نیاز نامہ

مبصر: محمد یحیٰ

 (ریسرچ اسکالر ڈاکٹر ہری سنگھ گوڑ سنٹرل یونیورسٹی ساگر )

 مرتبہ: صالحہ صدیقی

نام کتاب:  نیاز نامہ

صفحات: 339   

قیمت: 300روپئے

اشاعت:  2017

کتاب ملنے کا پتہ:   ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی

زیر نظر کتاب ’’نیاز نامہ‘‘ نیاز جیراجپوری کی شخصیت اور شاعری پر صالحہ صدیقی کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ اس کتاب کو اتر پردیش اردو اکادمی نے انعام سے بھی نوازا ہے۔ یہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی سے ۲۰۱۷ء میں شائع ہوئی ہے۔ مذکورہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ حصہ اول میں ۳۹ مضامین شامل ہیں جب کہ حصۂ دوم میں ۱۰ نظمیں ہیں جو نیاز جیراجپوری اور اُن کی شاعری پر مبنی ہے۔ ’نیاز نامہ‘ کی مرتبہ صالحہ صدیقی اردو ادب کی ایک باذوق اور ذی حس و متحرک ذہن رکھنے والی ادیبہ ہیں۔ اُن کی تصانیف میں ’’اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں ‘‘(مرتبہ، ۲۰۱۳ء)، ’’ڈرامہ علامہ(علامہ اقبال کی زندگی پر لکھا گیا ڈرامہ، ۲۰۱۵ء)، ’’ضیائے اردو(مرتبہ، ۲۰۱۶ء)، ’’سورج ڈوب گیا کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ(۲۰۱۷ء)، ’’ سورج ڈوب گیا(ہندی ترجمہ، ۲۰۱۷ء)، ’’ڈرامہ علامہ(ہندی ترجمہ، ۲۰۱۷ء) اور’’نیاز نامہ(مرتبہ، ۲۰۱۷ء) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ  متعدد اردو ادب کے موقر رسائل و جرائد میں اُن کے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں مضامین، بچوں کی کہانیاں اور افسانے شائع ہوئے ہیں اور ہوتے رہتے ہے۔ نیاز نامہ کو مرتب کرنے کا مقصد بیا ن کرتے ہوئے صالحہ صدیقی صاحبہ مذکورہ کتاب کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں :

’’اس کتاب کو مرتب کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی۔ ۔ نیا جیراجپوری آج کے اُن قلم کاروں کی فہرست میں شامل ہے جنھوں نے اپنی نو عمری سے ہی خود کو اردو ادب کے لیے وقف کر دیا، اُنھوں نے کبھی نام کمانے، انعام و اکرام حاصل کرنے، شہرت و بلندی حاصل کرنے کے لیے نہیں لکھا۔ ۔ ۔ آج ہندستان یا ہندستان سے باہر اردو شعر و ادب سے تعلق رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اُن کے نام سے ناواقف ہو، ذاتی طور پر نہ سہی، تحریری صورت میں سبھی اُن سے متعارف ہیں اور اُنکی تحریروں سے مستفید بھی ہوتے ہیں، لیکن افسوس کہ اس اہم شخصیت اور اس کے طویل کارناموں اور اس کے فن پر آج تک باقاعدہ کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آئی۔ اسی لیے اس کتاب کو ترتیب دیا گیا، جس سے نیاز جیراج پوری کی شخصیت اور کارناموں کو ممتاز اہل علم و دانش کی ہی زبانی سے سمجھا اور پرکھا جاسکے۔ ‘‘(پیش لفظ، ص۶۵)۔

 اس مرتبہ کتاب میں سب سے دلچسپ بات یہ ہیں کہ صالحہ صدیقی نے 66 صفحات پر مشتمل ایک طویل پیش لفظ لکھا ہیں جس میں نیاز جیراج پوری کی حیات و خدمات پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہیں۔ اس کتاب میں صالحہ صدیقی نیاز جیراج پوری کی ابتدائی زندگی کے سلسلے  میں اپنے پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ :

’’نیازؔ جیراج پوری ۲۱؍ مئی ۱۹۶۰ء؁کو موضع جَیراج پور، ضلع اعظم گڑھ (یُو۔ پی۔ )میں پیدا ہوئے، اسی لئے آگے چل کر انھوں نے اپنی جائے پیدائش کے مقام کے نام پر اپنا تخلص ’جَیراج پوری‘ رکھا۔ لیکن جب آپ نے لکھنے کی ابتدأکی تھی تو کچھ وقت تک ’نیاز اعظمی ‘ کے نام سے ہی لکھتے رہے، بعد میں اپناقلمی نام ’نیازؔ جَیراجپُوری‘اختیار کیا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم اسی گاؤں جیراج پور میں ہوئی یہیں آپ کی پرورش ہوئی۔ ثانوی تعلیم کے لیے آپ کا داخلہ شبلی نیشنل اِنٹر کالج اعظم گڑھ میں کرایا گیا، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصو ل کے لئے علی گڑہ مسلم یونیورسٹی چلے گئے اور تقریبا چودہ سالوں تک وہاں قیام پذیر رہے اور پی۔ یو۔ سی۔، بی۔ اے۔، ایم۔ اے۔ (معاشیات )، ایل ایل۔ بی۔ اور ایل ایل۔ ایم۔ کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد جیراج پور واپس آگئے۔ ‘‘ (پیش لفظ، ص 9)

