ہاں میں حضرت حسینؓ ہوں!
نازش ہما قاسمی
ہاں میں حسین رضی اللہ عنہ ہوں، جی حسین ابن علی ابن ابی طالب۔۔۔نواسہءِ رسولﷺ۔۔جگر گوشہ بتولؓ۔۔۔ جنتی نوجوانوں کا سردار اور شہید کربلا ہوں۔ میری پیدائش ۵؍شعبان المعظم سن ۴؍ ہجری میں ہوئی۔ میری کنیت ابو عبداللہ ہے۔ نانا محترم نے میرے بارے میں کہا تھا "حسین منی وانا من حسین” یعنی حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں۔ میری پیدائش سے ناناجان بہت خوش ہوئے اور انہوں نے میرے کان میں اذان واقامت کہی اور اپنا لعاب مبارک میرے منہ میں ڈال دیا۔ ہاں میں وہی خوش قسمت ہوں جس کی والدہ خاتون جنت ہے، جس کی عصمت وعفت اور تقدس کی قسمیں اب تک زمانہ کھارہا ہے اور کھاتا رہے گا۔ ہاں میں وہی حسین ہوں جس نے اعلاء کلمتہ اللہ کے لیے اپنی جان تک دے دی؛ لیکن فریق مخالف سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہاں میں ام الفضل بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کی تعبیر ہوں۔
ہاں میں وہی حسین ؓہوں جس کی شہادت کی خبر جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے حضور اقدس ﷺ کو دے دی گئی تھی اور جائے شہادت کی مٹی تک پیش کی گئی تھی۔ ہاں میں وہی حسین ؓہوں جس کے القاب ’ ریحانۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سیدشباب اہل الجنۃ، الرشید، الطیب، الزکی، السید، المبارک، ہیں‘۔میرا نام ’حسین ‘جنتی نام ہے دنیا میں اس سے پہلے کسی نے یہ نام نہیں رکھا۔ ہاں میں وہی حسینؓ ہوں جو بچپن میں روتا تھا تو میرے نانا بلک پڑتے تھے؛ لیکن کوفہ والوں نے مجھے بھوکے پیاسے رکھ کر شہید کردیا۔ ہاں میں وہی حسین ؓہوں جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت برپا ہوئی اور باغیوں نے حضرت عثمان ؓکے گھر کا محاصرہ کیا تو والد محترم علی رضی اللہ عنہ نے بڑے بھائی جان حضرت حسنؓ اور مجھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت پر مامور کیا کہ باغی اندر گھسنے نہ پائیں۔ہاں میں وہی حسین ابن علیؓ ہوں جسے کوفہ والوں نے دھوکہ دیا۔ کوفہ والوں نے ہزاروں خطوط کے ذریعہ مجھ سے التجا کی کہ ’خدا کےلیے یہاں آئیے اور ہمیں یزید کی سلطنت سے نجات دلائیے۔‘
ان خطوط کے بعد میں نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل ؓکو اہل کوفہ کے پاس بھیجا پہلے بارہ ہزار پھر اٹھارہ ہزار کوفیوں نے مسلم بن عقیل ؓ کے ہاتھوں پر بیعت کی جس کے بعد مسلم بن عقیل ؓ نے مجھے ان لفظوں میں خط لکھا ’آپ فوراً تشریف لے آئیں، تقریباً اٹھارہ ہزار افراد ہمارے ہاتھ پر آپ کی بیعت کرچکے ہیں، اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے، نامعلوم ابھی اور کتنے افراد آئیں گے اور اپنی جان ومال بوقت ضرورت آپ پر قربان کردینے کاعہد کریں گے ’ آپ توقف نہ کیجئے اور جلد از جلد یہاں پہنچ جائیں‘۔ کوفیوں کی بیعت اٹھارہ ہزار سے تقریباً اسی ہزار تک پہنچ گئی۔ اور پھر تاریخ نے یہ ستم بھی دیکھا کہ وہی اسی ہزار افراد جو بیعت کرچکے تھے انہوں نے ہی مسلم بن عقیل ؓکو شہادت کے مرتبے پر فائز کردیا۔ کوفیوں نے مسلم بن عقیل ؓکے سا تھ وفا نہ کی ان کے بھیجے ہوئے خط کی بنیاد پر میں نکلنے کی کوشش کرنے لگا، مجھے وہاں جانے سے روکنے کےلیے عمروبن عبدالرحمنؓ، عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، ابو بکر بن حارثؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور میرے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر طیار ؓوغیرہ آئے؛ لیکن میں عزم مصمم کرچکا تھا انہوں نے ان الفاظ کے ذریعہ مجھے رخصت کیا ’اے شہید ہم تجھے خدا کو سونپتے ہیں، اگر بے ادبی نہ ہوتی تو ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زبردستی پکڑ لیتے اور ہر گز نہ جانے دیتے ‘۔
