نظرمیں اہل جنوں، جنوں کا اگر مقام نہ ہو
جمال ؔ کاکوی
نظرمیں اہل جنوں، جنوں کا اگر مقام نہ ہو
جہاں میں اہل خرد کا بھی احترام نہ ہو
…
غلام چاند ستاروں کی روشنی محدود
چراغ ڈھونڈھ کے لائیں تو گھر میں شام نہ ہو
…
خوشی کے گیت پرندہ خوشی میں گاتا تھا
بہار آئی ہے بیچارا زیرِ دام نہ ہو
…
قفس کے در میرے صیاد نے تو کھول دئے
ملی رہائی ہے جینا مگر حرام نہ ہو
…
سنے گا سارا زمانہ وہ راہ بر ہوگا
زبان گر کسی انساں کی بے لگام نہ ہو
…
ترا کرم ہے بندے پہ خاص اے مالک
وگرنہ مجھ سے تودنیا کا کوئی کام نہ ہو
…
جناب ِشیخ کی مجلس میں تم نہیں جانا
ثواب پینا ہے تیرا کہیں حرام نہ ہو
…
عدو ہے میرا تو ہنس کر نہ مجھ سے ہاتھ ملا
بغل میں رکھ کے چھری منھ میں رام رام نہ ہو
…
وطن پہ جائے گی جاں اپنے وطن پہ جائے گی
میں سرخرو رہوں، رسوائی میرے نام نہ ہو
…
سفید خون ہے جس کا اور قلب سیاہ
ہمارے ہند میں ایسا سفید فام نہ ہو
…
ہر ایک جرم کی مجرم کو جو سزا مل جائے
یہ ظلم جور مٹے دنیا میں قتل عام نہ ہو
…
صدائے عام نہیں ہے یہ فکر خاص مری
کلام جب میں پڑھوں محفل میں اِزدہام نہ ہو
…
نظر چرائے وہ مجھ سے جمالؔ جاتے ہیں
کلام کیسے ہو ان سے اگر سلام نہ ہو
تبصرے بند ہیں۔