اس کتاب کوصالحہ صدیقی نے بری خوبصورتی سے ترتیب دیا ہیں، اس کتاب میں شامل ہر مضمون اپنی انفرادی حیثیت رکھتا ہیں اور نیاز جیراج پوری کی شعری زندگی کے ایک نئے گوشے کو منور کرتا ہیں، نیاز جیراج پوری کی شاعرانہ دنیا کا ذکر کرتے ہوئے صالحہ صدیقی لکھتی ہیں کہ :

’’نیازؔ جیراج پوری ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری میں ہر طرح کے رنگ موجود ہیں، آپ نے نظموں کے علاوہ گیت، غزل، قطعات میں بھی طبع آزمائی کی، ان اصناف نے آپ کو نئی شہرت و مقبولیت سے ہمکنار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ۱۹۹۴ء؁ میں نیازؔ جیراج پوری کے گیتوں اور غزلوں کا ایک مجموعہ ’بہاروں کی اداسی ‘دیوناگری رسم الخط میں شائع ہوا۔ نومبر 2003 میں نیاز جیراج پوری نے اعظم گڑھ سے ایک رسالہ ماہنامہ ’شاندار‘ جاری کیا۔ ’شاندار ‘ ذاتی نویت کا شاید واحد ایسا ادبی رسالہ ہے جو گہوارۂ عِلم و ادب اعظم گڑہ نمائندگی کر رہاہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیازؔ جیراج پوری کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ نیازؔ جیراج پوری کی شخصیت، ان کا جنون، ان کا انداز، ان کی فکر اور ایماندارانہ ترسیل انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے کیونکہ ان کی زند گی تجربات و حوادث اور جہد مسلسل کا آئینہ ہے، ان کے مشاہدے کی تیسری آنکھ اور ان کی تخلیقات ثابت کرتی ہیں کہ انھوں نے رنگ بدلتی دنیا کے ستم کو قریب سے دیکھا اور انھیں برداشت کیا ان کی مسلسل رواں دواں زندگی کا غذ پر زندگی کی گھاتیں بھی رقم ہیں تو اغیار کی محبتیں و الفتیں بھی نثار ہیں اور شاید انھوں نے اپنے تخلیقی سفر میں وہ سارے فرض بھی چکائے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں تھے۔ تخلیقی سفر کی سیمابی، للک، کبھی نہ رکنے، کبھی نہ تھکنے والی فطری جبلت اور جولانیوں نے انھیں ’بہاروں کی اداسی ‘ (دیو ناگری رسم الخط ) اور کئی زیرِ ترتیب شعری مجموعوں کی تخلیقیت کا مالک بنا دیا۔ ‘‘ (بحوالہ : پیش لفظ)

 نیاز صاحب کا اب تک کوئی شعری مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا ہے۔ مگر صالحہ صدیقی صاحبہ نے ’نیاز نامہ‘ مرتب کر کے اُنھیں دُنیائے ادب سے متعارف کرایا ہے۔ یوں تو نیاز صاحب نے بہت لکھا اور ان کی شعر شاعری کا سلسلہ بھی طویل عرصے سے رواں رہا لیکن ان کو ادب کی دنیا میں ہمیشہ ہمیش کے لیے محفوظ کرنے کا کام صالحہ صدیقی نے ہی انجام دیا، جس کے لیے میں انھیں مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں، اس کتاب میں مضامین کا ایک ایسا انتخاب شامل کر لیا گیا ہے جن کے مطالعے سے شاید ہی نیاز جیراجپوری کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے کسی ایک گوشے کی تشنگی باقی رہے گی۔ اُمید ہے کہ مذکورہ کتاب نیاز جیراجپوری کو دُنیاے ادب میں زندہ جاوید کر دے۔ ’نیاز نامہ‘ کے مطالعے سے ایک ایسے شاعرکی شعری تخلیقات سے محظوظ ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے جو اب تک دُنیائے شعر و ادب میں بہ ظاہر طور(یعنی کسی شعری مجموعے کے ساتھ) متعارف نہیں ہوئے تھے۔ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر ’نیاز نامہ‘ مرتب نہ ہو پاتی تو ہم ایک ایسے شاعرکو پڑھنے سے محروم ہوجاتے جن کی شاعری پریم چند کی کہانیوں کا دیہی رنگ، ساحر لدھیانوی کی رومانیت اور نظیر اکبر آبادی کی مشترکہ تہذیب کے رنگا رنگ پہلوؤں سے بھری پڑی ہے۔ صالحہ صدیقی صاحبہ سے آگے بھی ’اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں ‘ اور ’نیاز نامہ‘ جیسی مرتبہ تصانیف کی توقع ہے۔ صالحہ صدیقی نیاز جیراج پوری کی نظموں کے سلسلے میں اپنے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں کہ :

