائج ہے جس کی اصلاح کے مقصد سے یہ مضمون لکھ رہا ہوں، اللہ سے دعا کرتے ہوئے کہ ہمارے سماج کی اور لوگوں کی اصلاح فرمادے۔
یوں تو دین کی طرف رجحان لوگوں کا کم ہے اس وجہ سے عملا دینداری، احکام شریعت کی پابندی، دین کا حصول اور دینی اداروں کی طرف لوگوں کا میلان کم نظر آتا ہے۔ طلباء کی دینی مراکز میں قلت اور عصر ی تعلیم گاہ میں کثرت لوگوں کے اندر اپنے تئیں اور اپنی اولاد کے تئیں دین سے دوری کا سبب ہے۔ زمانہ چاہے جس قدر ترقی کرلے، سائنس وٹکنالوجی کا جس قدر عروج ہوجائے علوم اسلامیہ کی اہمیت میں ذرہ برابر فرق نہیں آئے۔ یہ بات مبنی برحقیقت ہےکہ دنیا کے تمام علوم کا یہیں سے سرچشمہ پھوٹتا ہے۔قرآنی تعلیم دنیا وآخرت دونوں جہان میں کامیابی کا ذریعہ ہے جبکہ عصری علوم دنیا تک ہی محدود ہیں۔ اے کاش ہم مسلمانوں کو اس کی سمجھ آجائے۔
بعض لوگ دیندار ہیں، اپنے بچوں کی اخروی کامیابی کے لئے اسلامی علوم سے آراستہ کرتے ہیں گوکہ عموما ان کے سامنے معیشت اوجھل ہوتی ہے مگر آخرت کی زندگی بہتر نظر آتی ہے۔ یہ جو بعض لوگ ہیں جن کے اندر اسلامی غیر ت وحمیت ہے، جو جوش اسلام اور محبت دین میں اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے سرشار کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو فکر میں کوتا ہ ہیں، اپنے بچوں کے لئے دور تک نہیں بس نزدیک تک ہی سوچکتے ہیں۔ وہ کون لوگ ہیں ؟ جو اپنے بچوں کو دو تین سالوں میں حافظ قرآن بنادئے اور بس اسی پہ بھروسہ کرلیتے ہیں۔ بچہ اس وقت سے لیکر جوانی تک، اور جوانی سے لیکر بڑھاپے تک حافظ قرآ ن ہی رہتا ہے۔
حفظ قرآن عمدہ تعلیم ہے اور حافظ قرآن ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے مگر یہاں ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے۔ ان تمام سرپرستوں کے لئے غوروفکرکامقام ہے جو احادیث کا صحیح مفہوم نہ جاننے کی وجہ سے اپنے بچوں کا حافظ قرآن ہونا اپنے لئے باعث جنت سمجھ کر بس اتنی ہی تعلیم پر بچے کو روک دیتے ہیں۔ وہ بچہ ساری عمر قرآن کے سہارے جیتا ہے مگر الحمدللہ کا نہ ترجمہ جان پاتا ہے، نہ اس کا مفہوم سمجھ پاتا ہے، پورے قرآن میں غوروفکر اور قرآنی آیات سے نصیحت پکڑنا، ہدایت حاصل کرنا بہت دور کی بات ہے۔ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے۔
پہلے اس بات کی حقیقت جان لیتے ہیں جس پر لوگ تکیہ کرلیتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ بچے کا حافظ قرآن ہونے سےگھر کے دس لوگوں کوجنت کا پروانہ مل جاتا ہے۔
لوگوں میں جو یہ بات مشہور ہے کہ ایک حافظ قرآن اپنے ساتھ دس آدمیوں کو یا دس رشتہ داروں یا دس جہنمیوں کو جنت میں لے جائے گا یہ بات نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ آئیے اس سے متعلق حدیث دیکھتے ہیں۔
پہلی حدیث : لِحامِلِ القرآنِ إذا عمِلَ بِهِ، فأَحَلَّ حلالَهُ، وحرَّمَ حرامَهُ، يشفَعُ فِي عشرَةٍ مِنْ أهلِ بيتِهِ يومَ القيامَةِ، كلُّهم قدْ وجبَتْ لَهُ النارُ۔(شعب الایمان)
ترجمہ : وہ حافظ قرآن جواس کی حلال کردہ اشیاء کوحلال اور حرام کردہ اشیاء کو حرام کرتا ہے وہ اپنے گھرانے کے دس افراد جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی سفارش کرے گا۔
٭ اسے علامہ البانی ؒ نے ضعیف کہا ہے۔ (ضعیف الجامع :4662)
٭ امام بیھقی نے بھی اس کی سند کو ضعیف کہا ہے۔ (شعب الإيمان 2/1038)
دوسری حدیث : مَن قرأَ القرآنَ واستَظهرَهُ فأحلَّ حلالَهُ وحرَّمَ حَرامَهُ أدخلَهُ اللَّهُ بِهِ الجنَّةَ وشفَّعَهُ في عَشرةٍ من أهلِ بَيتِهِ كلُّهُم قَد وجبَت لَهُ النَّارُ(الترمذی:2905)
