ماہ رمضان اور قرآن مجید
محمد عبدالعزیز سہیل
(حیدرآباد)
ماہ رمضان نیکیوں کاموسم بہار ہے، اس ماہ کی خصوصی عبادت روزہ ہے۔ جس کے ذریعے اللہ کا ڈر پیدا ہوتا ہے جسے تقویٰ کہتے ہیں۔ ماہ رمضان قرآن شریف کے نزول کا مہینہ ہے، اس لئے اس ماہ کو قرآن سے خاصی نسبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہ رمضان میں تراویح میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔ رمضان اور قرآن کا آپس میں بہت ہی گہرا ورمضبوط ربط وتعلق ہے، کیونکہ رمضان "شہر القرآن” ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ اس سے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا۔
شہر رمضان الذی أنزل فیہ القرآن ہدی للناس وبینات من الہدی والفرقان
"رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن ناز ل کیا گیا ہے جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کررکھ دینے والی ہیں "(البقرہ 185)
لہذا ماہ رمضان قرآن مجید کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں روزوں کاحکم دیا گیا تاکہ ہمارے اندر روزوں کے ذریعہ تقویٰ کی صفت پیدا ہو (تقویٰ بہ معنیٰ۔ پرہیزگاری، خدا کا خوف کرنا) یہ تربیت کا ماہ ہے۔ یہ نیکیوں کا مہینہ ہے، برائیوں سے بچنے کا مہینہ ہے، یہ صبر کا مہینہ ہے۔
رمضان کے روزیٖ فرض ہیں، روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض تھے۔ روزرں کے ذریعے انسانوں میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے، روزوں کے ذریعہ خداکا خوف اور انسان کے اندر فکرِآخرت کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ رمضان کے روزے اس لیے فرض ہیں کہ قرآن مجید رمضان میں ہی نازل ہوا ہے۔ قرآن مجید تمام انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے نازل کیا گیا ہے۔
خرم مراد رحمۃ اللہ لکھتے ہیں :
"چند دن کی بات ہے، ایک دفعہ پھر رمضان کا مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہوگا، اور اس کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں کو سیراب کرنے کے لیے برس رہی ہوگی۔ اس مہینے کی عظمت و برکت کا کیا ٹھکانا جسے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شھر عظیم اور شھر مبارک کہا ہو! یعنی بڑی عظمت والا مہینہ اور بڑی برکت والا مہینہ!نہ ہم اس ماہ کی عظمت کی بلندیوں کا تصور کر سکتے ہیں، نہ ہماری زبان اس کی ساری برکتیں بیان کر سکتی ہے۔ رمضان المبارک عظیم کیوں ؟ اس ماہ کے دامن میں وہ بیش بہا رات ہے کہ اس ایک رات میں ہزاروں مہینوں سے بڑھ کر خیر و برکت کے خزانے لٹائے گئے اور لٹائے جاتے ہیں۔ وہ مبارک رات جس میں ہمارے رب نے اپنی سب سے بڑی رحمت ہمارے اوپر نازل فرمائی:
إنا أنزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ
ہم نے اسے (کتابِ مبین کو) برکت والی رات میں اتارا(الدخان 3:44)
یہ کتاب مبین کیا ہے؟ تمہارے رب کی طرف سے رحمت ہی رحمت۔ لیکن سچ پوچھیے تو اس ماہ کا ہر روز روزِ سعید ہے اور اس ماہ کی ہر شب شب مبارک”۔
’’قرآن کا مطلوبہ انسان” میں مولانا وحید الدین خاں نے قرآن اور نماز سے متعلق کیا خوب لکھا ہے۔
"اسی نے دراصل خدا کو پایا ہے جس نے قرآن اور نمازکو پایا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اگرآپ کی زندگی میں شامل ہو گئی ہوں تو سمجھئے کے ایمان اور اسلام آپ کی زندگی میں شامل ہو گیا ہے اگرآپ کی زندگی ان سے خالی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ابھی تک ایمان اور اسلام سے محروم ہے”
یہ دونوں چیزوں کی بنیاد ی اہمیت خود قرآن سے ثابت ہے؎
والذین یمسکون بالکتاب وأقاموا الصلاۃ إنا لا نضیع أجر المصلحین
جو لوگ خدا کی کتاب کو مضبوط پکڑ لیتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ایسے مصلحین کا اجر ضائع نہیں کریں گے(الاعراف 170)
ماہ رمضان کی ہر گھڑی میں فیض و برکت کا اتنا خزانہ پوشیدہ ہے کہ نفل اعمالِ صالحہ فرض اعمالِ صالحہ کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں، اور فرائض ستّر گنا زیادہ وزنی اور بلند ہوجاتے ہیں، (بحوالہ : بیہقی، بہ روایت سلمان الفارسیؓ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال مبارک اس ماہ (رمضان) میں بہ نسبت دیگر مہینوں کے مختلف ہوتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں صدقہ واحسان و تلاوت قرآن وصلاۃ ودعاء واستغفار وتسبیح و ذکر واعتکاف وغیرہ عبادات وطاعات میں انتہاء درجہ کا مجاہدہ فرماتے تھے۔
لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بطور نمونہ بنا کر اس مقدس ماہ میں زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت میں وقت صرف کریں، کیونکہ اسی ماہ مبارک میں یہ کلام عظیم نازل ہوا، اور یہی ہماری نجات کا ذریعہ بھی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کریں۔ روازنہ نماز تراویح کی پابندی کی جائے۔ خیر کے کاموں میں ذوق و شوق سے حصہ لیا جائے۔ برائیوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی تاکید کریں۔ زیادہ سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کریں تہجد کی نماز کا اہتمام کریں ذکر واذکار کرتے رہیں۔
علامہ اقبال نے ہماری موجودہ صورتحال کو اس شعر میں کیاخوب بیان کیا ہے دیکھیں ؎
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تاریک قرآں ہو کر
ہم کو غور کرنا چاہیے کہ آج ہماری کیا حالت ہے ؟ ہم میں اکثر لوگوں کو تو رمضان کی اہمیت و فضیلت کا ہی پتہ نہیں، اور رمضان کے لیئے ہم نے تو کوئی معمول سوچا ہی نہیں ہے، کہ رمضان میں قرآن کے ترجمہ کے ساتھ کتنے دور ختم کرنے ہیں، کیا کیا معمولات رکھنے ہیں ؟کیا اہداف ہم کو بنانے ہیں کہ ماہ رمضان سے اپنے حاجات و مصروفیات کو کم کر کے کس طرح رمضان گذارنا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا تعلق ہماری منصوبہ بندی سے ہے۔ اگر ہم نے اچھی منصوبہ بندی کی اور روزانہ بستر پر لیٹنے سے قبل دن بھر کے کاموں کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ ہم نے اپنے اہداف کو کہاں تک حاصل کیا ہے تو کوئی مشکل نہیں کہ ہم رمضان کی حکمت و برکتوں سے خاطر خواہ استفادہ نہ کر سکیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو رمضان کے بیش قیمت اوقات وساعات کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
تبصرے بند ہیں۔