’’جب ہم نیازؔ جیراج پوری کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے یہاں موضوعات کیبہت وسعت ہے انھوں نے بے شمار موضوعات پر نظمیں کہی ہیں، مثلاً حمد’اللہ‘، ’اللہ اکبر، نعت ’لولاک‘ کے عنوان سے لکھی جب کہ وطن پرستی پر : ’ترانہ ٔ اُردو‘، ’یوم آزادی ‘، ’جشن آزادی‘، ’صدائے جمہور‘، ’حالِ وطن ‘، ’میرا بھارت ہے مہان‘، ’اے ہند کے جوان‘ جیسے عنوان سے نظمیں کہیں۔ وہیں سرکاری پولیسی سے متعلق نظموں میں ’ مہنگائی‘، ’نیا بجٹ ‘، جیسی نظمیں قلم بند کیں۔

گاؤں دیہات سے بھی بے انتہا محبت کا اظہار بھی نیاز نےؔاپنی نظموں ’گاؤں واپسی ‘، ’گاؤں میں ‘، ’گاؤ ں آئے ہو تو ‘ اور ’ کچّے مکان والے‘کیذریعے کیا اس کے علاوہ نوجوانوں کو خطاب، تاریخی عمارت جیسے اہم موضوعات پر قلم اٹھا یا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیازؔ جیراجپوری کا ایک خاص وصف جو انھیں اوروں سے جدا گانہ تخلیق کار کہنے پر مجبور کر رہا ہے وہ یہ کہ نیاز صرف اپنی تخلیقیت سے قومی یکجہتی کے علمبردار ہیں بلکہ ان کی زبان و بیان اور اسلوب سے بھی قومی یکجہتی کے دھارے پھوٹتے ہیں۔ ان کی زبان کا اندازِ فکر، بیان اور اسلوب ہماری گنگا جمنی تہذیب کے خمیر سے گندھا ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں عربی، فارسی کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں وہیں ہندی و مراٹھی کے علاوہ دیگر ہندوستانی زبانوں کے الفاظ بھی جابجا بکھرے ہوئے ہیں، بلکہ بے شمار نظمیں، گیت اور غزلیں ہندی و مراٹھی بحروں، چھنداور لوک گیتوں کی طرز پر لکھی گئی ہیں۔ دیکھی نیازؔ کی تخلیق ’ماحول‘ عنوان پر مشتمل نظم نما گیت یا گیت نما نظم جو عصری حسیت کی عکاس ہے تو حقیقت نگاری کا جرأ تمند انہ اظہار بھی :

میں بھی بولوں تو بھی بول

دیش کا گڑبڑ ہے ماحول

میں بھی بولوں تو بھی بول

فرقہ پرستی عام ہوئی ہے

یا اللہ ہِے رام ہوئی ہے

نظر نہ آئے کوئی کتارا

بیچ بھنور میں شام ہوئی ہے

دیش کی نیّا ڈانواں ڈول

میں بھی بولوں تو بھی بول

(نظم :  ’ماحول‘ سے)

اس طرح کی بے شمار مثالیں اور نیاز جیراج پوری کی شاعری کے اہم گوشے صالحہ صدیقی نے اپنی کتاب میں عیاں کیے ہیں، یہ مضامین کا مجموعہ یقینا ہمارے ادبی سرمایے میں اہم اضافہ ہے۔ اس کا مطالعہ ہر طالب علم کو کرنا چاہیئے، اس اہم کام کو اور صالحہ صدیقی کی اس کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہئے۔ امید ہے ادبی حلقوں میں بھی اس مجموعہ کا اسی طرح استقبال کیا جائے گا جس کی یہ مستحق ہے۔ میں صالحہ صدیقی صاحبہ کو اس اہم کام کے لیے ایک بار پھر مبارک باد پیش کرتا ہوں، اور ساتھ ہی یہ امید بھی کہ وہ اپنے ادبی سفر کو اسی جوش خروش سے نت نئے مسائل کے انکشاف کے ساتھ جاری و ساری رکھیں گی اور اپنی تخلیقی کاوشوں سے اپنے قاری کو مستفیض کرتی رہیں گی۔

تبصرے بند ہیں۔