ترجمہ : جس نے قرآن پڑھا، اسے حفظ کیا، اس کی حلال کردہ اشیاء کوحلال اور حرام کردہ اشیاء کو حرام کرتا ہے وہ اپنے گھرانے کے دس افراد جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی سفارش کرے گا۔
٭خود امام ترمذی نے اس کی سند کو صحیح نہیں بتلایا ہے۔
٭شیخ البانی ؒ نے اسے سخت ضعیف قراردیا ہے۔ (ضعیف الترمذی:2905)
٭شارح ترمذی شیخ مبارکپوری نے ذکر کیا ہے اس میں حفص بن سلیمان ہیں جنہیں حافظ نے متروک الحدیث کہا ہے۔
مذکورہ بالادونوں حدیث سے پتہ چلا کہ حافظ قرآن کا دس ایسے آدمیوں کی سفارش کرنا جس کے لئے جہنم واجب ہوگئی تھی ثابت نہیں ہے، اس لئے یہ بات بیان نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی کسی کو اپنے حافظ قرآن بچہ کی وجہ سے عمل ترک کرکے جنت کی امید لگانا چاہئے۔ انسان کو اپنے کئے کی سزاملے گی اور اپنے ہی نیک اعمال کی بنیاد پر اللہ کی توفیق سے جنت ملے گی۔
ایک تصور تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ حافظ قرآن کا دس لوگوں کی بخشش کرانا غلط ہے، اب یہ جانتے ہیں کہ کسی کا صرف حافظ قرآن ہونا ہی کافی ہے ؟ یا قرآن کے کچھ حقوق وتقاضے ہیں ؟ بلاشبہ قرآن کا حفظ کرنا اور اس کا پڑھنااجر کا باعث ہے لیکن قرآن کے نزول کا مقصد بلاسمجھے قرآن پڑھنا نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے اس لئے قرآن نازل کیا کہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ یہاں پر ایک اور فکر بھی درست کرتے ہیں۔ لوگوں کے یہاں یہ بھی مشہور ہے کہ حافظ قرآن آخرت میں تلاوت کرتا جائے گا اور جنت کی سیڑیاں چڑھتا جائے گا۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں : نبی ﷺ کا فرمان ہے:
يقالُ لصاحِبِ القرآنِ: اقرأ، وارتَقِ، ورتِّل كَما كُنتَ ترتِّلُ في الدُّنيا، فإنَّ منزلتَكَ عندَ آخرِ آيةٍ تقرأُ بِها(صحيح الترمذي:2914، صحيح أبي داود:1464)
ترجمہ: (قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہاجائے گا:(قرآن) پڑھتاجا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہرکر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔پس تیری منزل وہ ہوگی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی۔
آخرت میں تلاوت قرآن کی جو فضیلت ہے وہ فضلیت صاحب قرآن کو حاصل ہوگی اور ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ صاحب قرآن کون ہے ؟ چنانچہ قرآن کریم کے ہم پر پانچ حقوق ہیں۔
پہلا حق: اس پر ایمان لانا ہے، قرآن پر ایمان لانے میں اسے کلام الہی سمجھنا، عدل وانصاف پر مبنی سمجھنا، اس میں ذرہ برابر بھی شک نہ کرنا، اس کے حلال وحرام کو حلال وحرام سمجھنااور اس کی تصدیق کرنا شامل ہے۔ قبرمیں جب مومن بندہ تین سوالات کا جواب دے دیگا تو منکر نکیر چوتھا سوال پوچھیں گے۔ وما يُدريكَ ؟ فيقولُ: قرأتُ كتابَ اللَّهِ فآمنتُ بِهِ وصدَّقتُ(صحيح أبي داود: 4753)
ترجمہ : تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی تو وہ کہے گا : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پہ ایمان لایااور اس کی تصدیق کی۔
دوسرا حق: اس کی تلاوت کرنا اور اسے پڑھناہے۔صاحب قرآن والی حدیث میں "اقرا” سے قرآن کا یہ دوسرا حق بھی مراد ہے جو دنیا میں آدمی ادا کیا کرتا تھا، اس کا فائدہ آخرت میں ہوگا۔
تیسرا حق: قرآن پڑھ کر اس کے مطابق عمل کرنا تیسرا حق ہے۔ قرآن پڑھ کر اس پر نہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیساکہ اس نے قرآن پڑھا ہی نہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الأنعام :155)