جب میں مقام زبالہ پر پہنچا تو مشہور شاعر ایاس بن عباس طائی مجھے ملا اس نے بھی مجھے منع کیا اور کہا کہ ان لوگوں کے دل تو آپ کی طرف ہیں؛ لیکن ان کی شمشیریں اور ان کے نیزے شامیوں کے ساتھ ہیں لہذا ادھر کا قصد نہ کریں اوریہیں سے لوٹ جائیں۔ بالآخر۲؍محرم الحرام ۶۱ ہجری کو میں کربلا کے بے آب وگیاہ میدان میں مجبوراً خیمہ زن ہوا اس وقت میرے ہمراہ میرے جانثار پینتالیس سوار اور ایک سو پیادے تھے (بعضوں نے ایک ہزار سوار لکھا ہے) جب ابن زیاد کو یہ خبر ملی کہ میں کربلا پہنچ چکا ہوں تو اس نے مجھے ایک خط لکھا کہ ’میں نے سنا ہے کہ آپ نے میدان کربلا میں قیام فرمایا ہے، مجھے دمشق سے حکم ملا ہے کہ آپ سے یزید کی بیعت کی درخواست کروں اور اگر آپ انکار کریں تو آپ کو یزید کے پاس دمشق بھیج دوں فرمائیے، آپ کا کیا ارادہ ہے؟ اس خط کو میں نے پڑھ کر پھینک دیا اور قاصد سے کہا جائو میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں اور ابن زیاد سے کہہ دینا کہ تجھ پر خدا کا غضب نازل ہوگا؟ پھر ابن زیاد نے تقریباً ۱۴ ہزار فوجیوں کو مجھے یزید کی بیعت پر مجبور ہونے کےلیے بھیجا، میں نے عمر بن سعد شمر بن ذی الجوشن اور حصین بن تمیم کی فوجوں سے مخاطب ہوکر کہا ’کیا تم نے مجھے خطوط لکھ کر نہیں بلایا؟ لیکن کوفی پلٹ گئے انہوں نے سرے سے انکار کردیا اور کہا ہم نے آپ کو نہیں بلایا، نہ ہم نے آپ کو خط لکھے، نہ آپ کے پاس ہم نے قاصد بھیجے‘‘۔ پھر کربلا میں مصیبت و آلام کے پہاڑ ٹوٹے، آزمائش کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ دس محرم الحرام سن ۶۱ کا دن آن پہنچا، صلح کی آخری گفتگو ناکام ہوچکی تھی پھر رزم حق وباطل گرم ہوا، تاریخ انسانی گنگ ہوگئی۔
پوری دنیا کی نگاہیں کربلا میں مظلوم حق پرستوں کی طرف اُٹھی ہوئی تھیں؛ لیکن باطل پورے طمطراق سے موجود تھا، عددی طاقت کی بنیاد پر وہ بظاہر غلبہ پاگیا اور میں اپنے ۷۲ ساتھیوں سمیت ہمیشہ کےلیے زندہ ہوگیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فریق مخالف کے سامنے نہ جھک کر دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ اعلاء کلمۃ اللہ کےلیے کبھی جان دینے کی نوبت آجائے تو اس سے بھی گریز نہ کیاجائے، باطل سے سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ میں نے اپنے تمام خاندان کو قربان کر دیا میں نے حق پر ثابت رہتے ہوئے فسق و فجور کا مقابلہ کیا اور آنے والی نسلوں کے لیے عزم و ہمت کی بے نظیر مثال قائم کی۔
سنو دنیا والو! اہل کربلا کے مصائب پر جھوٹے آنسو بہالینے سے میری روح خوش نہیں ہوگی اگر سچی محبت ہے تو ہماری پیروی کرتے ہوئے حق وصداقت کے پرچم کو بلند کریں اور جہاں جہاں آج کربلا برپا (شام، عراق، فلسطین، اردن، لیبیا، افغانستان ) ہے وہاں کے مسلمانوں کو امن وسکون اور چین فراہم کریں حق پرستوں کی جماعت کو یوں نہ ستائیں وہ تو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گی؛ لیکن تم ان ہی کوفیوں کی طرح ہمیشہ مردوملعون رہوگے۔
تبصرے بند ہیں۔