ترجمہ: اور (اے کفر کرنے والوں) یہ کتاب بھی ہمیں نے اتاری ہے برکت والی تو اس کی پیروی کرو اور (خدا سے) ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے۔
جو قرآن پڑھے، اسے سیکھے اور اس کے مطابق عمل کرے تو اس کے والدین کو قیامت میں نور کا تاج پہنایا جائے گا۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :من قرأ القرآنَ وتعلَّمه وعمِل به ؛ أُلبِسَ والداه يومَ القيامةِ تاجًا من نورٍ (صحيح الترغيب: 1434)
ترجمہ : جس نے قرآن پڑھا، اسے سیکھااور اس پہ عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا تاج پہنایاجائے گا۔
چوتھا حق: اس میں غوروفکر کرنا ہے یعنی قرآن کا تقاضہ ہے کہ اسے سمجھ کراور غوروفکر کے ساتھ پڑھا جائے۔ جو بلاسمجھے قرآن کو پڑھے وہ قرآن کےپانچ حقوق میں سے چار حقوق کو نہیں ادا کرسکتے ہیں۔ اور اللہ تعالی نے نزول قرآن کے مقصد میں غوروفکر کرنا بھی بتلایا ہے۔ فرمان الہی ہے۔
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (ص:29)
ترجمہ: (یہ) کتاب(قرآن) جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور اہل عقل نصیحت پکڑیں۔
پانچواں حق: قرآن کے حقوق میں پانچواں حق اس کی تبلیغ کرنا ہے۔ یعنی ہم نے جو قرآن پڑھ کر سمجھا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ پہلے ہم اس کے مطابق عمل کریں پھر اس کی تبلیغ دوسروں کو بھی کریں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : بلغوا عني ولو آيةً (صحيح البخاري:3461)
ترجمہ: میری طرف سے لوگوں کو پہنچاؤ خواہ ایک آیت کیوں نہ ہو۔
قرآن کے یہ پانچ حقوق جو ادا کرےگا کامل طور پر صاحب قرآن ہے، جہاں بھی حدیث میں صاحب قرآن کی فضیلت ہے وہ ایسے ہی شخص کو حاصل ہوگی جو قرآن کے جملہ حقوق ادا کرتا ہو۔
عن ابی امامہ رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: اقْرَؤوا القرآنَ . فإنه يأتي يومَ القيامةِ شفيعًا لأصحابه (صحيح مسلم:804)
ترجمہ : حضر ت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :قرآن پڑھا کرو، اس لیے کہ قیامت کے دن یہ اپنے پڑھنے والے ساتھیوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔
یہ حدیث بھی حقوق ادا کرنے والوں کے لئے ہے۔ جوان سارے حقوق کی ادائیگی ترک کردیتا ہے وہ تارک قرآن ہےیعنی جو قرآن پڑھنا، اس کی تلاوت سننا، اس پر ایمان لانا، اس کی تصدیق کرنا، اس کے اوامر کی بجاآوری اور منہیات سے اجتنات کرنا، اس میں غوورخوض کرنا، دوسروں کو اس کی تبلیغ کرنا چھوڑ دے وہ تارک قرآن ہے ایسے شخص کے بارے میں نبی ﷺ اللہ کے حضور مقدمہ درج کرائیں گے۔ اگر حفظ قرآن ہی ہمارے لئے کافی ہوتا تو نبی ﷺ حافظ قرآن کو اس مقدمہ سے علاحدہ کردیتے۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان:30)
ترجمہ: اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب بےشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا بھی ہجران ہے۔ اس پر غور و فکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل نہ کرنا اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے اسی طرح اس کتاب کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔ (تفسیر احسن البیان)
ابوداؤد کی صاحب قرآن والی روایت کے تحت علامہ شمس الحق عظیم آبادی ؒ بعض علماء کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس نے قرآن کے مطابق عمل کیا گویا اس نے ہمیشہ قرآن پڑھا گرچہ وہ اسے نہیں پڑھتا ہو، اور جس نے قرآن پر عمل نہ کیا گویا کہ اس نے قرآن پڑھا ہی نہیں گرچہ وہ ہمیشہ اسے پڑھتا ہو۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا: كتاب أنزلناه إليك مبارك ليدبروا آياته وليتذكر أولو الألباب(یہ کتاب یعنی قرآن مجید جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور اہل عقل نصیحت پکڑیں) پس صرف تلاوت کرنے یا صرف حفظ کرنے سے بلند درجات والی جنت میں اونچے مراتب نہیں ملیں گے۔ (عون المعبود شرح الحدیث رقم: 1464)
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بہت سارے حفاظ قرآن بھول گئے، بہت سارے حفاظ احکام قرآن سے کوسوں دور ہیں، بہت سارے احکام قرآن کے مخالف عمل کرتے ہیں جبکہ وہ قرآن کے حافظ ہیں۔ حفاظ کی اکثریت تو قرآن کے معانی ومفاہیم سے نابلد اور نری جاہل ہیں جبکہ انہیں جنت میں بلند درجات کی امید اور ان کے والدین وگھروالوں کو دس لوگوں کی بخشش کی امید ہے۔
اوپر آپ نے جتنے نصوص کا مطالعہ کیا کہیں پر قرآن کی قرات بغیر عمل کے نہیں ہے کیونکہ قرآن نازل ہی ہوا ہے عمل کرنے کے لئے اور کہیں پر اس کی تلاوت کرنا بغیر سمجھے نہیں ہے کیونکہ قرآن سمجھ کر پڑھنے کے لئے نازل ہوا ہے تاکہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں اور مکمل قرآنی تعلیمات کو عملی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ اللہ کا فرمان ہے :الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ(سورةالبقرة:121)
ترجمہ : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کتاب کی اس طرح تلاوت کرتے جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے، ایسے لوگ ہی اس پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں۔
اس آیت میں تلاوت کی شرط "حق تلاوتہ ” بتلائی گئی ہے اور ایسے ہی تلاوت کرنے والوں کو صحیح ایمان لانے والا قراردیاہے۔ تلاوت کا حق یہ ہے کہ قرآن کو غوروخوض کے ساتھ سمجھ کر پڑھاجائے تاکہ اس پہ عمل کیاجائے۔ لسان العرب میں تلاوت کا ایک معنی یہ بتلایاگیاہے "پڑھنا عمل کرنے کی نیت سے "۔ عمل کرنے کی نیت سے قرآن پڑھنا اس وقت ممکن ہوگا جب اسے سمجھ کرغوروفکر کے ساتھ پڑھاجائے۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حافظ قرآن اور صاحب قرآن میں فرق ہے، اس کا اصل قاری صاحب قرآن ہے۔ ہم صرف قرآن کے حفظ پر اکتفا نہ کریں بلکہ صاحب قرآن کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے قرآن کے پانچوں حقوق ادا کریں۔ اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں تو محض حفظ قرآن تک ان کی تعلیم محدود نہ کریں بلکہ اتنی تعلیم دلائیں کہ وہ قرآن کو سمجھ کر، غوروفکر کے ساتھ پڑھ سکیں، اس کے مطابق عمل کرسکیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں۔ ایسا کرنا آپ کے حق میں بہترین صدقہ جاریہ ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بلاسمجھے قرآن پڑھنے سے اجر نہیں ملتا، جو حافظ قرآن اس کا معنی نہیں جانتے اس کی کوئی فضیلت نہیں ہے۔ بلاشبہ قرآن پڑھنا اوراس کا حفظ کرنا اجر کا باعث ہے مگر آخرت میں نجات اس بات پر موقوف ہے کہ ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اس کے مطابق عمل کریں اور دوسروں کو اس کی دعوت بھی دیں۔ اپنے سماج سے اس تصور کو ختم کریں کہ حافظ قرآن اپنے ساتھ دس لوگوں کو جنت میں لے جائے گا اور اسی طرح اس رسم کو بھی تبدیل کریں جو اپنے بچوں کی زندگی محض حفظ قرآن اور قرآن خوانی تک محدود کردیتے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں قرآن کو سیکھنے، اس کے مطابق عمل کرنے اور دوسروں کو اس کی دعوت دینے کی توفیق دے اور ہمارے بچوں کو حفظ قرآن کے ساتھ اس کے معانی ومفاہیم بھی جاننے کی توفیق دے تاکہ وہ بھی عمل کریں اور دوسروں کوبھی اس کی ترغیب دیں۔ آمین
تبصرے بند ہیں۔